محمد مصطفی علی سروری
سعودی عرب کے کثیر الاشاعت انگریزی اخبار سعودی گزٹ نے 8 جولائی 2018 ء کو ایک خبر شائع کی ۔ خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ سال 2018 ء کے پہلے سہ ماہی کے دوران سعودی عرب میں دو لاکھ چونتیس ہزار غیر ملکیوں کی ملازمتیں ختم ہوگئی۔ اخبار اکنامک ٹائمز نے 7 جون 2018 ء کو ایک رپورٹ میں لکھا کہ مشرق وسطی کے جی سی سی ملکوں میں 85 لاکھ ہندوستانی رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔ ان میں سے دو لاکھ تہتر ہزار ہندوستانیوں نے اس برس کے آغاز سے اپنی ملازمتیں چھوڑ دی یا انہیں نکال دیا گیا یا انہوں نے دوسری جگہ ملازمتیں اختیار کی۔
مشرق وسطی خاص کر سعودی عرب سے غیر ملکیوں کو نکالے جانے کے کتنے شدید اثرات محسوس کئے جارہے ہیں، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2016 ء میں ہندوستانی این آر آئیز نے اپنے وطن کو 627 بلین ڈالر مالیتی بیرونی زر مبادلہ روانہ کیا تھا لیکن اس کے اگلے برس ہی زر مبادلہ کی رقم میں 9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔
ماہرین معاشیات نے مشرق وسطی اور خاص کر تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کے حوالے سے لکھا ہے کہ غیر ملکیوں کیلئے وہاں کام کرنا ہر گزرتے برس کے ساتھ ایک مشکل امر بنتا جائے گا ۔ ایسے میں ہندوستانیوں اور خاص کر ان مسلمانوں کو اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے خود اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے سعودی عرب میں روزگار کے مواقع دیکھا کرتے تھے۔
قارئین اکرام اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کو حصول روزگار کے مواقع دستیاب ہیں ؟
اگر ہاں تو کن شعبوں میں ؟ اور مسلمانوں کو روزگار کے علاوہ پیسے کمانے کیلئے دوسرے مواقع کونسے ہیں۔
مواقع نہ صرف روزگار کیلئے دستیاب ہیں بلکہ بزنس کر کے بھی اپنے ہی وطن اور شہر میں کمایا جاسکتا ہے ۔ شہر حیدرآباد کی اگر بات کروں تو اس شہر میں میری ملاقات ایک ایسے اوبیر (UBER) کار ڈرائیور سے بھی ہوئی جو اڈیشہ سے آکر یہاں ٹیکسی چلا رہا ہے۔ وہ شخص جس کو سڑک کے ہر موڈ پر آگے بڑھنے کے لئے کسی سے راستہ پوچھنا پڑتا ہے ۔ وہ 30 تا 40 ہزار روپئے ماہانہ کما رہا ہے اور گاڑی کی قسط کے پیسے ادا کرنے کیلئے دس ہزار الگ سے جمع کر رہا ہے۔
قارئین بہت سارے این آر آئیز کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حصول تعلیم کے بجائے محنت ، لیاقت اور ہنر کی بنیادوں پر بیرون ملک روزگار حاصل کرنے کو ترجیح دی تھی اور اب اپنے وطن ہندوستان واپس آکر وہ بغیر کسی تعلیمی ڈگری کے کیسے روزگار حاصل کریں گے ۔ میں یہاں پرایک مثال دینا چاہوں گا کہ اگر این آر آئیز کے ہاں باضابطہ تعلیم نہیں ہے تو وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی تخیلاتی مشورہ اور دوسری دنیا کی بات نہیں ہے ۔ اخبار ہندوستان ٹائمز نے 18 جولائی 2018 ء کو راجستھان کے ایک ایم ایل اے کے متعلق خبر شائع کی ۔ جی ہاں 55 سال کی عمر میں پھول سنگھ مینا نے اب بی اے کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ایم ایل اے نے اخبارکو بتلایا کہ اپنی لڑکی کی ہمت افزائی سے متاثر ہوکر انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ، اسکول میں ساتویں جماعت کے بعد ترک تعلیم کرنے والے مینا نے پہلے دسویں کا امتحان پاس کیا پھر بارھویں کا امتحان پاس کر کے اب بی اے میں داخلہ لیا ہے ۔ 40 سال پہلے تعلیم چھوڑ دینے والے پھول سنگھ مینا نے اب تعلیم کے میدان میں اعلیٰ ترین سند یعنی P.hd تک تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
