تارکین وطن اور ملازمتیں

کے این واصف
سعودی عرب میں برسرکار تارکین وطن میںایک خوف کی لہر چل رہی تھی کہ یکم محرم 1440 ھ کے بعد مملکت میں سعودائزیشن کی مہم مزید شدت اختیار کرے گی ۔ تارکین میں یہ تاثر پیدا ہونے کی وجہ پچھلے دو ، ایک سال میں میڈیا دیئے گئے اشارے تھے ۔ مالز اور بڑے شاپنگ سنٹرز میں قائم دکانوں پر کام کرنے والوں کا سعودی ہونا محکمہ لیبر نے لازمی قرار دے دیا تھا اور اس سے قبل محکمہ نے بقالوں (Grocery Stores) کو بھی سعودائزیشن کے دائرے میں لانے کی کوشش کی تھی ۔ لہذا تارکین وطن پر ایک خوف چھایا ہوا ہے ۔ مگر پچھلے دنوں وزارت کے ایک اعلان نے تارکین کو اطمینان کی سانس بخشی۔ وزارت محنت و سماجی بہبود نے واضح کیا ہے کہ ریٹیل (Retail) کے جن 12 شعبوں کی 70 فیصد سعودائزیشن کا فیصلہ کیا گیا ہے ان میں تارکین وطن اشیائے صرف فروخت کرنے والی دکانوں ، جڑی بوٹیوں کی دکانیں ، بقالوں ، ریسٹورنٹس ، کافی ہاؤزس پر کام کے مجاز ہوں گے ۔ فرنیچر سازی کے کام میں بھی حصہ لے سکیں گے ۔ اس حوالے سے بھی ان پر پابندی نہیں ۔ وزارت نے تفصیلات دیتے ہوئے بتایا کہ فی الوقت بیڑیاں ، ٹائرز ، پرانے فاضل پرزے ، پنکچر شاپ ، ورکشاپس ، گاریوں کے آئیل فروخت کرنے اور گاڑیوں کا آرائشی سامان بیچنے والی دکانوں پر بھی غیر ملکی ملازمت کرسکتے ہیں۔ فی الوقت سعودائزیشن سے فار میسیان بھی خارج ہیں۔ مردانہ ملبوسات سینے والی دکانیں بھی سعودائزیشن میں شامل نہیں ہیں۔ البتہ مردانہ ملبوسات فروخت کرنے والی دکانوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ حتمی ہے ۔ ڈیکوریشن اور ڈیزائین والی دکانیں بھی سردست سعودائزیشن سے آزاد ہیں۔ ڈونیٹس اور آئسکریم فروخت کرنے والی دکانوں میں بھی غیر ملکی کام کر سکتے ہیں۔ وزارت محنت نے مذکورہ و صناحت اپنی ویب سائیٹ پر کثرت سے موصول ہونے والے استفسارات کے جواب میں جاری کی ہیں۔ وزارت محنت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ Retail کے جن 12 شعبوں کی سعودائزیشن کا فیصلہ کیا گیا ہے ، ان میں کار شوروم ، گھڑیاں اور چشمے فروخت کرنے والی دکانیں شامل ہیں۔ وزارت نے اپنی ویب سائیٹ پرموصول ہونے والے بہت سارے سوالات کے جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ نئی پرانی ئموٹر سائیکلیں فروخت کرنے والی دکانوں پر بھی سعودی شہری کام کرنے کے مجاز ہوں گے ۔ محکمہ نے یہ بھی واضح کیا کہ کمیونکیشن آلات کی مرمت اور انہیں فروخت کرنے والی دکانوں کی سعودائزیشن ہوچکی ہے ۔ اس حوالے سے استثنیٰ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر کسی دکان میں مذکورہ اشیاء فروخت کی جارہی ہوں اور اس کے ساتھ اس دکان میں کوئی اور بھی کاروبار شامل کرلیا گیا ہو تو صورتحال مختلف ہوگی۔ مصنوعی زیورات، گھریلو تحائف اور گدے فروخت کرنے والی دکانیں بھی سعودی باشندوں کیلئے مختص کردی گئی ہیں۔ باورچی خانے کا سامان بھی صرف سعودی ہی فروخت کرسکیںگے ۔ دکانوں پر تفتیش کا کام یکم محرم اور بعض دکانوں کی تفتیش یکم جمادی الاول 1440 ھ سے شروع ہوگی۔ بتایا گیا کہ سعودائزیشن کی پابندی ممملکت کے بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ ہر علاقے میں جاری رہے گی ۔ وزارت سے ایک سوال یہ کیا گیا تھا کہ کیا سعودائزیشن کی پابندی کا دائرہ شاہراہوں پر واقع دکانوں اور شورومس تک محدود رہے گا یا دور دراز محلوں ، شاہراہوں کے پٹرول اسٹیشنوں اور آبادیوں سے باہر علاقوں پر بھی لاگو ہوگا ۔ وزارت نے واضح کیا کہ ہر جگہ دکانیں اور شورومس اس میں شامل ہوں گے ۔ وزارت سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا قانون کی دفعہ 36 اور شق 20 کے بموجب سعودیوں کیلئے مختص آسامیوں پر غیر ملکی کو ملازمت فراہم کرنے پر کوئی سزا دی جائے گی ؟ وزارت نے واضح کیا کہ اس پر سزا ہوگی، دس ہزار ریال جرمانہ ہوگا اور جتنے زیادہ کارکن ہوں گے اسی تناسب سے فی کارکن جرمانہ بڑھتا جائے گا ۔
