احسن بن محمد الحمومی
ادبیات عربی کی تاریخ پر مختلف مورخوں نے اپنی کاوشوں کو منظر عام پر لایا ہے جن میں سے بعض بہت مقبول ہوئیں ۔ ادبیات عربی یعنی تاریخ ادب عربی اسکے ادوار اسکے اہم ادباء ، شعراء ، نثر نگار اسکے مدارس وغیرہ یہ باضابطہ نصاب کا اہم ترین حصہ ہے ۔ اس فن میں احمد حسن زیات کی کتاب بڑی مقبولیت حاصل کی لیکن اسلوب قدیم طوالت اور تبویب کا کماحقہ لحاظ نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی طلبہ کیلئے خلاصہ ، بحث اور عنوان کا احاطہ آسان نہیں لہذا اس فن میں دوسری مشہور اور متداول کتاب عیسائی مورخ جرجی زیدان (1914-1861) جو ایک مشہور ادیب ، ناول نگار ، مورخ اور صحافی گذارا ہے ۔ لبنان کا رہنے والا تھا ۔ مجلہ الہلال کی بنا اسی نے ڈالی تھی ، زبان عربی کے علاوہ عبرانی ،سریانی ، فرانسیسی ، انگریزی میں دسترس حاصل تھی ۔ اسکی ایک کتاب ’’تاریخ آداب اللغتہ العربیۃ‘‘ نے عربی ادب کے اسکالرس کو اپنی طرف متوجہ کیا اور یہ کتاب بلا لحاظ ہر درجہ کے اسکالرس اس سے مستفید ہوتے ہیں ۔زبان عام فہم ، اسلوب واضح ، اور عنوان کا احاطہ ، عنوان کی تقسیم و تبویب میں اپنا ایک معیار قائم کیا ۔ جرجی زیدان کی یہ کتاب جملہ چار جلدوں پر مشتمل ہے ۔ کئی بار اس کی طباعت ہوئی عالم عرب میں یہ ایک معروف نام ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہیکہ عربی زبان اور اسکی تاریخ عہد ماضی میں اسلام اور مسلمانوں سے مربوط ہے ۔ زبان عربی کی تہذیب اور اسلوب چونکہ عربوں سے وابستہ ہے اور عرب قوم ہی اسلام کا پہلا مدعو اور قرآن کا پہلا مخاطب ہے ۔ چنانچہ تاریخ آداب عربی کی تدریس میں خواہ نا خواہ عقائد اور نظریات اسلام سے ضرور واسطہ ہوتا ہے چنانچہ کوئی مورخ عرب کی ان شاہراہوں سے گذرے اور اس پر تبصرہ نہ کرے یہ ممکن نہیں ۔ اگر مورخ کا ذہن اسلامی ہو تو وہ جابجا قرآن و حدیث کی تعلیمات کومدنظر رکھتا ہے اور تاریخ کو قرآن کی نظر میں دیکھتا ہے لیکن اگر اسلام بیزار طبعیت کا مورخ ہو تو وہ تاریخ کی عینک سے قرآنی حقائق کو دیکھتا ہے ۔ تو بسا اوقات اسلامی روایات کی تکذیب نہیں تو غلط تاویل ضرور کربیٹھتا ہے۔ بسا اوقات کتاب کی مقبولیت اسکے عیوب و نقائص کو چھپادیتی ہے ۔
ان حالات میں مذکورہ کتاب کی افادیت کے پیش نظر ہمارے اسلاف نے اس سے بھرپور استفادہ تو کیا لیکن ان مقامات کی نشاندہی کردی جہاں پر نظریات اسلامی کی غلط ترجمانی کی گئی ہے ۔ جرجی زیدان کی اسلام کے تئیں نظریات کوئی مخفی نہیں علامہ شبلی نے بھی جرجی زیدان کی بڑی کیفیت لی ہے ۔ سردست تاریخ آداب اللغتہ العربیۃ تالیف جرجی زیدان کا اسلامی نقطہ نظر سے کیا گیا ایک مطالعہ پیش خدمت ہے ۔
یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے اس کی پہلی جلد جملہ 320 صفحات پر مشتمل ہے ۔ عربوں کے محامد اور فطری صلاحیتوں اور طبعی محاسن میں یہ جلد ایک مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اور بڑی قابل قدر کوشش کی ہے مصنف نے اس جلد کی پیش کش میں لیکن جہاں عربوں کی تعریف کی وہی اس پردہ میں اسلام کو زک پہنچانے کی بڑی باریک کوشش کی گئی اور جابجا اسلام اور اس کے تمدن کی تحقیر کی کوشش کی مضمون ھذا میں ہم ان مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں مثلاًصفحہ نمبر 33، 73 میں عربوں کی خوب تعریف کی گئی ، انکی خوبیوں کو سراہا گیا اور جاہلیت کے دور کو ایک سنہرا دور سے تعبیر کیا اور معاً اسلام کے آمد کے تذکرے میں یوں رقمطراز ہے ۔ ترجمہ ۔ اسلام کا آنا اور لوگوں کا اس میں مشغول ہونا یعنی مسلمان ہونا تھا کہ تمام مناقب و صلاحیتیں مٹ گئی ۔ اس سے یہ تصور قاری پر ہوتا ہے کہ عہد قدیم کی خوبیاں اسلام کی وجہ سے مٹ گئی حالانکہ اسلام بے شمار خوبیوں کو نکھارا اور خرابیاں مٹائیں ۔
اور اس جلد کے صفحہ 67 میں ابرہہ کے لشکر کے متعلق قرآنی نظریہ کے برخلاف یہ لکھا ہے کہ حبشیوں نے بہ سرگروہی ابرہہ جب مکہ پر چڑھائی کی تو قریش نے اتحاد کی ضرورت محسوس کی اور سب نے متحد ہو کر اس حملہ کو روکا اور ان کو نکال دیا ۔ حقیقت یہ ہیکہ اتنے بڑے لشکر کا سامنا قریش کے لئے کہاں ممکن تھا اس موقع پر تو قریش بالکل خاموش رہے اور من اللہ کعبتہ اللہ کی حفاظت ’’ابابیل‘‘ کے ذریعہ کی گئی جو قرآن مجید کے نص قطعی سے ثابت ہے ۔
مصنف کی اس سادی لیکن حقائق سے دور تحریر سے قرآن کا مضمون متاثر ہورہا ہے ۔
قدیم عربی شاعری کی نہایت تعریف کرتے ہوئے مصنف نے صفحہ 111 میں لکھا ہے کہ ’’خلفائے راشدین نے لوگوں کو روک دیا کہ شاعری میں مشغول نہ ہوں ۔ قرآن میں منہمک رہیں‘‘ ۔ اس سے شبہ ہوسکتا ہے کہ ادبی ترقی میں خلفائے راشدین کا طریق عمل سنگ راہ بنا ہوگا۔ حالانکہ واقعات اس کے سراسر مخالف ہیں ۔ حضرت عمرؓ کا حکم تھاکہ ہمیشہ نہایت عفیف و پاک ترین اشعار پڑھا کرو اور یہ سلسلہ جاری رکھو (ملاحظہ ہو کتاب جمہرۃ اشعار العرب لابی زید لقرشی ۔ صفحہ 15) تعلیمی صیغے میں ان کی تاکید تھی کہ لڑکوں کو بہترین اشعار ضرور روایت کراؤ (ملاحظہ ہو کتاب البیان والتبیین للجاحظ البغدادی ۔ جلد 1 صفحہ 213) حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو ابن عم رسول اللہؐ تھے کہا کرتے تھے کہ قرآن کے سمجھنے میں اگر کوئی مشکل پیش آئے تو اشعار عرب سے اس کو حل کرلیا کرو (ملاحظہ ہو کتاب العمدہ لابن رشیق الفیروانی ج 1 ص 11) ۔ جن بزرگوں کے یہ احکام ہوں وہ ادبی ترقی کے حامی کہئے جائیں گے یا اس میں حائل مانے جائیں گے ؟
