محمدمصطفے علی سروری
تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن نے ولیج ریونیو آفیسر VRO کی 700 جائیدادوں پر تقررات کے لئے 17 ستمبر 2018 ء کو امتحان منعقد کیا ۔ اس امتحان میں تقریباً آٹھ لاکھ امیدواروں نے شرکت کی ۔ حالانکہ VRO کے پوسٹ کیلئے تقریباً 10 لاکھ ساٹھ ہزار طلباء نے درخواستیں داخل کی تھی لیکن ان میں سے صرف 80 فیصدی طلباء نے ہی امتحان لکھا ۔ VRO کے عہدہ کیلئے امیدوار کا بارھویں پاس ہونا ضروری تھا ۔ ایک پوسٹ کیلئے دیڑھ ہزار امیدوار میدان میں تھے ۔ آخر اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کا ہونا کس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے ۔ اس سوال کے جواب میں تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کے چیرمین گھنٹا چکراپانی نے اخبار بزنس لائین کو بتلایا کہ سرکاری ملازمت کی سیکوریٹی اس کا ایک اہم سبب ہے اور خاص کر گاؤں دیہات میں اس ملازمت کے ساتھ جڑی عزت و توقیر اس کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ (بحوالہ 17 ستمبر بزنس لائین) قارئین اکرام آٹھ لاکھ امیدواروں میں ا کثریت ایسے امیدواروں کی تھی جنہوں نے انجنیئرنگ پاس کیا تھا ۔ اخبارکے مطابق حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں انجنیئرنگ کے کالجس کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کالجس سے ہر سال دیڑھ لاکھ انجنیئرس پاس ہورہے اور پاس آؤٹ طلباء کی بڑی تعداد بیروزگار ہے۔ حالانکہ VRO کے عہدہ کیلئے اس سے قبل سال 2011 ء میں امتحانات ہوئے تھے لیکن اس وقت متحدہ آندھراپردیش ہوتے ہوئے بھی صرف چھ لاکھ امیدواروں نے ہی درخواست دی تھی ۔ اس صورتحال کا ایک تجزیہ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ علحدہ ریاست تلنگانہ بننے کے بعد نوجوانوں میں سرکاری ملاززت کی توقعات کافی بڑھ گئی ہیں، صرف اتنا ہی نہیں VRO کیلئے درخواست دینے والوں میں 372 امیدوار پی ایچ ڈی کامیاب تھے۔ 539 امیدوار ایم فل اور دیڑھ لاکھ امیدوار پوسٹ گریجویشن کامیاب اور چار لاکھ امیدواروں نے اپنی تعلیمی قابلیت گریجویشن بتلائی جن میں سے دو لاکھ امیدوار انجنیئرنگ کامیاب تھے۔ اخبار ڈی ا ین اے کی 19 ستمبر کی رپورٹ کے مطابق ریلوے ریکروٹمنٹ بورڈ کی جانب سے انڈین ریلویز میں ایک لاکھ نوکریوں کا اعلان کیا گیا تو دو کروڑ امیدواروں نے درخواستیں داخل کی ۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کی اکثریت کا بیروزگار ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مارکٹ میں ملازمت کے مواقع کم ہیں اور ملازمت کے خواہشمندوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ ساتھ ہی جاب مارکٹ جس طرح کی صلاحیتوں کے ساتھ امیدوار ڈھونڈ رہی ہے ، مارکٹ میں ویسے تربیت یافتہ امیدوار دستیاب نہیں۔
کیا انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد طالب علم کے لئے صرف نوکری ہی واحد راستہ بچا ہے ؟ اس سوال کا جواب نہ میں ہے کیونکہ بہت سارے ایسے انجنیئرس بھی ہیں جنہوں نے بہترین اور اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں سے انجنیئرنگ کا کورس مکمل کیا اور پھر خود اپنے طور پر کاروبار کا آغاز کیا اور کاروبار بھی ایسا جو ان کی اعلیٰ تعلیم کے مزاج سے میل کھاتا ہو۔
