راج دیپ سردیسائی
اب جبکہ 2019ء الیکشن کا طویل دور آخری پڑاؤ کی طرف بڑھ رہا ہے، ایک سوال بار بار پوچھا جارہا ہے: کیا 2019ء کا انتخابی فیصلہ معلق پارلیمان کی تشکیل کرے گا یا ایک اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اکثریتی حکومت بنے گی جس طرح 2014ء میں ہوا؟ بہ الفاظ دیگر، کیا دوبارہ TsuNamo (مودی کی زبردست لہر) پیش آسکتی ہے؟ بظاہر دیکھیں تو اس کا امکان نہایت کم معلوم ہوتا ہے۔ آخر کو 2014ء اور 2019ء کے درمیان کئی بڑے فرق ہیں۔ اول، بی جے پی چیلنجر تھی اور منموہن سنگھ زیرقیادت یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس 2 (یو پی اے 2) حکومت کے خلاف تیزی سے اُبھرتے مخالف حکمرانی عنصر کا چالاکی سے فائدہ اٹھا سکی۔ دوم، شمال اور مغربی ہندوستان کی کئی ریاستوں میں فتح پھیرنے کے بعد یہاں واحد نشست کا نقصان تک گراوٹ کا عکاس ہوگا۔ سوم، اور کلیدی نکتہ ہے کہ اپوزیشن اِس مرتبہ سوجھ بوجھ کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے کچھ زیادہ مشاق نظر آرہا ہے، جیسا کہ اکھلیش یادو (سماج وادی پارٹی)۔ مایاوتی (بہوجن سماج پارٹی) گٹھ بندھن (اتحاد) اترپردیش (یو پی) میں ہوا ہے، جس نے ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں زیادہ متحد اپوزیشن کی حیران کن مثال پیش کی ہے۔ اور اس کے باوجود اتحادی اعداد و شمار کو انتخابی تال میل میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ 2014ء اور اب کے درمیان کلیدی فرق ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ یو پی اے 2 حکومت کے خلاف جس حد تک عوامی برہمی پیدا ہوگئی تھی، اس کے پیش نظر بی جے پی شاید حکومت بنالیتی چاہے مودی اس کے وزارت عظمیٰ امیدوار نہ بھی ہوتے۔ گجرات کے لیڈر نے اپنی جارحانہ مہم کے ذریعے پارٹی کو جہت دلانے میں اپنا رول ادا کیا۔مگر 2019ء میں یہ مسلسل عیاں ہوتا جارہا ہے کہ بی جے پی کے انتخابی امکانات محض ایک فرد کے اطراف گھومتے ہیں۔ یہی تو شخصیت پر مرکوز مہم ہے جو مودی کے زندگی سے کہیں بڑے امیج کے اطراف بنائی گئی ہے، جو سب پر غالب موضوع ہے جس میں اعانت ہمیشہ تعمیل کیلئے حاضر 24×7 میڈیا نے کی ہے۔
صدارتی طرز کی سیاست دانستہ طور پر اور چالاکی سے 543 رکنی لوک سبھا پر اس حد تک مسلط کردی گئی ہے جہاں تمام دیگر فکرمندی اور روایتی ذات و برادری کے تال میل کو ’’طاقتور قوم پرستی‘‘ اور ’’مضبوط نیتا‘‘ (مضبوط قائد) کے مستقل نعرے کے تحت معمولی بنادیا گیا ہے۔ یہ طور طریق کئی طرح سے ایسی دنیا کا نتیجہ ہے جس میں سوشل میڈیا، واٹس ایپ پیامات اور اصل دھارے کا میڈیا سیاست کو ریالیٹی ٹی وی نظارہ سمجھ رہے ہیں جس میں صرف ایک ’بگ باس‘ ہوتا ہے۔ ایک مثال پیش کرتا ہوں؛ میں مشرقی یو پی کے پھولپور میں ایک چائے اسٹال پر 22 سالہ اجئے یادو کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ کامرس گرائجویٹ اجئے تقریباً ایک سال سے کوشش کررہا ہے اور جاب ڈھونڈنے میں ناکام ہوا ہے۔ اسے مودی حکومت کے نوکریاں پیدا کرنے کے بارے میں وعدوں پر مایوسی کے احساس کا اعتراف ہے لیکن کہتا ہے مودی کو ووٹ دے گا۔ میں نے پوچھا، کیوں۔ وہ کہتا ہے، ’’سر، انھوں نے تو پاکستان کو سبق سکھایا ہے۔‘‘ لیکن ’’پاکستان کو سبق سکھانے‘‘ پر کس طرح اسے جاب حاصل ہوگا، میں نے مزید سوال کیا۔ اُس نے جواب دیا: ’’وہ سب ٹھیک ہے سر، پر پہلے دیش کا سوچنا ہے۔‘‘ اجئے نے اعتراف کیا کہ وہ ایک واٹس ایپ گروپ ’ہم دیش بھکت‘ کا حصہ ہے جہاں سے اُس کا دعویٰ ہے کہ تمام نیوز حاصل ہوتی ہے، جس میں 500 دہشت گردوں کی بالاکوٹ میں ہلاکت کی رپورٹس شامل ہیں۔ جب میں نے اس گروپ کے پیامات پر نظر دوڑائی، مخالف مسلم تعصب صاف نظر آیا۔
90 کروڑ رائے دہندوں میں اکشے اور ونود محض دو آوازیں ہیں۔ ہندوستان جیسے وسیع اور متنوع ملک میں چھوٹے سے نمونے کی بنیاد پر فوری فیصلے اخذ کرنے کے اندیشوں کو بڑھا چڑھا کر نہیں پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ان سے ایسے ملک کی جھلک ملتی ہے جہاں ’’ایک قوم، ایک لیڈر‘ کے نعرے سے ذہن سازی کی جاتی ہے، جہاں فریبی سیاسی نظام نے وہم اور حقیقت کے درمیان فرق کو دھندلا کردیا ہے، جہاں آگ لگادینے والی فرقہ پرستانہ بیان بازی کے ساتھ ساتھ اُجوالا یوجنا اور آیوشمان بھارت جیسی بہبودی اسکیمات موجود ہیں، جہاں روزمرہ کی مصروفیت کی اکتاہٹ کو نئے انڈیا اور طاقتور لیڈر کے اچھی طرح پروئے گئے خواب کے ذریعے ہٹا دیا گیا ہے۔
آیا یہ بی جے پی کو 2019ء میں سادہ اکثریت جیتنے کیلئے کافی ہوگا، غیریقینی ہے: یہ پارٹی بدستور جنوبی ہند (کرناٹک کے سواء) کمزور ہے؛ یو پی گٹھ بندھن ہنوز قائم ہے؛ موجودہ ایم پیز کو مقامی سطح پر مخالفتوں کا سامنا ہورہا ہے؛ اور بنگال اور اُڈیشہ میں بڑے پیمانے پر ووٹ میں بدلاؤ کی تمام تر باتوں کے باوجود علاقائی حکمرانوں جیسے ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی اور بیجو جنتادل کے نوین پٹنائک اب بھی طاقتور حریف ہیں۔ لیکن مودی کے حامیوں کا دھوم دھڑاکا ایسا ماحول برپا کرچکا ہے جہاں ووٹر کو لگ بھگ یہ یقین کرنے پر مائل کیا جارہا ہے کہ ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘۔ بعض اوقات، ناقابل شکست ہونے کا خیال نتیجہ کے ظاہر طور پر فطری ہونے کا موجب بنتا ہے۔
اختتامی تبصرہ : گزشتہ دو ماہ میں لگ بھگ 12 ریاستوں میں سفر کرنے کے بعد ایک ریاست جہاں میں نے سب سے کم جوش کے ساتھ ’’مودی، مودی‘‘ کا نعرہ محسوس کیا، وہ پنجاب ہے۔ ایسا کہ سرحدی ریاست کو ہندی پٹی کے مقابل قومی سلامتی اور پاکستان کے تعلق سے کم فکرمند ہونا چاہئے، عجیب اور سبق آموز ہے: جیسا کہ امرتسر کے مشہور گیانی ٹی اسٹال میں ایک بزنس مین نے مجھ سے کہا، ’’ہم ہی فائرنگ کے نشانے پر ہیں، اس لئے ہم امن اور سرحدی تجارت چاہتے ہیں، جنگ اور بم نہیں!‘‘
rajdeepsardesai52@gmail.com