بی جے پی کیلئے سب کچھ جائز

محمد ریاض احمد
امیت شاہ اور نریندر مودی کی قیادت اور آر ایس ایس کی سرپرستی میں بی جے پی ملک کی تمام ریاستوں میں اقتدار پر فائز ہونے کی خواہاں ہے اور اس ضمن میں اسے مسلسل کامیابی حاصل ہوتی جارہی ہیں۔ بی جے پی کی ان کوششوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ ریاستوں کے اقتدار پر قابض ہونے جائز اور ناجائز سب کام کررہی ہے۔ کھلے طور پر دستور ہند کی دھمجیاں اڑارہی ہیں۔ جمہوریت کو ٹھکانے لگانے کی جانب ڈھکیل رہی ہے۔ جمہوری و دستوری اداروں کو پوری طرح اپنے قابو میں کرنے کے لئے بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی خفیہ پالیسی اور ایجنڈہ پر عل کررہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو گزشتہ چار ساڑھے چار برسوں کے دوران ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کسی بھی طرح جمہوریت کے لئے سودمند نہیں کہا جاسکتا۔ سی بی آئی این آئی اے اور دیگر اہم قومی اداروں کی جو حالت ہوئی ان کے تحقیقاتی طریقہ کار میں جو تبدیلی آئی ہے حالیہ عرصہ کے دوران دہشت گردانہ واقعات کے ضمن میں گرفتار ہندو دہشت گردوں کی جو برأت ہوئی ہے۔ اس سے ان اداروں کی جمہوری ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

حالیہ عدالتی فیصلوں سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ سب کچھ حکومت کے اشاروں پر کیا جارہا ہے اگر عدلیہ، میڈیا اور تحقیقاتی ادارے اور آثار قدیمہ کے ادارے حکومت کے اشارہ پر رقص شروع کردیں تو ہمارے وطن عزیز میں جمہوریت کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ اکثر سیاسی قائدین ہندوستان میں آمریت کے فروغ پانے کی باتیں کررہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ یہاں أمریت نہیں بلکہ آر ایس ایس کے ہندوتوا کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور جس انداز میں بی جے پی کو ملک کی مختلف ریاستوں میں کامیابیاں مل رہی ہیں یا زبردستی کامیابیاں حاصل کی جارہی ہیں۔ اس سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کو جو سارے سنگھ پریوار کے لئے سب کچھ ہے اسرائیل کی مکار تنظیم موساد کا بھرپور تعاون حاصل ہو رہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے موساد کے سابق اور موجودہ سربراہوں و ایجنٹوں کی ہدایات پر عمل پیرا ہے۔ آر ایس ایس اور موساد کے تعلقات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی حکومتوں اور خاص طور پر موجودہ مودی حکومت نے اسرائیل سے تعلقات بہت زیادہ مضبوط و مستحکم بنالئے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل اور ان کے اسرائیلی ہم منصب بنجامن نتن یاہو نے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے خاص طور پر دفاعی زرعی، توانائی، سائبر سیکوریٹی، خلائی سائنس اور شہری ہوابازی کے شعبوں میں بے شمار معاہدات کئے ہیں، جاریہ سال کے اوائل میں بنجامن نتن یاہو نے ہندوستان کا روزہ دورہ کیا۔ ان کے ساتھ 130 سے زائد اسرائیلی تاجرین و صنعت کار بھی آئے تھے۔

مشترکہ پریس سے خطاب کے دوران بنجامن نتن یاہو نے جہاں مودی کو ایک انقلابی لیڈر قرار دے کر خوش کردیا وہیں یہ بھی کہا کہ آپ نے ہند۔ اسرائیل تعلقات میں بھی ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ 1992ء میں ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اس وقت قائم کئے جب پی وی نرسمہا راؤ عہدہ وزارت عظمی پر فائز تھے۔ انہیں کانگریس میں آر ایس ایس کا آدمی سمجھا جاتا تھا اُن ہی کے دور میں شہادت بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا۔ 1992ء میں ہند۔ اسرائیل کی باہمی تجارت کا حجم 200 ملین ڈالرس تھا جو 2016ء میں بڑھ کر 4.16 ارب ڈالرس ہوگیا۔ اس میں دفاعی معاملتیں شامل نہیں ہیں۔ اب تو ہندوستان کی کوششوں کے باعث ہندوستان۔ اسرائیل فضائی سفر کے وقت میں بھی کمی آئی ہے۔ راست پروازوں کے باعث یہ فاصلہ صرف ساڑھے 5 گھنٹوں میں طے کیا جارہا ہے۔ ویسے بھی ہندوستان اسرائیلی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس نے مختلف اسلحہ میزائلس اور بناء پائلٹ کی فضائی گاڑیاں خریدی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سال 2017ء میں ہندوستان نے اسرائیل سے 715 ملین ڈالرس مالیتی معاہدات کئے ہیں۔

