راجدیپ سر دیسائی
2004 ء میں عام انتخابات سے چند ہفتہ قبل اور لکھنو میں مفت ساڑیوں کی تقسیم کے دوران بھگدڑ میں 21 غریب خواتین کی اموات سے ایک دن بعد اٹل بہاری واجپائی نے میرے ساتھ انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ اس سانحہ سے’’تاباں ہندوستان ‘‘ کی شبیہہ کو سخت دھکہ لگا ہے اور آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں ممکنہ جیت کی خوشیوں پر پانی پھر گیا ۔ نریندر مودی اٹل جی نہیں ہیں ۔ بی جے پی کے اصل وزیراعظم جو شاعر سیاستداں تھے ان کے بعد آنے والی وزراء کی ہسٹری میں ان کا ذرا سا بھی شائبہ موجود نہیں ہے لیکن موجودہ دور کے سپریم لیڈر کو اپنے ناکام ہوجانے کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی قیادت کی جانب سے ہندی علاقوں میں کانگریس کی پیش قدمی کا ذرا سا بھی احساس نہیں پایا جاتا ۔ گزشتہ ہفتہ سے بی جے پی صرف ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے کہ حالیہ تین ریاستوں کی ناکامی محض وقتیہ ہے اور 2019 ء کے عام انتخابات پر اس کے اثرات نہیں پڑھنے والے ہیں اور اس کے نتائج کچھ اور مختلف ہی ہوں گے ۔ کیا واقعی 2019 ء کی موسم گرما کی شدت 2018 ء کے منجمد کردینے والی سردی سے مختلف ہوگی ؟ اس کا جواب نفی اور اثبات دونوں میں ہے جہاں تک اثبات کا تعلق ہے قومی انتخابات ہمیشہ مقامی انتخابات سے مختلف ہوتے ہیں جس میں قومی سیاست کی گونج انفرادی شخصیت کے تصورات کے اطراف گونجتی ہے ۔ بی جے پی کے ذہن و گمان میں صرف یہ تصور جاگزیں ہے کہ 2019 ء کے انتخابات صرف ایک ہی عنوان ’’مودی کے خلاف کون ‘‘؟ تاثر دیتے ہیں ۔ جس طرح 1971 ء میں اندرا گاندھی کی انتخابی جنگ کا موضوع رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے تنظیمی خدوخال ملک کے اطراف و اکناف میں خاص طور پر زیادہ آبادی والا شمالی اور مغربی ہندوستان بی جے پی کیلئے بہ نسبت اپنے مخالفین کے مفید ہے ۔ اس کے باوجود بھی پانچ وجوہات ہیں جس کی بناء پر بی جے پی کافی فکر مند دکھائی دیتی ہے ۔ کیونکہ کانگریس کا ووٹنگ اوسط تینوں ہندی ریاستوں میں بی جے پی سے زیادہ رہا ہے اور بہ نسبت 2013 ء کے اس میں پانچ فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔ دوسری وجہ بی جے پی ایسے علاقوں میں سخت ہزیمت کا سامنا کی ہے جہاں پر ایس سی اور ایس ٹی طبقہ اکثریت میں پایا جاتا تھا ۔ تیسری اہم وجہ بہ مقابلہ بی جے پی ، کانگریس نے ان علاقوں سے دوگنی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ وہ دیہی علاقے جہاں پر سخت غربت و افلاس پایا جاتا تھا ۔ چوتھی وجہ ایسے شہری علاقے جات جو بی جے پی کے قلعے تصور کئے جاتے تھے وہاں پر تقریباً چارفیصد ووٹ شیر سے بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور آخری وجہ ایسے حلقہ جات میں بی جے پی کی شکست واقع ہونا جہاں پر مودی خود شخصی طور پر انتخابی ریالیز کو مخاطب کرتے رہے تھے جو پارٹی 2014 ء میں بھاری کثیر اکثریت کے ساتھ ابھری تھی ۔ اب اُسی شمال مغرب میں کانگریس نے اپنی جیت کے جھنڈے گاڑدیئے اور اب اس عنصر کے باعث دہلی اور کئی اہم ریاستوں میں مخالف پارٹی رجحان ابھرنے کے مواقع ہیں ۔
جس طرح بی جے پی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ مخالف پارٹی رجحانات ختم ہوچکے ہیں اس کی جگہ نئے رجحان پیدا ہوچکے ہیں ۔ وہ دیہی آمدنی میں انحطاط اور ملازمتوں کی فراہمی میں ناکامی ۔ یہ دو عناصر کا وجود بی جے پی کے ’’ہندو مسلمان‘‘ کارڈ کے متوازی ’’کسان نوجوان‘‘ نعرہ کی تاب نہیں لاسکا ۔ جس طرح بی جے پی نے یو پی وزیر اعلیٰ کو انتخابی مہمات میں پیش پیش رکھا جس طرح کہ یوگی اسٹار مہم پسند ہیں ۔ ان کے ’’علی ورسس بجرنگ بلی ‘‘ نعرہ کے خلاف عوام مودی کے ’’اچھے دن ‘‘ والے نعرہ کو فوقیت دینے لگے تاکہ ان کے لئے ملازمتوں کی راہ نکل آئے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 2019 ء میں بی جے پی ایک واحد سنگل پارٹی بن کر ابھرے گی جس طرح کہ 282 نشستیں بمقابلہ کانگریس کی 44 نشستوں کا موازنہ کیا جائے ۔ یہاں پر دونوں شخصیتوں کی مقبولیت کا موازنہ اگر دیکھا جائے تو مودی برخلاف راہول گاندھی وسیع خلیج دکھائی دیتی ہے ۔ سیاست ہمیشہ حال کا پر تو ہوتی ہے نہ کہ ماضی کی عکاسی ۔ جو افراد مودی ۔ شاہ جوڑی کی ناقابل شکست تصورات میں مگن تھے اور گن گاتے تھے وہ اپوزیشن کی کارکردگی کو دیکھ کر چپ سادھ لئے اور اس موڈ کو ٹالتے ہوئے بی جے پی صرف ’’انکاریہ‘‘ موڈ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے ۔ ابھی وقت ہے کہ اگر وہ وقت کی ہوا جو آہستہ سے چلنے لگی ہے کو اگر ٹال دے تو وہی ہوا آگے ملکر طوفانی ہوائیں بن جاسکتی ہیں جس میں بی جے پی ایک ہوا کے جھکڑ کے ساتھ ہی خش و خاشاک کی ماند صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے ۔
نوٹ : اس ہفتہ منعقد کی گئی ایک میڈیا میٹنگ میں جب سوال کیا گیا کہ 2019 ء کا ورلڈ کپ اور عام انتخابات کون لے جائے گا تو فینانس منسٹر ارون جیٹلی نے برجستہ کہا کہ ’’نریندر مودی یا ویراٹ کوہلی دونوں میں سے کسی کو بھی شکست دینا اتنا آسان نہیں ہے ‘‘ ۔ اس ریمارک کے دوسرے ہی دن اتفاقاً ہندوستانی ٹیم کوہلی کی سنچری کے باوجود پرتھ ٹسٹ ہارگئی ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح انفرادی اسکور ٹیم کو جیت نہیںدلاسکتی اسی طرح شخصیت پرستی پارٹی کی کامیابی کی ضمانت نہیں بن سکتی ۔