ایک ایم ایل ا ے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اس نے تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کر کے 55 سال کی عمر میں گریجویشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگر ہم واقعی حصول روزگار کے لئے یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی ایسی تعلیمی سند نہیں تو راجستھان کے ایم ایل اے پھول سنگھ مینا کی مثال سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں روزگار اور نوکریوں کے علاوہ کتنے سارے مو اقع ہیں، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی معیشت نے فرانس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت کا موقف حاصل کرلیا ہے ۔ برطانوی اخبار اکسپریس کی 11 جولائی 2018 ء کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں ہندوستان نے اپنی کل قومی پیداوار میں اضافہ ریکارڈ کرتے ہوئے یوروپی ملک فرانس کو پیچھے کردیا اور دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کرلیا ۔ اخبار نے لکھا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں کے دوران ہندوستان اور چین دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں خود کا شمار کرواتے ہوئے امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔
ہندوستان میں باصلاحیت آئی آئی ٹی کے فارغ التحصیل انجنیئر کی تنخواہوں کی شرح سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں باصلاحیت ، ہنرمند تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔ اخبار بزنس اسٹانڈرڈ کی 17 جولائی 2018 ء کو شائع ہوئی رپورٹ کے مطابق دیگر کالجس سے انجنیئرنگ کرنے والوں کے مقابل IIT کے انجنیئرس کو 137 فیصد ز یادہ تنخواہیں دی جارہی ہے ۔ اخبار کے مطابق IIT سے کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں ڈگری مکمل کرنے والے طلباء کو مختلف کمپنیوں نے تقریباً 7 لاکھ کی تنخواہ پر ملازمت کا پیشکش کیا ہے۔ IIM سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری کرنے والوں کو ہندوستانی کمپنیوں نے چودہ لاکھ سے زائد سالانہ تنخواہ کا پیاکیج دیا ہے ۔ بزنس اسٹانڈرڈ اخبار کی اس رپو رٹ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلباء اگر IIT اور IIM سے ڈگری پاس کرتے ہیں تو اندرون ملک بھی انہیں لاکھوں روپئے تنخواہ پر نوکریاں دی جاتی ہیں۔
یہاں پر آگے بڑھنے سے پہلے میں ایک لمحہ کے لئے توقف کرتے ہوئے ان قارئین کو جواب دینا چاہوں گا جو یہ عذر رکھتے ہیں کہ ارے کیسی بات کر رہے ہیں آپ ؟ مسلمان بچے کہاں سے IIT اور IIM میں داخلہ حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسی لاکھوں کی تنخواہوں کے بارے میں انگریزی اخبارات میں رپورٹیں پڑھنا تو اچھا لگتا ہے مگر عملی طور پر ایسی نوکریاں ہمیں نہیں ملتی ہیں ۔
چلیئے میں اس بات کو تسلیم کرلیتا ہوں مگر اب میں نوکری کی مثال نہیں دوں گا، اگلی مثال میں تجارت کے میدان سے جی ہاں بزنس کے میدان سے دینا چاہوں گا کہ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہے تو اس کے لئے ہندوستان میں کتنے زیادہ مواقع ہیں۔ اس کے متعلق بہت کچھ کہا جاتا ہے ، لکھا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس بات سے قائل نہیں اور این آر آئیز کو بھی اس سے کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ قارئین اب میں آپ حضرات کو اپنے اس شہر حیدرآباد کی ایک ایسی مثال دینا چاہوں گا جن سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ تجارت یا بزنس کرنے کیلئے صرف پیسے نہیں بلکہ صحیح منصوبہ بندی اور مہارت چاہئے اور جو مثال اب میں پیش کرنے جارہا ہوں یہ کوئی سنی سنائی مثال یا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کی باضابطہ طور پر سند بھی ہے ۔ جی ہاں 13 جولائی 2018 ء کو انگریزی اخبار بزنس لائین نے سوما شیکھر کی ایک رپورٹ شائع کی ۔ رپورٹ کے مطابق شہر حیدرآباد میں چندرا نائیک نام کا ایک تاجر ہے جس کا تعلق درج فہرست قبائل سے ہے۔ اس شخص نے حیدر آباد میں موجود فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے بارے میں سنا تو ان کمپنیوں کے ذریعہ منافع کمانے اور کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا لیکن چندرا نائیک نہ تو سائنسداں تھا اور نہ ہی اس نے فارمیسی کا کورس کیا تھا ۔ اس لئے ان فارما کمپنیوں میں نوکری کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ چندرا نائیک نے کہیں سے سن رکھا تھا کہ یہ جو ادویات بنانے والی کمپنیاں ہیں ان کو اپنی دواؤں کے تجربات کیلئے چوہوں کی ضرورت پڑتی ہے اور فارما کمپنیاں چوہوں پر کامیاب تجربات کے بعد ہی اپنی ادویات کو مارکٹ میں متعارف کرواتے ہیں۔ چندرا نائیک نے حیدرآباد کی فارما کمپنیوں کو چوہے سپلائی کرنے کا کاروبار شروع کیا ۔ قارئین یہ سچ ہے کہ چوہوں کو سپلائی کرنے کا کام بھی ایک بڑا کاروبار ہے۔ حیدرباد کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ہر سال 25 لاکھ چوہے امپورٹ کرنا پڑتا تھا۔ آج چندرا نائیک حیدرآباد کی ان فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو دواؤں کے تجربات کیلئے چوہے سپلائی کرتے ہوئے ہر مہینہ 25 لاکھ کا کاروبار کر رہا ہے ۔ چوہے سپلائی کرنے کے لئے چندرا نائیک نے باضابطہ طور پر حیدرآباد میں Rat Breeding سنٹر قائم رکھا ہے اور حیدرآباد کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ مل کر کاروبار کرر ہا ہے اور منافع بھی کما رہا ہے ۔ قارئین اپنے اس سے پہلے کے کالمس میں میں نے چین کی مثال دی تھی کہ چین میں جھنگروں کی باضابطہ افزائش کی جاتی ہے اور جھنگروں کو بڑا کر کے ان کا پاؤڈر بنایا جاتا ہے اور پھر اس پاؤڈر کو کاسمیٹک پراڈکٹ بنانے والی کمپنیاں استعمال کرتی ہے۔ کتنی مثالیں ہیں جہاں پر تعلیمی قابلیت نہ ہونے کے باوجود بھی ہندوستانیوں نے کاروبار کے میدان میں کامیابی کے پرچم لہرادیئے ۔ چندرا نائیک کے حوالے سے ایک اور بات بتلاتا چلوں کہ وہ ایک دلت ہے ، اس کو چوہوں کے کار وبار کے لئے کسی بینک نے قرضہ نہیں دیا اور بالآخر خود دلتوں کے قائم کردہ دلت چیامبر آف کامرس انڈسٹری والوں نے اس کی مدد کی تھی ۔
مشرق وسطی میں روزگار کے مواقع ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اندرون ملک ہمیں روزگار نہیں ملے گا ۔ ہندوستان میں روزگار ہی نہیں کاروبار کے بے شمار مواقع ہیں۔ ضرورت ہے کہ کاروبار کو کاروباری نقطہ نظر سے انجام دیا جائے ورنہ ایسے بڑے لوگوں کو بھی دیکھا گیا جو کاروبار کے نام پر منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب ناکام ہوجاتے ہیں ۔ کامیابی کے حصول کیلئے کامیاب افراد اور ادار وں کی نقل نہیں بلکہ ان کی جدوجہد اور ان کی منصوبہ بندی سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ مسلمان کاروں کی مرمت کرنے والا اچھا میکانک تو بن جاتا ہے مگر کاروں کی ڈیلرشپ حاصل نہیں کرپاتا۔ آخر کیوں اس سوال کا جواب ہمیں مسئلہ کا حل بتلاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اکل حلال ہم سبھی کیلئے آسان فرما اور بیرون ملک ہی نہیں اندرون ملک بھی موجود مواقع سے ہمیں بھی استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ آمین
sarwari829@yahoo.com