غضنفر علی خان
کہتے ہیں کہ دوسروں کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے دامن کو ٹٹولنا ہی عقلمندی ہے ۔ وزیراعظم مودی دوسروں کے عیب بیان کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے وہ اپنی خودستائی کا کوئی موقع نہیں کھوتے ، اپنی پارٹی کی پاکدامنی کا ہمیشہ دعوی بھی کرتے ہیں ۔ ابھی تقریباً ایک ماہ قبل نریندر مودی نے ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ ’’ایک سال ہماری حکومت کو پورا ہوگیا ۔ کیا آپ نے کسی گھوٹالے ، کسی اسکیم ، کسی واقعہ کو ہوتے دیکھا ہے ۔ ایسی کوئی خبر آپ نے سنی ہے‘‘ ۔ بڑا بول بڑی بات کسی کو زیب نہیں دیتی ۔ نریندر مودی کے اس بلند بانگ دعوی کے چند ہی دن بعد ان کی پارٹی انڈین پریمئر لیگ کے سربراہ اور مفرور ملزم للت مودی کے بارے میں سب سے بڑا اسکام میں پھنس گئی ہے ۔ للت مودی کم و بیش ایک اشتہاری ملزم ہے ان کا پاسپورٹ سابق حکومت نے ضبط کرلیا ہے ۔ وہ ملک سے فرار ہو کر لندن چلے گئے ہیں اور پچھلے کئی ماہ سے وہیں اپنا منہ چھپائے ہوئے ہیں ۔ اسکام یہ ہے کہ نریندر مودی حکومت میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے للت مودی کے لئے سفارش کی تھی کہ برطانوی حکومت ان کو پرتگال جانے کے لئے ضروری سفری کاغذات مہیا کرے ۔
اس اہم مسئلہ پر انھوں نے ہندوستانی ہائی کمشنر سے بھی سفارش کی ۔ ان سے فون پر بات کی تھی کہ للت مودی کواپنی اہلیہ سے ملاقات کے لئے برطانیہ سے پرتگال جانے کی سہولت فراہم کی جائے ۔پرتگال میں للت مودی کی بیوی کینسر کے مرض کے علاج کے لئے مقیم ہیں ۔ ایک مفرور و مطلوب ملزم کی سفارش کرنے سے پہلے سشما سوراج نے یہ نہیں سوچا کہ ان کی معمولی سی غلطی ان کے لئے کس قدر مہنگا سودا ثابت ہوگا ۔ آج اپوزیشن ان کے استعفی کا مطالبہ کررہی ہے ۔ ہر طرف سے وزیراعظم مودی پر بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر اپنا موقف واضح کریں ۔ یہی آفت کیا کم تھی کہ نریندر مودی کی کابینہ میں اہم قلمدان رکھنے والی سشما سوراج پر سنگین الزامات تھے کہ اس اثنا خود ملزم للت مودی نے اپنے قانونی مشیر اور وکیل محمود عابد کے ذریعہ ہندوستانی چیانلس کو مطلع کیا کہ ان کے اس سارے معاملے میں راجستھان کی وزیراعلی وسندھرا راجے نے ان کی مدد کی تھی ۔ اس ضمن میں وسندھرا راجے کا ایک تفصیلی مکتوب بھی للت مودی نے منظر عام پر لایا ہے جس میں وسندھرا راجے کے خاندان سے ان کے قریبی تعلقات کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ اس مکتوب کے بعد یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وسندھرا راجے کے صاحبزادے سے بھی للت مودی کے گہرے تعلقات تھے بلکہ انھوں نے لاکھوں کے شیئرس خریدے تھے جس سے وسندھرا راجے کے بیٹے کو کروڑہا روپیوں کا فائدہ ہوا تھا ۔ راجستھان کی چیف منسٹر اب ان حقائق کے بعد بھی انکار کرتی ہیں کہ للت مودی کے معاملہ میں انھیں کسی بات کا علم نہیں ہے ۔ وہ تو اس مکتوب کے بارے میں بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کرتی رہیں ۔ یہ تو وسندھرا راجے کی بات ہوئی ۔ سشما سوراج کے شوہر للت مودی کے وکلاء میں شامل ہیں ۔ ان کی صاحبزادی بھی اہم رول ادا کررہی ہیں ۔ہر طرف سے وسندھرا راجے اور سشما سوراج دونوں بی جے پی کی سینئر اور بااثر خواتین لیڈر ہیں ۔ ان کے اس طرح سے ایک ملزم سے تعلقات اور اس کے لئے نرم گوشہ رکھنا کیسے کوئی غلطی نہیں ہے ۔ ان دونوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا اعتراف وزیراعظم کیوں نہیں کررہے ہیں ۔ مودی کابینہ کے وزراء خم ٹھونک کر سشما سوراج اور وسندھرا راجے کی تائید کررہے ہیں کہ دونوں ہی نے کوئی غلطی نہیں کی ۔ خاص طور پر سشما سوراج کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انھوں نے جو بھی سفارش للت مودی کے سفری کاغذات کی اجرائی کے بارے میں کی تھی وہ ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر کی تھی ، ان کا کوئی ذاتی مفاد مضمر نہیں تھا ۔ انسانی ہمدردی جب مخصوص لوگوں کے لئے ہی ہو تو اس میں ایسی ہمدردی بجائے خود مشکوک ہوجاتی ہے ۔ اس دلیل کو بھی مسترد کیا جائے گا ۔ ان دونوں بی جے پی لیڈروں کی پارٹی میں کافی ساکھ ہے ۔ سشما سوراج کئی اہم عہدوں پر فائز رہیں ایک مرتبہ دہلی کی چیف منسٹر بھی رہیں ۔ وسندھرا راجے دو مرتبہ راجستھان کی چیف منسٹر رہیں ۔ دونوں کا اعلی خاندان سے تعلق ہے ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دونوںنے آئی پی ایل کے ملزم سابق سربراہ للت مودی کے زیر تفتیش جرائم کے ہوتے ہوئے ان کی مدد کی ۔ وہ ایک مطلوب مفرور ملزم ہیں ۔ آئی پی ایل کی آڑ میں انھوں نے بے شمار دولت کا تصرف اور تغلب کیا ۔ ان کو اپنے عہدے سے ہٹایا گیا تھا ۔
اس پس منظر کے باوجود وسندھرا راجے اور سشما سوراج نے ان کی مدد کی ہے تو یہ بلاشبہ ایک سنگین جرم ہے اور ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فوری طور پر دونوں کو اپنے اپنے عہدوں سے استعفی دینا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی اعلی ترین سطح پر ان کے خلاف تحقیقات کی جانی چاہئے ۔ چھان بین ہونے تک انھیں وزیر برقرار رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ بی جے پی کے علاوہ آر ایس ایس بھی بلا سوچے سمجھے سشما سوراج کی تائید کررہی ہے حالانکہ آر ایس ایس کرپشن کے خلاف کہتی آئی ہے ۔ کم از کم دونوں پارٹیاں یہ تو کہیں کہ چھان بین کی جانی چاہئے ۔ ان پر الزامات ہیں وہ مجرم نہیں ہیں تو کم از کم ملزم ضرور ہیں ۔ اگر بی جے پی حکومت کی ساری کابینہ اور بی جے پی کے گرو گھنٹال آر ایس ایس اپنی اندھی تائید سے دستبردار نہیں ہوتی ہیں تو ملک میں ایک وبال پیدا ہوگا جس طرح سے دونوں پر الزامات بی جے پی ، آر ایس ایس کی نظر میں بے بنیاد ہیں اتنی ہی شدت کے ساتھ اپوزیشن ان کے صحیح ہونے کا دعوی کررہی ہے ۔ اگر اپوزیشن کے دعوی کو درست نہیں سمجھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مرکزی کابینہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس دعوی کو صحیح سمجھا جائے کہ دونوں بے گناہ ہیں ۔ دونوں کو اپنی صفائی کا موقع بھی دیا جانا چاہئے ۔ آزادانہ تحقیقات کسی موثر ایجنسی کے ذریعہ کروائی جانی چاہئے ۔ ملک اتنے بڑے اسکینڈل پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ اگر دونوں فی الوقعی معصوم و بے گناہ ہیں تو پھر انھیں خود اس بات کا مطالبہ کرنا چاہئے کہ سارے معاملہ کی چھان بین کروائی جانی چاہئے ۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی ملزم کی مدد نہیں کی جاسکتی ۔ اب وزیراعظم مودی کی بات کیجئے تو ان کا دعوی ہے کہ خارجی امور میں کوئی کام ان کے بغیر نہیں ہوتا ۔ شاید یہ بات صحیح ہے کیونکہ چند ہفتہ قبل سشما سوراج نے ہی کہا تھا کہ وہ وزارت خارجہ میں low profile رکھتی ہیں ۔ اگر وزیراعظم مودی کی بات سہی ہے تو پھر للت مودی کے بارے میں کوئی اتنی اہم سفارش ملک کی وزیر خارجہ کیسے کرسکتی ہے ۔ ظاہری طور پر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر کام وزیراعظم کے علم و اطلاع میں ہوتا ہے ۔ اتنے بڑے ملزم کے لئے ایسی خطرناک سفارش وزیر خارجہ خود تنہا تو نہیں کرسکتیں ۔ یہ اسکینڈل ایک ایسا جادوئی صندوق بن گیا ہے کہ اس میں سے ہر دن ایک نیا نام سامنے آرہا ہوگا ۔ کانگریس کے لیڈر ڈگ وجئے سنگھ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آئی پی ایل کے ایک مقابلوں میں گجرات سے احمدآباد کی ٹیم کی شمولیت کے لئے للت مودی نے وزیراعظم مودی کی سفارش مبینہ طور پر قبول کی تھی ۔ بی جے پی کی دونوں خاتون لیڈروں کے علاوہ اب الزامات کا سلسلہ دور تک جارہا ہے ۔ پتہ نہیں اور کتنے بڑے بڑے لیڈروں ، فلم اسٹارس ، کرکٹ کھلاڑیوں کے بارے میں کیا کیا انکشافات ہونے والے ہیں ۔ للت مودی کے پاس بہت سارے لوگوں کا کچا چٹھا ہے وہ اپنی مدافعت میں اور بھی نام بتاسکتے ہیں ۔