چینائی۔ 9 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ڈی ایم کے نے بی جے پی کے زیرقیادت مرکزی حکومت کو کھلے عام فرقہ پرست حکومت قرار دیتے ہوئے ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں اور تحریکات پر زور دیا کہ وہ اپنے علاقائی اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک پر منڈلانے والے فرقہ پرستی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے متحد ہوجائیں۔ ٹاملناڈو کے سابق چیف منسٹر ایم کروناندھی کی زیرقیادت علاقائی جماعت ڈی ایم کے نے کہا کہ این ڈی اے حکومت کی طرف سے ابتداء میں کئے گئے چند اقدامات کی اس نے اگرچہ تائید کی لیکن اب یہ امر باعث تشویش ہیکہ مرکزی حکومت ترقی کیلئے اپنے وعدوں سے منحرف ہوگئیہے اور دائیں بازو کی ہندوتوا تنظیموں کی پالیسیوں کے خطوط پر ملک کو ’’ہندو راشٹرا‘‘ میں تبدیل کرنے پر اپنی تمام تر توانائیاں مرکوز کررہی ہے۔ ڈی ایم کے میں کلیدی پالیسی ساز ادارہ جنرل کونسل کا اجلاس پارٹی کے تین اہم قائدین صدر، جنرل سکریٹری اور خازن کے انتخاب کے لئے منعقد ہوا تھا جس میں ایک تفصیلی قرارداد منظور کرتے ہوئے مرکزی حکومت کی مختلف متنازعہ تجاویز کی سخت مذمت کی گئی۔ ان متنازعہ تجاویز میں کرسمس کے موقع پر 25 ڈسمبر کو اس پارٹی (بی جے پی) کے سینئر لیڈر اٹل بہاری واجپائی کی سالگرہ کو بہانہ بناتے ہوئے ’’یوم بہتر حکمرانی‘‘ منانا ہے۔ جنرل کونسل کے اجلاس ارکان نے قرارداد منظور کی، جس میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ ’’مرکزی حکومت کا موجودہ واضح و کھلے عام فرقہ پرست رویہ نہ صرف اقلیتوں بلکہ ان تمام کیلئے بھی ناقابل قبول ہے جو سیکولرازم اور قومی اتحاد پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
مرکز کا فرقہ پرست رویہ ان سب کیلئے سنگین تشویش کا باعث ہے‘‘ ۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہیکہ ’’عوام نے گذشتہ سال منعقدہ عام انتخابات میں مودی حکومت کو بھاری اکثریت دی تھی اور یہ حکومت ابتداء میں ترقی کے ایجنڈہ سے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور اس کی ترقیاتی تجاویز کی ہم (ڈی ایم کے) نے بھی تائید کی تھی لیکن بعد میں اس کے وزراء کے بیانات اور جارحانہ تجاویز نے ثابت کردیا ہیکہ مرکزی حکومت اپنے اصل راستہ سے ہٹ رہی ہے‘‘۔ نتھورام گوڈسے کو محب وطن کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس کے مندروں کی تعمیر سے متعلق دائیں بازو کی سخت گیر ہندوتوا تنظیموں آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے قائدین کے متنازعہ ریمارکس کے علاوہ بی جے پی کے وزراء اور ارکان اسمبلی کے متنازعہ بیانات کی سخت مذمت کرتے ہوئے ڈی ایم کے نے کہا کہ اپنا مذہب مسلط کرنے کی ایسی کھلے عام کوششوں سے قومی امن اور ترقی پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوں گے۔