بی جے پی حکومت ۔ اندھیر نگری چوپٹ راج

غضنفر علی خان
ہندوستان پر کئی حکومتیں رہی جن میں مغلوں کی حکمرانی بھی شامل ہے لیکن کسی بھی حکومت نے شہروں کے نام بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ جو نام تھے وہی برقرار رہے۔ ہندوستان کی تاریخی عظمت بھی من و عن قائم رہی۔ یہ اس لئے ہوا کہ حکمرانوں نے تنگ نظری سے کام نہیں لیا لیکن موجودہ مودی حکومت نے ایک سلسلہ شروع کیا ہے اور تاریخی اہمیت کے حامل شہروں کے نام جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں انھیں بدلنے کی بات سوچی بھی نہیں تھی کیوں کہ ان حکومتوں کے پیش نظر یہ کبھی نہیں تھا کسی شہر کا نام اردو زبان میں ہے اور مسلمان حکمرانوں کی دین ہے۔ کونسی زبان کا لفظ ہے اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی کے مصداق بعض شہروں کے نام بدلے جانے چاہئے یہ اس لئے ہورہا ہے کہ بی جے پی حکومت کے مزاج میں مسلمانوں سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ یہ پارٹی ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے ایک ایسی نفرت رکھتی ہے کہ اس کو مسلم حکمرانوں کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی۔ بڑے جانور کے گوشت سے لے کر معمولی قصبات کے نام اگر اُردو زبان، فارسی زبان کے طرز پر ہے اور رہیں گے شہروں کے ناموں تک بی جے پی کی اس ازلی نفرت کا سلسلہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا ایک مسلمہ بات ہے کہ ’’بے وجہ کی نفرت‘‘ کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ بار بار اُبھر کر آتی ہے۔ ہر بات کڑوی لگتی ہے۔ اب انھیں ناموں پر بھی اعتراض ہورہا ہے۔ ابھی تو صرف چند شہروں تک بات ہورہی ہے خدا بہتر جانتا ہے کہ مسلمانوں سے انتقام لینے کا یہ جنون کہاں اور کب ختم ہوگا۔ صرف اس امید پر کہ ہر عروج کو زوال لازم ہے۔ وہ دن دور نہیں جبکہ ایسی فرقہ پرست طاقتیں کب اور کہاں زوال پذیر ہوجائیں۔ عام ہندوستانی باشندہ کو اس سے کوئی تعلق نہیں کہ اس کے شہر کا نام بدلا جارہا ہے اس کے بچپن سے اس کے بڑے ہونے تک جو نام سنے وہ اس کے وجود کا حصہ یا جز بن گئے ہیں۔ بی جے پی حکومت صرف اقتدار کے نشہ میں چور ہے۔ اُسے یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ حکومتیں ہر دور میں بدلتی رہتی ہیں اور ہمارا دور اس اُصول سے کوئی آزاد نہیں ہے لیکن جتنا وقت اس حکومت کو باقی رہنے کا ملے گا وہ اپنے دانتوں اور ناخن سے ہماری تاریخ کو بدلنے کی کوشش جاری رکھے گی۔ ایسی طاقتیں دائمی طور پر تو کبھی حکمراں نہیں تھی اس لئے موجودہ حکومت بھی نہیں رہے گی لیکن جتنا وقت اس کو برقرار رکھنے کا ملے گا وہ ہمارے ملک ہندوستان کی ملی جلی تہذیب پر ایسے حملے کرتے رہے گی اور عام ہندوستانی کو اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ تہذیب و تمدن کو کبھی ختم ہونے نہیں دینا چاہئے کیونکہ ہر ملک کی اپنی تاریخ ہوتی ہے۔ ہر علاقہ کی اپنی تہذیب ہوتی ہے کسی ملک نے اپنے تمدن کے نقوش مٹانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بے حس حکومت اپنی تہذیب اس کی اپنی تاریخ بدلنے کے لئے سب کچھ کر گزرنے کی سعی لاحاصل کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ شہروں کے تاریخی نام بدلنے سے آخر کیا فائدہ ہوگا۔ کیا وہاں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا کیا وہاں کی زمین سونا اُگلے گی کیا ملک کے حالات بدل جائیں گے کہ وہ نیا بھارت وجود میں آجائے گا جس کا خواب نریندر مودی نے دیکھا ہے اور سارے ملک کی آبادی کو دکھانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ بھلا ناموں ہی میں کیا رکھا ہے۔ کونسی بات ان کے دل و دماغ میں سمائی ہے۔ اُردو زبان کے کسی لفظ کا کسی شہر کے نام میں آجائے تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑے گا یا اس کے کرشمے کے طور پر وہاں کایا پلٹ ہوجائے گی۔ مدراس کا نام بدل کر چینائی کرنے سے (بی جے پی کا اس میں کوئی دخل نہیں مثال کے طور پر راقم الحروف یہ تذکرہ کیا ہے) تو کیا چینائی شہر میں کوئی تبدیلی ہوئی۔ کیا اس کی تاریخ اور جغرافیائی موقف بدل گیا۔ یہ ایک بے معنی کوشش ہے کہ شہروں کے نام بدلنے کے ارادے موجودہ حکومت بھی کررہی ہے۔ اُردو زبان میں ہزاروں حروف عربی حروف اس طرح سے شامل ہوئے ہیں کہ اب معانی ہماری زبان کا حصہ ہوگئے ہیں۔ تحریک آزادی کے دور میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا۔ قومی رہنما گاندھی جی نے ایک بات برسبیل تذکرہ کہی تھی زبان اُردو میں فارسی اور عربی زبان کے لفظ کمتر استعمال ہونے چاہئے۔ اس محفل میں سابق صدرجمہوریہ ذاکر حسین بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے گاندھی جی سے کہاکہ خود آپ کے حلقے کے لوگوں نے فارسی کے الفاظ کا استعمال کیا ہے اور بعض نے تو اپنے اپنے ناموں کو فارسی طرز پر رکھا ہے مثلاً سردار ولبھ بھائی پٹیل کے نام کا پہلا لفظ ’’سردار‘‘ خالصتاً فارسی کا ہے کیا انھیں اپنے نام سے سردار کا لفظ نکال دینا چاہئے۔ ایک اور مثال دیتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر حسین نے گاندھی جی سے کہاکہ ایک اور قریبی لیڈر کے ایم منشی کا نام بھی بدلنا پڑے کیوں کہ منشی فارسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ بات سن کر گاندھی جی چپ ہوگئے۔ کے ایم منشی وہی ہیں جنھوں نے حیدرآباد اور ساری سلطنت آصفیہ کے ختم ہونے کے موضوع پر ایک جامع اور یادگار کتاب لکھی تھی۔ کئی برسوں بعد ناموں کا سلسلہ چھڑا ہے۔ آج کے دور میں بھی ایک اہم سوال یہ ہے کہ ناموں میں تبدیلی محض اس لئے کی جارہی ہے کہ ان میں سے کئی شہروں کے نام اُردو طرز پر رکھے گئے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آیا ملک کے دیگر سنگین مسائل پر توجہ کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے یہ حکومت صرف نام پر کیوں زور دے رہی ہے۔ اپنی حکمرانی کی صلاحیت کے نہ ہونے کا کھلا ثبوت پیش کررہی ہے۔