IIIT آئی آئی آئی ٹی حیدرآباد سے انجنیئرنگ پاس کرنے والے چھ طلباء ہیمنت ، پرسانت ، چرن ، سندیپ ، اکشئے اور سروجئے نے مل کر نومبر 2015 ء میں Commut کے نام سے بس شٹل سرویس کا آغاز کیا تھا ۔ ا پنے قیام کے بعد سے اس ٹرانسپورٹ خدمات کی کمپنی نے ساڑھے سات لاکھ ٹرپس پوری کرلی اور شہر حیدر آباد کے 100 سے زائد روٹس پر اپنی خدمات فراہم کی ۔ حیدرآباد میں شروع کی جانے والی اس کمپنی نے اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی کہ اس کے ساتھ 400 سے زائد ڈرائیورس کام کرنے لگے تھے کمپنی کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے دبئی کی Careem کمپنی نے حیدرآبادی نوجوان انجنیئرس کی شروع کردہ کمپنی کو خریدلیا۔ ذرا اندازہ لگایئے کہ شہر حیدرآباد کے کاروباری ضروریات (جو کہ ٹرانسپورٹ شعبے میں ابھری تھی) کو محسوس کرتے انجنیئرس نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا ۔
قارئین اکرام ضرورت اس بات کی ہے کہ حصول روزگار کیلئے نوجوان نسل کوایسی تعلیم سے آراستہ کیا جائے کہ اگر انہیں ملازمت نہ ملے تو وہ اپنے لئے روزگار کے مواقع خود پیدا کرلیں۔ ہماری نوجوان نسل اعلیٰ ترین اسنادات حاصل کرلیں لیکن ان کے ذہن کشادہ نہ ہوں تو وہ اپنی عملی زندگی میں کچھ بھی کام نہیں کرسکیں گے ۔ ذہنی وسعت اور کشادہ ذہنیت صحت مند انسان میں نہ ہو تو وہ جسمانی معذورین سے بھی پست درجہ کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اور جسمانی معذورین جب کچھ کرنے کا ٹھان لیتے ہیں تو آگے بڑھنے سے ان کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
کے بالاجی ٹاملناڈو کا جسمانی طور پر معذور نوجوان ہے ، دیگر معذورین کی طرح بالاجی کو بھی لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس کو کچھ ایسا کام سیکھنا چاہئے جس کے سہارے وہ ایک جگہ بیٹھ کر کام کرتے ہوئے اپنا روزگار خود پیدا کرے۔ بالاجی نے مختلف سافٹ ویر سیکھے اور پھر اس نے ایک کمپنی میں ملازمت بھی اختیار کرلی جہاں پر اس کو دیئے گئے موضوعات پر پاور پوائنٹ پریزینٹیشن بنانا پڑتا تھا ۔ بالاجی کو احساس تھا کہ جسمانی معذورین کتنا بھی اچھا کام کریں کام لینے والے ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے وہ احسان کر رہے ہیں۔ بالاجی نے گھر سے آفس جانے کیلئے ایک تین پہیوں والی گاڑی خریدلی تھی اور روزانہ وہ اپنے ایک دوست کو آفس آنے اور جاتے وقت اپنی گاڑی پر چھوڑ دیا کرتا تھا اور اس کا دوست ہر مرتبہ بالاجی کو مشورہ دیتا کہ اس کو سواری خرچ کے پیسے لینے چاہئے ، بس اس بات کو مدنظر رکھ کر بالاجی نے خود اپنے ہی طرح ایک اور معذور محمد قذافی کے ساتھ مل کر (Maaulaa) خدمات کا آغاز کیا ۔ ان لوگوں نے اپنی تین پہیوں والی گاڑیوں کو بطور ٹیکسی یہ خدمات شروع کی گئی اور آجMaa ulaa کے نام سے چلائے جانے والی تین پہیوں کی ٹیکسی خدمات میں (24) گاڑیاں کام کر رہی ہیں اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ تمام گاڑیاں تین پہیوں کی ہے کیونکہ ان گاڑیوں کے سبھی ڈرائیورس جسمانی طور پر معذور ہیں۔ (بحوالہ روزنامہ دی ہندو 3 اگست 2018 ئ) اخبار لکھتا ہے کہ جسمانی معذورین کی جانب چلائے جانے والی اس بائیک ٹیکسی کا ہر ڈرائیور روزانہ 850 روپئے کما رہا ہے اور یہ کمائی ان کو دیگر کئی جگہوں پر ملنے والی ملازمت سے بہتر ہے۔
