بی جے پی کو 100 دن کی مہلت!

پی چدمبرم
’کانگریس مکت بھارت‘ ہمیشہ ہی فریبی بات رہی۔ بی جے پی اور بالخصوص اس کے دو قائدین مسٹر نریندر مودی اور مسٹر امیت شاہ نے یہ احمقانہ خیال کو مقبول بنانے کی کوشش کی کہ کانگریس پارٹی کو اس ملک کے انتخابی نقشے سے ہٹایا جاسکتا ہے اور ہٹا دیا جائے گا۔ کانگریس نے ایسی منطق کو بکواس قرار دیا۔ حتیٰ کہ آر ایس ایس نے خود کو اس اشتعال انگیز نعرہ سے دوری اختیار کرلی۔ تاہم، ہندوستان کے عوام نے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کی منصوبہ بندی کا جواب دے دیا ہے۔ جب موقع میسر آیا، تین ریاستوں چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے رائے دہندوں نے فیصلہ کن انداز میں کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالا، جس کا بی جے پی کیساتھ راست مقابلہ رہا۔ قارئین کو شاید لفظ ’فیصلہ کن‘ کے استعمال پر کچھ اعتراض ہو، لیکن میں نے ایسا دانستہ طور پر اور نتائج کے محتاط تجزیہ کے بعد کیا ہے۔
فیصلہ کن عوامی رائے
حسب ذیل حقائق پر غور کیجئے:
٭ چھتیس گڑھ میں کانگریس نے اس ریاست کی تشکیل کے بعد سے کوئی بھی پارٹی کو دیکھیں تو سب سے زیادہ تعداد میں نشستیں (68/90) جیتے اور پولنگ میں 43.0 فیصد ووٹ حاصل کئے۔
٭ راجستھان میں کانگریس کو بی جے پی کے مقابل ووٹوں (13,935,201 بمقابل 13,757,502) اور ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب (39.3 فیصد بمقابل 38.8 فیصد) دونوں معاملوں میں قدرے برتری حاصل ہوئی۔ علاوہ ازیں، کانگریس نے اپنے حلیفوں کو 5 سیٹیں دیئے جنھیں 184,874 ووٹ حاصل ہوئے جو ضرور کانگریس کے کھاتے میں جوڑنا چاہئیں۔
٭ مدھیہ پردیش میں کانگریس نے بی جے پی سے ایک نشست کم پر مسابقت کی، پھر بھی کانگریس کو زیادہ سیٹیں (114 بمقابل 109) ملیں اور لگ بھگ مساوی تعداد میں ووٹ لئے (15,595,153 بمقابل 15,642,980) ۔
اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ تینوں ریاستوں میں کانگریس نے کس موقف سے شروعات کی، یہ حقیقت کہ کانگریس نے بی جے پی کو کھینچ کر نیچے اُتار دیا عوامی رائے کی فیصلہ کن نوعیت ہے۔ یہ نتائج اور بھی فیصلہ کن ہوسکتے تھے بشرطیکہ بی ایس پی نے کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہوتا۔ راجستھان میں بی ایس پی نے 6 سیٹیں (4.0 فیصد اور 1,410,995 ووٹ) اور مدھیہ پردیش میں 2 نشستیں (5.0 فیصد اور 1,911,642 ووٹ) ۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان اتحاد مدھیہ پردیش میں کانگریس کی عددی طاقت 114 میں 29 نشستوں کا اضافہ کیا ہوتا۔
نتائج کے پس پردہ وجوہات
اعداد و شمار کی کافی بات ہوچکی۔ آئیے! خود سے پوچھیں کہ کیوں عوام نے کانگریس کے حق میں ایسے فیصلہ کن انداز میں ووٹ ڈالے ہیں۔ اہم ہندی پٹی میں بنیادی اسباب معروف ہیں … کسانوں کی پریشانی، بیروزگاری، اور خواتین، دلتوں، قبائلیوں اور اقلیتوں میں عدم سلامتی کا احساس۔ ہندی پٹی سے آگے بھی یہی عوامل مرکز توجہ ہیں۔ آیا مرکز کی موجودہ بی جے پی حکومت اس طاقتور منفی لہر کی مزاحمت کرپائے گی، 2019ء میں لوک سبھا انتخابات سے قبل ملین ڈالر کا سوال ہے۔ زیادہ گہرائی سے دیکھوں تو میرے خیال میں کئی دیگر عوامل نے بھی اپنا کام کیا ہے۔ ایسا سمجھنے کی غلطی مت کیجئے کہ عام ہندوستانی کو محض قیمتوں اور نوکریوں کے معمول کے مسائل کی فکر رہتی ہے۔ وہ بلاشبہ دیگر مسائل کے ساتھ تحت الشعوری سطح پر بھی فکر کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر مسٹر ’یوگی‘ ادتیہ ناتھ کے اثر پر غور کیجئے۔ مسٹر ادتیہ ناتھ نے مسٹر نریندر مودی کی طرح بے تکان انتخابی مہم چلائی بلکہ مسٹر مودی سے کہیں زیادہ ریالیوں کو مخاطب کیا۔ جب ایسا شخص تقریر کرتا ہے اور صرف یہی کہتا ہے کہ گائے کا تحفظ کیا جائے، رام مندر تعمیر کریں، لارڈ رام کا بلند ترین مجسمہ قائم کیا جائے، ریاستوں اور شہروں کے نام بدلیں، اپنی ریاستوں سے مسلم قائدین کو بھگائیں وغیرہ، تب وہ اُمید یا ترقی یا سلامتی کا کوئی پیام نہیں دے رہا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف وہ مسلسل جھگڑے، تشدد، فسادات اور انتشار نیز سماج کی تقسیم کا اندیشہ پیدا کرتا ہے، اور عام شہریوں کے دلوں میں خوف ڈالتا ہے۔ اس طرح کا خوف، میرا ماننا ہے کہ بہت غریب لوگوں کے ووٹ ڈالنے کی روش کے پس پردہ مضبوط عنصر ہے، کیونکہ وہ غربت اور ترقی کے جھوٹے دعوؤں کے ساتھ تو زندگی گزار سکتے ہیں لیکن وہ ہمیشگی لڑائی کی صورتحال میں نہیں جی سکتے ہیں۔
ہمیں خوف دور کرنا ہوگا
بقیہ ووٹروں پر بھی مسٹر ادتیہ ناتھ کا اثر لگ بھگ اسی طرح کا ہے۔ مزید یہ ہوا کہ انتخابات کے آخری مرحلے میں مسٹر مودی اور مسٹر امیت شاہ نے جس قسم کی تقاریر کئے، اس سے منظر صاف ہوگیا جس پر خوف ہونے لگا۔ اگر آپ سمجھتے ہو کہ خوف و اندیشہ کا سینئر سٹیزن یا گرہست خاتون یا پُرجوش پروفیشنل یا بلند حوصلہ نوجوان اسٹوڈنٹ پر کچھ اثر نہیں ہوتا ہے تو آپ غلط ہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں بالعموم محتاط رہنے والے متعدد بزنس پرسنس اور بینکرس نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور سرگوشی میں کانگریس پارٹی کو مبارکباد دی! ایک تعلیم یافتہ نوجوان لیڈی اپنی ٹرالی لئے تیزی سے مجھ تک پہنچی تاکہ اظہار کرسکے کہ انتخابی نتائج پر وہ کس قدر خوش ہے اور کانگریس کیلئے نیک تمنائیں پیش کرسکے۔ ایک موقع پر لنچ کرنے والے معمر شہریوں نے مجھے روکا اور کہا کہ انھیں نتائج پر بے حد مسرت ہوئی اور امید ظاہر کی کہ 2019ء میں تبدیلی آئے گی۔ جرنلسٹوں نے جو سیاسی صورتحال کے مبصرین میں سب سے زیادہ سخت اور ترش رو ہوتے ہیں، انٹرویو لینے کی خواہش کی ہے (ویسے مجھے ابھی تک پتہ نہیں کہ اُن کے پروپرائٹرز کیا سوچتے ہیں!)
کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، بی جے پی جوابی وار کرے گی جس میں وہ دستیاب تمام تر وسیلوں کو بروئے کار لائے گی … قوانین، آرڈیننس، وعدے، تلاشیاں، مقدمات اور ان سب سے بڑھ کر جاریہ پروگراموں میں مزید رقم جھونکیں گے۔ جہاں تک رقم کا معاملہ ہے، آر بی آئی کے نام نہاد ’فاضل ذخائر‘ پر حکومتی دھاوے کے امکانات ڈاکٹر اُرجیت پٹیل کے اخراج کے ساتھ بڑھ گئے ہیں۔ بی جے پی کے پاس جوابی وار کیلئے ایک سو دن ہیں۔ اپوزیشن کے پاس بھی اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کیلئے سو دن ہیں۔ 2019ء کا عوامی فیصلہ ہندوستان کے دستور اور اس کی قدروں کی وقعت طے کرے گا۔