تاریخ ولادت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم

سوال :   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد ساری دنیا میں بارہ ربیع الاول کو بڑی تزک و احتشام کے ساتھ منائی جاتی ہے ۔ لیکن بعض حضرات بارہ ربیع الاول کے بجائے دوسری تواریخ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ قطعی طور پر ولادت نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کیا ہے وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں تو مہربانی ؟
محمد اکرم اللہ نوید، ورنگل
جواب :  رسول مقبول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت موسم بہار میں دوشنبہ کے دن 12 ربیع الاول سنہ اعام الفیل / (20 اپریل ) 570 ء کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ تاریخ انسانیت میں یہ دن سب سے زیادہ با برکت ، سعید اور درخشاں و تابندہ ہے۔
آپؐ کی ولادت کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور یقینی ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ اور دوشنبہ کا دن تھا اور وقت بعد از صبح صادق و قبل از طلوع آفتا ب۔ دوشنبہ (پیر) کا دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ کو پیدا ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا ۔ دوشنبہ کو مکے سے مدینے کو ہجرت کے لئے نکلے اور دوشنبہ کو آپؐ مدینے میں (شاید قباء مراد ہے جو مضافات مدینہ میں ہے) تشریف فرما ہوئے ۔ دوشنبہ کے دن آپؐ نے دارفانی کو خیر باد کہا اور دوشنبہ کے دن ہی آپؐ نے حجر اسود کو (25 برس کی عمر میں) بیت اللہ میں نصب فرمایا تھا (ابن کثیر : السیرۃ النبویہ ، 198:1 ) ، ایک روایت میں دوشنبہ کے ساتھ 12 ربیع الاول کا بھی ذکر ہے اور ساتھ ہی معراج نبوی کا دن بھی دوشنبہ بتایا گیا ہے (کتاب مذکور ، 199:1 ) ۔ جمہورؒ کے نزدیک ولادت مبارک کی تاریخ قمری حساب سے 12 ربیع الاول ہے، مگر کتب سیرت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں اور تاریخیں بھی مذکور ہیں۔ (شبلی نعمانی نے  سیرت النبی (171:1 ) میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری نے اپنی کتاب رحمت للعالمین (40:1 ) میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل / 22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ اس وقت شاہ ایران نوشیروان کے جلوس تخت کا چالیسواں سال تھا اور اسکندر ذوالقرنین کی تقویم کی رو سے سنہ 882 تھا ۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی دیکھئے Muhammad Rasullah ص : 1 کراچی 1979 ۔ وہی مصنف ، Jurnal of Pak. Historical Society ،  1968 ء کراچی ، 216:16 تا 219 ) ۔

قبر کو سجدہ کرنا
سوال :  ہر مسلمان جانتا ہے کہ شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے پھر بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ کئی مسلمان شرک کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں کرتے۔ مثلاً سب جانتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ پھر بھی ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ درگاہ کی چوکھٹ پر ہی فوراً سجدہ کر کے اندر داخل ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد قبروں کو سجدہ کرتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی بھی درگاہ میں محفل سماع کے وقت مرشد کو باقاعدہ سجدہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ نماز میں کیا جاتا ہے ۔ کیا یہ کھلا ہوا شرک نہیں ہے اور اسے ہمارے علماء روکتے کیوں نہیں۔