کسی زمانے میں Ph.D کی سند کو نوکری کی ضمانت مانا جاتا تھا ۔ کیا اب بھی پی ایچ ڈی کی سند ملازمت کو یقینی بناتی ہے ۔ قارئین کرم بالکل بھی نہیں کسی زمانے میں جس Ph.D کی سند کو ملازمت کی گیارنٹی سمجھا جاتا تھا ،اس کے متعلق اب صورتحال بالکل تبدیل ہوگئی ہے ۔ یہاں پر اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ، آج ہندوستان میں کتنے اسکالرس Ph.D کی سند حاصل کر رہے ہیں۔ انگریزی اخبار دی ہندو کی 20 ستمبر 2018 ء کی ٹی پردیپ کی رپورٹ کے مطابق روزگار کی مارکٹ میں ملازمت کے دن بدن گھٹتے ہوئے مواقع کے پیش نظر اب ضروری ہوگیا ہے کہ نوجوان پی ایچ ڈی سائنس میں کرنے کے ساتھ اپنے آپ کو دیگر صلاحیتوں سے بھی آراستہ کریں کیونکہ جس بڑی تعداد میں نوجوان Ph.D کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اتنے مواقع روزگار کی مارکٹ میں دستیاب نہیں ہے۔
سال 2017 ء میں ہندوستان کی 900 ء جامعات اور اداروں نے اسکالرس کو پی ایچ ڈی ڈگریاں عطا کی اور اس دوران 24 ہزار نے یہ سند حاصل کی ۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں 24 ہزار Ph.D اسکالرس کا سند حاصل کرنا تعجب کی بات نہیں ہونا چاہئے لیکن قارئین اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان اسکالرس میں 6 ہزار طلباء ایسے تھے جنہوں نے سائنس کے مضمون میں Ph.D کیا ہے لیکن ان میں سے دو ہزار ڈاکٹرز بھی اچھی ملازمت حاصل نہیں کرسکے ۔
ہندوستان میں Ph.D کی سند عطا کرنے والے تعلیمی و تحقیقی اداروں کی تعداد سال 2000 ء تک بھی صرف 326 تھی اور سال 2017 ء تک ایسے اداروں کی تعداد بڑھ کر 912 تک پہونچ گئی ۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور محکمہ سائنس و ٹکنالوجی کے مطابق اس عرصہ کے دوران سائنس میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کرنے والے ا سکالرس کی تعداد میں تین گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا لیکن اتنی بڑی تعداد میں سائنس میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کیلئے جاب کے مواقع سامنے نہیں آئے۔
ہندوستان کے باوقار تعلیمی ادارے آئی آئی ٹی کی ہی جانب سے ہر سال 150 طلباء کو کمیسٹری میں Ph.D کی ڈگری دی جارہی ہے ۔ این آئی ٹیز کی جانب سے 150 طلباء کو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس سے 25 طلباء کو اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (IISER) کی جانب سے 60 طلباء کونسل آف سائنٹفک ریسرچ اینڈ انڈسٹریل انسٹی ٹیوٹ ڈپارٹمنٹ آف اٹامک اینرجی 100 (DAE) طلباء کو پی ایچ ڈی کی تعلیم دیتا ہے ۔
مجموعی طور پر ہر سال تقریباً (800) اسکالرس پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ اخبار ہندو کی رپورٹ کے مطابق اب کہیں پر ایک فیکلٹی کی پوسٹ پر تقرر کے لئے درخواستیں طلب کی جائے تو (300) امیدوار درخواست گزار کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ یہ صرف کمیسٹری کے مضمون کی بات نہیں بلکہ دیگر مضامین میں بھی ایسی ہی صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بعض تو ایسے ڈاکٹرز ہیں جنہیں نہ صرف بین ا لاقوامی اداروں کی فیلوشپ ملی تھی بلکہ ان کے تحقیقی مقالوں کو بھی عالمی اہمیت کے حامل رسالوں میں شائع کیا گیا تھا۔