سعودی عرب میں گھریلو ملازمین کی تعداد بھی بہت بڑی ہے اور ان کے مسائل اور کہانیاں سامنے آتی ہیں لیکن وزارت محنت نے گھریلو ملازمین کے مسائل کے حل کیلئے کچھ نئے قدم اٹھائے ہیں۔ جیسے ان کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی ، معاہدے کے مطابق چھٹی پر نہ بھیجنے کے واقعات ، بدسلوکی ، ظلم و تشدت وغیرہ جیسے کئی واقعات کا سدباب ہوگا ۔ وزارت و سماجی بہبود کے ترجمان کے مطابق گھریلو ملازمین کی ماہانہ بنیاد پر اجرت کو یقینی بنانے کیلئے متعارف کئے گئے نظام کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے ۔ ’’یقینی اجرت‘ منصوبے سے فریقین کے حقوق کا تحفظ بھی ہوگا ۔ وزارت محنت و سماجی بہبود کی جانب سے گھریلو ملازمین کے ماہانہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کیلئے ڈیجیٹل سسٹم متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت ملازم یا ریکروٹ کراتے وقت ان کا معاہدہ وزارت کی ویب سائیٹ ’’مساند‘‘ (Musaned) پر موجود مطلوبہ قوانین کے مطابق کیا جانا لازمی ہے ۔ وزارت محنت کی جانب سے معاہدے کی www.musaned.com.sa پر ڈیجیٹل تصدیق کی جاتی ہے جس کا ایک ایک نسخہ ہر فریق کے پاس محفوظ ہوتا ہے ۔ قانون کے مطابق گھریلو ملازم کی مملکت آمد کے ساتھ ہی اس کی ماہانہ اجرت کو یقینی بنانے کیلئے پری پیڈ اے ٹی ایم کارڈ (Prepaid ATM Card) اسے فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ ملازم کی تنخواہ معاہدے کے مطابق مقررہ تاریخ تک بینک کو موصول ہوجائے۔ ترجمان وزارت محنت سے مملکت میں کام کرنے والی تمام ریکروٹنگ ایجنسیز کو یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ وہ وزارت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ گھریلو ملازمین کے ویزے جاری کروانے سے قبل وہ ’’مساند‘‘ کی جانب سے فراہم کردہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے یقینی اجرت کے نظام کو حتمی بنائیں گے۔ اس ضمن میں وزارت نے فریقین کے حقوق کے تحفظ اور شکایات کیلئے ٹول فری نمبر 19911 بھی جاری کیا ہے جس پر کوئی بھی فریق خلاف ورزی کی صورت میں شکایت درج کرواسکتا ہے ۔ مگر تارکین وطن کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اول تو لیبر قوانین سے واقف نہیں ہوتے ۔ دوسرے وہ محکمہ لیبریا کورٹ سے رجوع نہیں ہوتے یا انہیں اس کے طور طریقہ پتہ نہیں ہوتے ۔ اس لئے ناانصافیوں کے شکار گھریلو ملازمین اکثر اپنے کفیلں کے گھر سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور غیر قانونی طور پر ملازمتیں کرنے لگتے ہیں یا اپنی ایمبسی سے رجوع ہوکر وطن لوٹ جاتے ہیں ۔ ہم نے مقامی اخبار میں یہ خبر بھی پڑھی تھی کہ یہاں جنرل کورٹ نے ملازمت کے معاہدے کے 4 ماہ بعد برطرف کرنے والی کمپنی کو حکم دیا ہے کہ وہ مقیم غیر ملکی کو مکمل ایک سال کی تنخواہ ادا کرے۔ کمپنی نے غیر ملکی سے ایک سال کی ملازمت کا زبانی معاہدہ کیا تھا اور کام کی شروعات کے 4 ماہ بعد اسے برطرف کردیا تھا ۔ مقیم غیر ملکی نے کمپنی کے خلاف عدالت سے رجوع کر کے مطالبہ کیا کہ اسے ناحق برطرف کرنے پر کمپنی سے ملازمت کے معاہدے کی باقی مدت کی تنخواہ دلوائی جائے ۔ اس سے قبل لیبر کورٹ نے مقیم غیر ملکی کا دعویٰ اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ اس نے ملازمت کا تحریری معاہدہ پیش نہیں کیا تھا ۔ مجبوراً غیر ملکی نے جنرل کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جج نے کمپنی سے ملازمت کے معاہدے کی بابت دریافت کے ساتھ متعلقہ عہدیدار نے تسلیم کیا کہ معاہدہ زبانی ہوا تھا ۔ کمپنی نے برطرفی کے سبب دریافت کرنے پر دعویٰ کیا کہ مقیم غیر ملکی کو کام سے قاصر ہونے پر نکالا گیا ۔ کمپنی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے کئی بار مقیم غیر ملکی کو اس کی غلطیوں پر متنبہ کیا تھا ۔ تاہم اصلاح کی کوششیں ناکام ہوجانے پر اسے برطرف کردیا گیا ۔ عدالت نے فریقین کا بیان سن کر مقیم غیر ملکی کو 8 ماہ کی تنخواہ کے طور پر 41600 ریال ادا کرنے کا حکم جاری کردیا ۔ عدالت نے موقف اختیار کیا کہ کوئی بھی کمپنی کسی بھی ملازم کو کسی ٹھوس سبب کے بغیر برطرف کرنے کی مجاز نہیں۔
یہاں ملازمین کے ناانصافی کے سینکڑوں ، ہزاروں واقعات ہوتے ہیں لیکن خارجی باشندے شاد و نادر ہی عدالت سے رجوع ہوتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ تارکین کو معلومات کی کمی دوسرے ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہو تاکہ وہ اپنا کیس لڑتے ہوئے یہاں بغیر ملازمت کے ایک لمبا عرصہ گزار سکیں۔