– 2 نماز جمعہ اور نماز عید کے لئے امامت کرنے کیلئے کیا امام کو کسی مدرسہ کا فارغ تحصیل ہونا ضروری ہے یا اسے سند یافتہ خطیب ہونا ضروری ہے  اور عربی زبان کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے یا کوئی بھی نیک مسلمان جو گناہ سے بچتا ہو اور نیکیاں کرتا ہو جسے سب لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں امامت کر سکتا ہے۔ برائے مہربانی ان سوالوں کا جواب جلد از جلد دیں۔
محمد زین العابدین، جھرہ
جواب :  غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ غیر خدا کو سجدہ کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ لاتسجدوا للشمس ولا للقمر الایۃ (تم سورج اور چاند کو سجدہ مت کرو) واسجدواللہ الذی خلقھن ان کتنم ایاہ تعبدون۔ (اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرتے ہو تو صرف اور صرف اس کو سجدہ کیا کرو) ۔ لہذا تمام اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ قبر ، مزارات کی چوکھٹ اور پیر و مرشد کو سجدہ سے احتراز کریں۔ عقیدت ایک قلبی کیفیت کے نام ہے اور وہ محمود و مطلوب ہے لیکن اس کے اظہار کے لئے غیر شرعی طریقہ اختیار کرنا جہالت ہے  اور غیر خدا کو خدا جان کر سجدہ کرنا بلا شبہ شرک ہے۔ وہ اسلام سے خارج ہے اور غیر خدا کو مخلوق سمجھتے ہوئے تعظیم کی خاطر سجدہ کرنا ممنوع و ناجائز ہے،شرک نہیں۔
– 2 جمعہ و عیدین کی امامت کے لئے اہلیت شرط ہے ۔ کسی مدرسہ کا سند یافتہ یا فارغ ہونا ضروری نہیں۔ تاہم مدرسہ کی سند اس کی اہلیت کی ایک علامت ہے۔ گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اہلیت امامت کے لئے کافی نہیں۔
کھانے کی خاطر فقھی مسلک بدلنا
سوال :  ایک شخص جو کہ نسل در نسل سے حنفی ہے۔ اس نے بعض اشیاء کے استعمال کرنے کے لئے حنفی سے شافعی مذہب قبول کرلیا ہے اور اس کا کہناہے کہ وہ تقلید کر رہا ہے ۔ اس لئے گنہگار نہیں ہے تو کیا شریعت مطھرہ میں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی جانور کو کھانے کے لئے اپنے مذہب کو تبدیل کرسکتا ہے ۔ کئی ایسے جانور ہیں جو ازروئے فقہ حنفی اس کا کھانا جائز نہیں اور دوسرے مذاہب میں جواز نکل جاتا ہے۔ کیا مذہب تبدیل کرنے کی گنجائش ہے ؟ براہ کرم اس بارے میں شرعی احکام بیان کیجئے ؟
سلیمان قادری، چھتہ بازار
جواب :   اگر کسی حنفی یا شافعی دنیوی غرض اور منفعت کے لئے یا بغیر سوچے سمجھے بلا دلیل اپنا مذہب تبدیل کرلیتا ہے تو اس شخص نے چونکہ اپنے پہلے مذہب کی توہین کی ہے ، اس کو خفیف جانا ہے اس لئے وہ آخرت میں گنہگار وماخوذ ہوگا اور دنیا میں تعزیری سزا کا بھی مستحق ہوگا اور اگر اس کا مبلغ علم پایہ اجتھاد کو پہنچا ہوا ہے، وہ اپنے اجتھاد میں مذہب کے بدلنے سے شریعت کی بھلائی جانتا ہے ، کوئی دنیوی غرض نہیں ہے تو ایسے شخص کے لئے اپنا مذہب تبدیل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں۔ در مختار جلد 3 ص : 196 میں ہے : ارتحل الی مذہب الشافعی یعزر ، سراجیہ ۔ اور اسی جگہ رد المحتار میں ہے : ای اذا کان ارتحالہ لالغرض محمود شرعا اور اس صفحہ میں ہے تاتارخانیہ سے منقول ہے: ولو ان رجلا بریٔ من مذھبہ باجتھاد وضح لہ کان محمود امأ جورا اما انتقال غیرہ من غیر دلیل بل لما یرغب من غرض الدنیا و شھوتھا فھو المذموم الآثم المستوجب للتادیب والتعزیر لارتکابہ المنکر فی الدین و استخفافہ بدینہ و مذھبہ۔
پس صورت مسئول عنہا میں چاروں مذاہب برحق ہیں اور امت اسلامیہ نے صدیوں سے نہ صرف ان کی حقانیت کو تسلیم کیا ہے بلکہ اس پر عمل پیرا ہے ۔ قرون اولی کے اکابر فقہاء و اجلہ محمدثین نے تقلید میں نجات کو پایا ہے ۔ اب کسی شخص کا اپنی دنیوی غرض و منفعت کیلئے اپنے مذہب کو ترک کرنا اور کسی جانور کو کھانے کیلئے دوسرے مذہب کو اختیار کرنا شرعاً مذموم ہے  اور اسلامی ملک ہو تو زجر و توبیخ و تعزیری سزا کا مستحق ہے ۔