اسلام دشمن طاقتوں کے مفتریات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید میں کلام عرب کے مشہور جملے اور فقرے داخل کرلئے تھے جسے وہ سرقہ کہتے ہیں ۔ نعوذ باللہ ۔ مصنف بھی انھیں لوگوں کے ہم آہنگ معلوم ہوتے ۔صفحہ 139 میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قس بن ساعدۃ الایادی کے کلام کو لے کے حدیث بنالیا‘‘ ۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ؟
قرآن کو تمام مسلمان منزل من اللہ مانتے ہیں ۔ مگر مصنف نے صفحہ 201 میں جو عبارت لکھی ہے اس سے مترشح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مصنف تھے نعوذ باللہ شاید اسی ادعا کی تائید مقصود ہوگی کہ صفحہ 19 میں لکھتا ہے کہ ’’مسلمانوں کا ایک فرقہ سورہ یوسف کو کلام اللہ نہیں مانتا‘‘ ۔ مصنف کو علامہ شہرستانی کی الملل و النحل سے یہ شبہ ہوا ہے ۔ حالانکہ کتاب الملل و النحل (ج1 ص 73) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اسلامی فرقہ نہ تھا بلکہ یہ وہ لوگ تھے کہ اسلامی فتوحات کا مقابلہ کرسکے تو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے اسلام میں رخنے ڈالنے لگے ۔
حضرت عثمانؓ کو مسلمان خلیفہ راشد مانتے ہیں ۔ مصنف نے تعصب کی مذمت کرکے لکھا ہے کہ ’’عثمان ہی کے عہد سے تعصب کی ابتدا ہوئی‘‘۔ (ص208)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصاری بخران کو مباہلہ کی دعوت دی تھی جس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے مگر مصنف صفحہ 213 میں مباہلہ کو عادات جاہلیت میں شمار کرتاہے ۔
صفحہ 219 میں لکھتا ہے کہ اسلام کے باعث علم میں انحطاط آگیا ۔ صفحہ 234 میں عہد جاہلیت کی شاعرہ عورتوں کے تذکرہ کئے ہیں ۔ جن میں بہت سی مسلمان خواتین کے نام ہیں ۔ شاید یہ مطلب ہو کہ اسلام عورتوں کے لئے اتنی ترقی کا روادار کب تھا ۔ یہ جاہلیت ہی کے کرشمے تھے ،
صفحہ 150 میں دکھایا ہے کہ جاہلیت میں ہجوگوئی کا رواج نہ تھا ۔ یہ رواج اسلام سے عین قبل شروع ہوا شاید اس سے بھی اس ادبی ترقی کی ذیل میں ملوک و سلاطین کے جوائز و عطیات کی تفصیل دی ہے جو شعراء کو ملا کرتے تھے ۔ ان سلاطین میں بنی امیہ کا تذکرہ ہے جو مصنف کی رائے میں بڑے ظالم تھے ۔ ایک عمر بن عبدالعزیزؓ ہی ایسے تھے جن کے عدل و انصاف سے مصنف انکار نہیں ہوسکتا یھا مگر صفحہ 259 میں ان کو لکھ دیا کہ ’’عمر بن عبدالعزیز کے پاس جریر شاعر آیا تو اسے کچھ نہ دیا‘‘ اس سے شبہ ہوسکتا ہے کہ اسلام کی صرف ظالمانہ حکومتوں نے ادبی ترقی کے اسباب فراہم کئے تھے ۔ اسلام کی عادل حکومت کو ادھر کچھ توجہ نہ تھی پھر لطف یہ ہے کہ مصنف نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ بھی تحریف کرکے بیان کیا ہے جس کی حقیقت ابن عبداللہ کتاب العقد الفرید سے ظاہر ہے۔
ان وجوہ کی بنا پر مذہبی نقطہ نظر سے اس کتاب کی جلد اول کے قابل اعتراض ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔
صفحہ 13 میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کو نہ عرب و عربیت سے محبت تھی نہ عربی کے اچھے زباندان تھے اور نہ اسکی پروا رکھتے تھے ،مصنف کو یہ شبہ ابن خلکان کی تاریخ سے ہوا ہے ۔ حالانکہ ابن خلکان (جلد 2 صفحہ 164) میں اسی قدر ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے ایک موقع پر جہاں ’’ابی قبیس‘‘ کہنا چاہتے تھے ’’اباقیس‘‘ کہا تھا ۔ یہ کہیں مذکور نہیں کہ انھیں عرب و عربیت سے محبت نہ تھی ۔ واقعہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کوفہ کے تھے اورکوفہ کی یہی زبان تھی کہ وجوہ اعراب میں تغیر کے باعث وہ اعلام میں تغیر جائز نہیں رکھتے تھے ۔ لہذا ایک شخص اگر اپنے شہر کی مسلم و مقبول زبان میں کلام کرتا ہے تو اس سے وہ نتیجہ کیونکر نکل سکتاہے جس کو مصنف نے خود بخود گھڑ لیا ہے
تیسری جلد کے صفحہ 148 میں مصنف نے زمانہ مغلیہ کے فن تاریخ و مورخین سے بحث کی ہے جس میں ائمہ فن پر حملہ کرتا ہوا صفحہ 150 و 151 میں لکھتا ہے کہ اس زمانہ کے مورخین کی عادت تھی کہ کسی کتاب میں خلفائے اسلام کی مذمت دیکھتے تو مٹادیتے حتی کہ چھاپہ کا رواج ہونے پر بھی کتاب کے طبع اول میں تنقیص دیکھی تو طبع ثانی میں مٹادی جس کی مثال ’’مختصرالدول‘‘ ہے جو پہلے یوروپ اور پھر بیروت میں چھپی ۔ مصنف نے یہود و نصاری کے تحریفات کا یہ الزامی جواب دیا ہے ۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ کسی اسلامی کتاب میں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ۔ ’’مختصر الدول‘‘ جس کی مثال مصنف نے دی ہے وہ ایک مشہور پادری ’’گریگوری ابوالفرح ملطی‘‘ کی تصنیف ہے ۔ عیسائیوں ہی نے اس کو یوروپ میں شائع کیا اور عیسائی ہی نے بیروت میں چھاپا ۔ بیروت کے کیتھولک پریس سے 1890 میں باہتمام پادری ’’انطون صالحانی‘‘ اس کی اشاعت ہوئی تھی ۔ اگر کوئی فقرہ جو اس کتاب ک طبع یوروپ میں ہے طبع بیروت میں موجود نہیں تو مسلمانوں پر اس کا الزام نہیں ۔ بلکہ ان لوگوں پر ہے جو اپنی مقدس کتابوں میں بھی تحریف کرنے کے خوگر رہ چکے ہیں ۔
صفحہ 203 میں لکھا ہے کہ ترکان عثمانی کے عہد میں اوہام و خرافات مسلمانوں میں پھیل گئے اور یہ عقیدہ ہوگیا کہ چھیالیس اجزائے نبوت میں سے ایک جزو خواب بھی ہے ۔ مصنف کی تعریض اصل میں ان احادیث صحاح ستہ پر ہے جن میں مومن کے سچے خواب کے ایک جزو نبوت ہونے کا مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور ترکان عثمانی کے عہد سے صدیوں پیشتر یہ کتابیں مدون ہوچکی ہیں ۔
چوتھی جلد میں بجز اس کے کہ عصر آخر کے اسلامی تنزل اور یورپ کے اثر سے جدید نہھت پیدا ہونے کا تذکرہ ہے اور کوئی خاص بات نہیں ۔ مذہبی نقطہ نظر سے پہلی دوسری تیسری جلد قابل اعتراض اور چوتھی جلد ناقابل توجہ ہے ۔ ان چند ملاخطاب کے علاوہ بھی کچھ قابل التفات پہلو ہوسکتے ہیں بندہ ناقص ہے اور اس کا ہر کام ناقص ہوتا ہے اور کمال تو صرف رب کے ساتھ خاص ہے ۔