بی جے پی حکومت بچوں کی صحت و تعلیم سے لاپرواہ

پی چدمبرم
اس دنیا میں رہنے والا ہر چھٹواں فرد ہندوستان میں رہتاہے۔ آیا ہندوستان میں زندگی اچھی یا بری یعنی خوشحالی ہے یا بدحالی کا شکار ہے؟ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں ملازمتوں کے مواقع میں قلت (ہمارے ملک میں روزگار کے قلیل مواقع پائے جاتے ہیں ) آلودہ فضاء، پینے کے لئے غیر موزوں پانی، ناقص سڑکیں (سوائے چند قومی شاہراہوں کے ) لا اینڈ آرڈر کی خطرناک صورتحال، ہجومی تشدد اور ہجومی انصاف کے باوجود ہم ہندوستانیوں میں اطمینان کا احساس پایا جاتا ہے۔ اگرچیکہ مذکورہ مسائل جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان سے سب واقف ہیں اور ملک میں لوگ ان کا کہیں نہ کہیں مشاہدہ بھی کررہے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو قابل تشویش ہیں لیکن کچھ ایسے بھی مسائل ہیں جو اَن دیکھے ہیں لیکن ان پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا جانا چاہیئے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو ہمارے بچوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ تقریباً 49 کروڑ بچے ہندوستان میں پیدا ہوئے اور اسی سرزمین پر رہتے بھی ہیں جو 21ویں صدی میں سال پیدائش کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔
تعلیم اور صحت
بچوں کے حقوق کیا ہیں ؟ ایک گھر کے ساتھ ساتھ ان کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے والے والدین، تحفظ و سلامتی اور دوست، ایک بچے کو جو حقوق حاصل ہیں ان کی یقناً ریاست ( مملکت ) کو طمانیت دینی لازمی ہے۔ بچوں کے حقوق میں حق تعلیم اور مکمل صحت کا حق ، سب سے زیادہ اہمیت و افادیت رکھتے ہیں۔
عالمی بینک ہر سال عالمی ترقیاتی رپورٹ کی اشاعت عمل میں لاتی ہے اور انسانی سرمایہ سے متعلق اشاریہ اس کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ 2019 کی رپورٹ میں دنیا کے 157 ممالک کے انسانی سرمایہ اشاریہ کو پیش کیا گیا جو دراصل اُس انسانی سرمایہ اشاریہ کا پیمانہ ہے جس کی آج پیدا ہونے والا بچہ 18سال کی عمر کو پہنچنے پر توقع کرسکتا ہے۔ اس رپورٹ کی وضاحتی نوٹ میں واضح کیا گیا کہ ورکرس کی اگلی نسل کی پیداواری صلاحیتوں کا جائزہ لینے کا یہ ایک پیمانہ ہے جو مکمل تعلیم اور مکمل صحت کے معیار سے تعلق رکھتا ہے۔
ایک معیشت جس میں آج ایک بچہ پیدا ہوتا ہے وہ مکمل تعلیم و صحت کا ہدف حاصل کرنے کی توقع رکھ سکتا ہے ۔ عالمی انسانی سرمایہ کے اشاریہ میں پہلا مقام حاصل کرتے ہوئے کسی بھی ملک نے اب تک 1 اسکور نہیں کیا کیونکہ ملکوں کے مدنظر تعلیم اور صحت کا ہمیشہ ایک معیار یا پیمانہ رہتا ہے اور رہے اور ہر ملک ان دونوں شعبوں میں اپنے اہداف مکمل کرنے کا خواہاں رہتا ہے لیکن اسے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس معاملہ میں سنگاپور کو پہلا مقام حاصل ہے، اس کا انسانی سرمایہ اشاریہ 0.88 بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس اشاریہ کی فہرست میں پہلے 10 مقامات حاصل کرنے والے ممالک نے 0.80 اسکور کیا ہے جن میں سنگاپور، جمہوریہ کوریا، جاپان، ہانگ کانگ، فن لینڈ، ائر لینڈ، آسٹریلیا، سویڈن، نیدر لینڈ اور کناڈا شامل ہیں۔ ایشیائی باشندوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہیئے کہ ایشیائی ممالک نے 10 میں سے چار سرفہرست مقام یا درجات حاصل کئے ہیں۔جہاں تک 5 بڑے ملکوں کے درجہ کا سوال ہے انہیں اچھا کہا جاسکتا ہے لیکن بہت ہی اچھا نہیں کہا جاسکتا۔مثال کے طور پر پانچ بڑے ملکوں نے اس معاملہ میں جو اسکور کیا ہے وہ اس طرح ہے برطانیہ (HCI 0.78) اس اسکور کے ساتھ وہ 157 ممالک میں 15 ویں نمبر پر ہے۔ فرانس نے 0.76 اسکور کے ساتھ 22واں مقام حاصل کیا۔ امریکہ 0.74 اسکور کے سایتھ 74ویں مقام پر دکھائی دیتا ہے۔ روس 34ویں مقام پر ہے اور اس نے 0.73 اسکور کیا ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل چین 0.67 اسکور کے ساتھ 46 ویں نمبر پر موجود ہے۔157 ممالک میں 96 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے انسانی سرمایہ اشاریہ میں 0.51 اسکور کیا ہے۔
مابقی 61 ممالک جن کا انسانی سرمایہ اشارہ 0.50 یا اس سے کم ہے۔ ان میں ہمارا ملک ہندوستان بھی شامل ہے۔ ہندوستان کا HCI 0.44 ہے اور اس نے 115 واں مقام حاصل کیا ہے۔ اس اسکور سے ہندوستان تیسری دنیا کی فہرست میں سب سے نیچے چلا گیا ہے۔ تاہم بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت نے بڑے متکبرانہ انداز میں عالمی بینک کی اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ حکومت نے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ حکومت ہند نے HCI کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام بچوں کے معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے اپنے فروغ انسانی سرمایہ پروگرام کو جاری رکھے گی۔