ٹی پردیپ خود آئی آئی ٹی چینائی میں پروفیسر ہیں، انہوں نے سائنس کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کرنے والے طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ایسے ہنر اور صلاحیتوں سے لیس کرلیں کہ اس کے سہارے کچھ نہ کچھ اپنا روزگار خود پیدا کریں۔
کیا آئی آئی ٹی کے پروفیسر پردیپ کا مشورہ غلط ہے، ہرگز نہیں بلکہ ان کے مشورے میں بڑی عملی سچائی ہے کیوں تو آیئے تلنگانہ ٹوڈے نام کے انگریزی اخبار میں 9 ستمبر 2018 ء کو شائع ہوئی اس رپورٹ کو ملاحظہ کریں جس کی اخبار نے A rural engineer with no Degree سرخی لگائی، رپورٹ کے مطابق اے پربھاکر کے والد ایک الیکٹریشن تھے اور پربھاکر بچپن سے اپنے والد کو الیکٹریشن کا کام کرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا اور پربھاکر نے اپنے والد سے ہی یہ کام سیکھا۔
مٹ پلی کریم نگر سے تعلق رکھنے والے اس الیکٹریشن نے 1988 ء میں اپنے نام سے ایک الیکٹریکل جنریٹر کا پیٹنٹ حاصل کیا ۔ پربھاکر نے اخبار کو بتلایا کہ وہ جس علاقے میں رہتا تھا وہاں ایک سینما گھر تھا اور سینما گھرمیں جب بھی برقی بند ہوجاتی تھی تو سینما کے شائقین خوب شور شرابہ اور گڑبڑ کرتے تھے کیونکہ سینما کے انتظامیہ کو جنریٹر چالو کرنے میں دقت ہوتی تھی۔ پربھاکر نے الیکٹریشن کا کام سیکھنے کے بعد جب اپنا ورکشاپ شروع کیا تو اس نے تحقیق شروع کی کہ از خود چالو ہونے والا جنریٹر کیسے بنایا جائے اور بالآخر ایک الیکٹریشن کو اس کام میں کامیابی ملی ۔ صرف دسویں پاس ہونے کے باوجود بھی پربھا کر کو ابھی تک کم لاگتی 12 چیزیں ایجاد کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
قارئین میرے ایک پچھلے مضمون میں انجنیئرس کی بیروزگاری کی بڑھتی شرح پر تشویش کا اظہار کیا گیا تو ا یک قاری نے مجھ سے پوچھا تھا کہ اگر نوکری نہیں ملتی ہے تو انجنیئرس کیا کریں۔ اپنی سند کا اچار ڈالیں ؟ تو اچار کی اس بات پرمجھے یاد آیا کہ اچار سازی بھی تو ایک بہترین تجارت ہے ۔ 28 اگست 2018 ء کو ہندو اخبار کے ہی میٹرو پلس شمارے میں ایس جے فلپ نے پریتی آنند نام کی ایک خاتون کا انٹرویو کیا تھا ۔ پریتی نے اچار سازی کے میدان میں نئے نئے تجربات کئے اور بازار میں Redlid کے نام سے نان ویج اچار بناکر بیچنا شروع کیا ۔ قارئین آپ کو جان کرحیرت ہوگی کہ اس خاتون نے گوشت ، مچھلی اور جھینگے کا اچار تو بنایا ہی ساتھ پریتی نے کھجور کا بھی اچار بناکر بیچنا شروع کردیا۔ وہ لوگ جو ہر سال رمضان کے دوران کھجور کا بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں، وہ سوچیں کہ اب ہمارے نوجوانوں کو صرف تعلیم کافی نہیں بلکہ مختلف ہنر اور صلاحیتوں سے بھی بچوں کو آراستہ کیا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بچوں کو ابتدائی عمر میں ہم کھانا کھانا سکھاتے ہیں ، ایسے ہی بچے بڑے ہوجائیں تو انہیں کھانا کھانے کیلئے کمانے کے طریقے بھی سکھائے جانے چاہئے۔ صرف اسنادات کے حصول سے پیٹ بھرنے والا نہیں، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کی ذلت سے محفوظ رکھے اور ہمارے نوجوانوں کیلئے حلال رزق کے برکت والے تمام دروازے کھول دے ۔ آمین یا رب العالمین
sarwari829@yahoo.com