بہرحال ہم سطور بالا میں ہندوستان میں جمہوریت کی امکانی تباہی و بربادی اور جمہوریت کی جگہ نام نہاد ہندوتوا کا ایجنڈہ نافذ کرنے کی کوششوں کی بات کررہے تھے۔ اگر کرناٹک کو بی جے پی اقتدار میں شامل کرلیا جائے تو موجودہ صورتحال یہ ہے کہ 29 ریاستوں میں سے 21 میں بی جے پی نے جائز و ناجائز طریقوں سے اقتدار حاصل کرلیا ہے۔ کانگریس صرف 2 ریاستوں میں اقتدار پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی۔ امیت شاہ جوڑی نے کانگریس سے پاک بھارت کا جو نعرہ لگایا ہے اس پر پوری محنت کے ساتھ کام کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل کو ملک کی نصف سے زیادہ ریاستوں (اس وقت 26 میں سے 16 پر کانگریس کا قبضہ تھا، یہ بات 1993 ء کی ہے) تاہم 2014 کے عام انتخابات کے بعد نہ صرف کانگریس کی حالت بری ہوگئی بلکہ(2014 میں 13 ریاستوں میں اقتدار میں رہی) کانگریس کا اقتدار 13 ریاستوں سے صرف 2 ریاستوں پنجاب اور میزورام تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اسی طرح مرکز زیر انتظام علاقہ پڈوچیری میں بھی کانگریس کا اقتدار ہے۔ ویسے بھی گوا، میگھالیہ اور منی پور میں بھی کانگریس کا اقتدار ہوتا اگر بی جے پی ارکان کی خرید و فروخت نہیں کرتی۔ وزیر اعظم نریندر مودی بلند بانگ دعوے کررہے ہیں کہ عوام ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں لیکن بقول اپوزیشن بی جے پی کی کامیابیوں میں اے وی ایم مشینوں کا اہم رول ہے اگر انتخابات بیلٹ پیپرس کے ذریعہ ہوں تو اسے اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا۔ اس معاملہ میں خود اس کی حلیف شیوسینا بھی اپوزیشن کے ساتھ نظر آتی ہے۔ شیوسینا سربراہ ادھوٹھاکرے کا تو کہنا ہے کہ اب مرکز کو چاہئے کہ چیف منسٹروںکو بھی مرکز سے روانہ کرے۔ رائے دہی کی بھی ضرورت نہیں اے وی ایم مشینس ہی سب کام کررہی ہیں ۔ جہاں تک عدلیہ پر بی جے پی حکومت میں دباؤ میں کام کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججس نے جو کالجم کے ارکان ہیں، گزشتہ ماہ ٹیلی ویژن پر یہ کہتے ہوئے سب کو حیران کردیا کہ ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ان چار سینئر ججس نے جسٹس چلمیشور، جسٹس گوگوئی ، جسٹس لوکور اور جسٹس جوزف شامل تھے۔ ان ججس نے واضح طور پر کہا تھا کہ عدلیہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور حالیہ عرصہ کے دوران مشکوک صورتحال پیدا ہوئی ۔ خود چیف جسٹس دیپک مشرا بھی ارکان پارلیمنٹ ، دوسرے سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں وغیرہ کی تنقیدوں کا نشانہ بنے ہیں۔ صدر کانگریس راہول گاندھی بھی ان ججس کے خیالات سے متفق ہیں۔ ان کے خیال میں سپریم کورٹ کے ججس آزاد ہند کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میڈیا کے توسط سے عوام سے رجوع ہوئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدلیہ بھی خوف میں مبتلا ہے۔ یہاںتک کہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ بھی وزیراعظم مودی سے اس قدر خائف ہیں کہ ان کے سامنے ٹھہر کر ایک لفظ بھی ادا نہیں کرسکتے۔ راہول نے جو کچھ بھی کہا ہے بالکل درست ہے۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات کا تقابل کرتے ہوئے اسے پاکستان اور افریقی ممالک کے مماثل قرار دیا ۔ بے شک ہمارے ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے ایک جمہوری ملک میں اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ایسا تو ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ڈکٹیٹر شپ یا آمریت ہوتی ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com