اولین خطبۂ نبوی
سوال :  میں ایک طالب علم ہوں، گزشتہ سال مجھے سیرت کے موضوع پر تقریر کرنا تھا ، الحمدللہ میں اس میں امتیازی درجہ سے کامیاب ہوا تھا ، ہمارے اسکول میں ایک سیرت کے موضوع پر مقابلہ ہے ۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات پر تقریر کرنا ہے، مجھے خطبہ حجۃ الوداع تو مل گیا لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس میں حضور کا سب سے پہلا خطبہ بھی آخری خطبہ کے ساتھ بیان کروں لیکن مجھے پہلا خطبہ نہیں مل رہا ہے ۔ اگر آپ بیان کریں تو مہربانی ؟
محمد شاہد اللہ، بہادر پورہ
جواب :  حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اولین خطبہ ، جو تاریخ میں محفوظ ہے اس میں آپؐ نے اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے قریش مکہ اور عرب و عجم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : ان الرائد لا یکذب اھلہ لو کذبت الناس جمیعا ما کذبتکم ولو غررت الناس جمیعا ماغررتکم ۔ واللہ الذی لا الہ الا ھو انی رسول اللہ الیکم خاصۃ والی الناس کافۃ۔ واللہ لتموتن کماتنامون و لتبعثن کما تستیقظون و لتحسبن بما تعملون و لتجزون بالاحسان احسانا و بالسوء سوء وانما الجنۃ ابدا ’’ والنار ابدا ‘‘  یعنی کوئی بھی خبر لانے والا ا پنوں سے جھوٹ نہیں بولتا ! بخدا! اگر میں سب لوگوں سے بھی (بفرض محال) جھوٹ بولتا تو بھی تم سے کبھی جھوٹ نہ بولتا اور اگر میں سب دنیا والوں کو بھی (ولو بالفرض) دھوکہ دیتا تو تمہیں پھر بھی کبھی دھوکہ نہ دیتا ۔ قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ، جسے تمہاری طرف خصوصاً بھیجا گیا ہے اور باقی تمام انسانوں کی طرف بھی بھیجا گیا ہوں ، واللہ ! تم اسی طرح مرجاؤگے جس طرح تم سوتے ہو اور اسی طرح اٹھوگے جس طرح تم بیدار ہوتے ہو ! تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہی ہوگا ۔ پھر (یاد رکھو) بھلائی کا بدلہ بھلائی اور برائی کا بدلہ برائی ہوگا ، پھر یا تو ہمیشہ کے لئے جنت ہوگی یا جہنم (ابن الاثیر : الکامل ، ص 27 ، السیرۃ ا لنبیؐ، 246:2 ، الحلیہ ، 272:1 ، جمہرۃ خطب العرب ، 5:1 ) ۔

مکمل رقم ادا کئے بغیر عمرہ کرنا
سوال :  تین افراد آدمی عمرہ کی غرض سے آئے اور ویزا ٹکٹ کی قیمت طئے ہوئی لیکن گورنمنٹ کا بجٹ آنے سے فی کس 1200 روپئے ٹکٹ میں اضافہ ہوگئے اور تینوں نے 1200 روپئے فی کس ادا کرنے کا وعدہ کیا اور بغیر پیسہ ادا کئے عمرہ کیلئے چلے گئے ۔  کیا ان کا عمرہ صحیح ہوگا کیونکہ ہم ہمارے سرویس چارجس بھی ان سے کچھ نہیں لئے ۔ شرعاً کیا حکم ہے ؟
نام …
جواب :  عمرہ پر جانے والے تینوں حضرات نے حکومتی بجٹ کے اضافہ ہونے کی بناء مزید (1200) روپئے ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا تو حسب وعدہ اس رقم کی ادائی ان پر لازم رہے گی ۔عمرہ کرنے سے یہ رقم ساقط نہیں ہوگی ۔
مسجد میں سلام کرنا
سوال :  اکثر لوگ مسجد میں داخل ہوتے وقت بہ آواز بلند سلام کرتے ہیں۔ بعض لوگ نماز میں کوئی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں تو کیا سلام کا جواب نہ دیں تو کیا حکم ہے ؟
مرتضیٰ خان، کنگ کوٹھی
جواب :  مسجد میں لوگ  نماز ، تلاوت قرآن ، ذکر و شغل میں مشغول رہتے ہیں اس لئے بہ آواز بلند سلام نہ کریں۔ اگر کوئی بہ آواز بلند سلام کرے تو ذکر میں مشغول شخص کو سلام کا جواب دینا واجب نہیں۔ عالمگیری جلداول ص : 325 میں ہے : والذین جلسوا فی المسجد للقراء ۃ والتسبیح اولانتظار الصلوۃ ما جلسوافیہ لدخول الزائرین علیھم فلیس ھذا أوان السلام فلا یسلم علیھم و لھذا قالوا لو سلم علیھم الداخل وسعھم أن لا یجیبوہ۔