اگر HCI رپورٹ نے مجھے غمزدہ کیا تو حکومت کے بیان نے مجھے برہم کردیا ۔ کسی نے بھی این ڈی اے حکومت کو کمتر HCI کیلئے تنہا ذمہ دار قرار نہیں دیا بلکہ اس کیلئے مابعد آزادی اقتدار پر فائز ہونے والی تمام حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا ہے وہ ہماری حکومت کا اپنی غلطیوں اور بچوں کے معیار زندگی بہتر بنانے میں آنے والی رکاوٹوں و قلتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا ہے۔ این ڈی اے حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہی نہیں۔انسانی سرمایہ اشاریہ کوئی ہوا میں چلایا جانے والا تیر نہیں ہے بلکہ یہ اشاریہ 6 حقائق کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے جس کے تحت ہندوستان میں بھی خاندانوں کی اوسط آمدنی، 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں شرح اموات، بالغوں میں شرح اموات، اسکول میں بچوں کے حصول ِ علم کی مدت اور بچوں میں شرح نمو یعنی ان میں نمو پانے کی شرح وغیرہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔خاندانوں کی اوسط آمدنی اور 5 سال کی عمر کے بچوں میں پائی جانے والی شرح اموات کے معاملہ میں ہندوستان 0.96 اسکور کیا ہے۔
بالغوں میں بقاء کی جو شرح ہے اس معاملہ میں بھی ہندوستان کی کارکردگی اطمینان بخش ہے، اس نے 0.83 اسکور کیا ہے۔ لیکن حصولِ علم اور صحت کی بنیاد پر بچوں کے نمو کے معاملہ میں ہندوستان بہت پیچھے رہ گیا جس میں بالترتیب اسکول میں 5,8 سال اور 0.62 اسکور بتائے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5 سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچوں کا قد ان کی عمر کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں بچوں کے حق تعلیم پر موثر عمل آوری کا نہ ہونا، اسکولوں ، اساتذہ اور سکھانے والوں کے معیار پر توجہ مرکوز نہ کرنا شامل ہیں۔ اس طرح آنگن واڑی اور حق غذائی طمانیت پر بھی موثر طور پر عمل آوری کا نہ ہونا بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔ بچوں کے ابتدائی 5 سال عمر کے دوران حکومت حاملہ اور دودھ پلانے والی ماوں اور بچوں کو اطمینان بخش مقدار میں غذا فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اس کیلئے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی، پروگرامس پر عجیب و غریب اور غیر موثر طریقوں سے عمل آوری اور ناکافی فنڈس بھی ذمہ دار ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ آج ہمارے ملک میں ماوں اور بچوں کی صحت و تعلیم کے معیار میں گراوٹ آئی ہے۔ اس کیلئے حکومت کی مجرمانہ غفلت ذمہ دار ہے۔ ہمیں انسانی سرمایہ اشاریہ سے متعلق رپورٹ کا عالمی سطح پر بھوک کا جو اشاریہ ہے اس کے ساتھ مطالعہ کرنا ضروری ہے اس کی ڈی ڈبلیو سی ڈبلیو
( Deutsche Welthungerhlife Concern World Wide) and
نے اشاعت عمل میں لائی ہے۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں ہر7 میں سے ایک بچہ ناقص غذا کا شکار ہے۔ ہر 5 میں سے دو بچے مناسب انداز میں جسمانی نمو پانے سے قاصر ہیں۔ ( یعنی عمر کے حساب سے ان کا قد اور وزن جو ہونا چاہیئے تھا نہیں ہے ) ہر 5 میں سے ایک بچہ ٹھٹر جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ناقص غذا کے باعث ہورہا ہے۔ ایک طرف ہمارے گوداموں میں گیہوں اور دھان کے انبار پائے جاتے ہیں اور دوسری جانب ہم اپنے ملک کے ہر بچہ کو مناسب مقدار میں غذا فراہم کرنے کے قابل نہیں۔ اس سلسلہ میں اگر قومی مشاورتی کونسل کی بات نکلتی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یو پی اے حکومت نے اس ضمن میں ریاست کی مداخلت کی ضرورت محسوس کی اس کے لئے MGNEREGA کے ساتھ حق غذائی سلامتی متعارف کروایا لیکن ان دونوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت 2014 سے این ڈی اے حکومت نے نظر انداز کردیا۔ نتیجہ میں ہمارا انسانی سرمایہ اشاریہ کمتر اور بھوک کا اشاریہ زیادہ ہوگیا۔
عالمی بھوک اشاریہ میں ہندوستان نے 31.1 اسکور کیا جس سے ہندوستان میں سنگین بھوک پائے جانے کا اشارہ ملتا ہے۔ اشاریہ برائے فروغ انسانی میں ہمارے ملک کو 189 ممالک میں137 واں رینک حاصل ہوا۔ ان تلخ حقائق کے باوجود بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی ترجیحات بڑی حیرت ناک اور اشتعال انگیز رہی جیسے ایک مندر کی تعمیر، گورکھشا، فرہادوں کے خلاف انسداد رومیو اسکواڈس، گھر واپسی ( مسلمانوں، عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی مہم ) ، یکساں سیول کوڈ، مجسموں کی تنصیب اور شہروں کے ناموں کی تبدیلی وغیرہ۔ بی جے پی کی ان ترجیحات میں سے کوئی بھی ہمارے بچوں کی تعلیم اور مکمل صحت کو یقینی نہیں بناسکتی۔
pchidambaram.india@gmail.com