بیوی کا فیشن سے روکنے پر طلاق کا مطالبہ

سوال : میری بیوی غیر شرعی امور کا ارتکاب کرتی ہے، مثلاً بال کاٹنا چست تنگ لباس پہننا ، نماز نہ پڑھنا اور تاکید کرنے پر یہ کہنا کہ میری قبر کا جواب میں ہی دوںگی ، مجھے فیشن سے نہ روکو اور میری مرضی کے خلاف اپنے مائیکے میں رکی ہوئی ہیں، آنے کی شرط یہ لگاتی ہے کہ میں والدین سے الگ ہوجاؤں اور اس کو فیشن سے نہ روکوں۔ ورنہ مجھے طلاق دے دو ، کیا ان کا یہ مطالبہ درست ہے؟
محمد شفیق احمد ، ملک پیٹ
جواب : شریعت میں بیوی کو باعصمت رکھنا اور اسلامی شعار احتیار کرنے اور نماز کی پابندی کے لئے حکم دینے کا شوہر کو حق ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ہر مسلمان اپنے خاندان کا راعی (حاکم) ہے اور قیامت میں اس سے اپنی رعیت (افراد خاندان) سے متعلق سوال ہوگا۔ لہذا صورت مسئول عنہا میں بیوی پر شوہر کی اسلامی امور میں اطاعت لازمی ہے۔ لباس ، جسم کو چھپانے کے لئے ہے اگر کوئی چست لباس پہنے تو وہ گنہگار ہوگی۔ حدیثہ شریف میں اس کی سخت وعید آئی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہت سی دنیا میں کپڑے پہننے والی آخرت میں برہنہ ہوں گی۔
(2 بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے شوہر سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کے والدین (ساس و خسر وغیرہ) سے علحدہ مکان فراہم کرے۔ تاہم شوہر کے موجودہ مکان میں ایسی گنجائش ہو کہ بیوی کو پکوان وغیرہ کر کے علحدہ رہنا ممکن ہو تو وہ حصہ میں اس کا انتظام کردینے پر وہ (بیوی) اس میں رہے ۔ پھر علحدہ مکان کے مطالبہ کا حق نہیں رہے گا۔بیوی کو ان مذکورہ امور کی بناء طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں۔

اگر قعدۂ اولیٰ بھول جائے
سوال : حال میں میں ظہر کی نماز ادا کر رہا تھا لیکن دوسری رکعت پر بیٹھا نہیں کھڑا ہوگیا ۔ بعد میں تیسری چوتھی رکعت مکمل کیا اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا ۔ ا یک عالم صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی نماز ہی نہیں ہوئی ، دو رکعت کے قعدہ میں بیٹھنا ضروری تھا اور آپ نے اس کو ترک کردیا۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہے ؟ کیا میری نماز ہوئی یا نہیں ؟
محمداسداللہ، مراد نگر
جواب : کوئی شخص ظہر کی سنت ادا کر رہا ہو اور دو رکعت پر بیٹھنا بھول جائے اور تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوجائے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے تو شرعاً اس کی نماز مکمل ہوگئی ۔ عالمگیری جلد اول ص : 112 میں ہے : ولو صلی الاربع قبل الظھر ولم یقعد علی رأس الرکعتین جاز استحسانا کذا فی المحیط۔
اور ص : 113 میں ہے : رجل صلی أربع رکعات تطوعا ولم یقعد علی رأس الرکعتین عامدا لاتفسد صلاتہ استحسانا وھو قولھما و فی القیاس تفسد صلاتہ۔

وضو میں پا ؤں دھونے کی ابتداء
سوال : ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے ، جواب دیں گے تو مہربانی ہوگی کیونکہ میں نے یہ سوال بہت سے لوگوں سے کیا لیکن کسی نے بھی اطمینان بخش جواب نہیں دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم وضو کرتے ہیں تو ہاتھ اور پاؤں کو دھوتے وقت کہاں سے ابتداء کرنا چاہئے ، ہم سیدھا نل کے نیچے پاؤں رکھ دیتے ہیں، ایڑی وغیرہ دھونے کے بعد پاؤں کی انگلیاں دھوکر اس کا خلال کرتے ہیں۔ ازروئے شرع شریف کیا حکم ہے ؟
حافظ محمد عدنان، حیدر گوڑہ
جواب : ہاتھ اور پاؤں دھوتے وقت ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں سے آغاز کرنا مسنون ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 8 میں ہے : ومن السنن البداء ۃ من رؤوس الاصابع فی الیدین والرجلین کذا فی فتح القدیر۔

جمائی کو روکنے کا مجرب طریقہ
سوال : میں نے کچھ دن قبل ایک خطیب صاحب سے سنا کہ اگر کسی کو جمائی آئے اور وہ اس وقت انبیاء کا تصور کرے تو اس کی جمائی رک جاتی ہے۔ کیا اس کی کوئی دلیل ہے یا صرف یہ ایک مقولہ ہے؟ نیز اگر کسی کو نماز میں جمائی آئے تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
سید محمد بلال قادری، جہانما
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر بھلائی اور خیر کی تعلیم دی اور آپ نے ہر ممکنہ حد تک شر و برائی اور نقصان دہ امور سے بھی باخبر کیا ۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت چھوٹی باتوں کی بھی اپنی امت کو تعلیم دی۔ بالعموم لوگ جس کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ انہی میں سے ایک قابل ذکر مسئلہ جمائی کا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمائی اور چھینک سے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتا ہے۔ ( ان اللہ یحب العطاس) اور اس روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو حتی المقدور روکے کیونکہ وہ شیطان کی جانب سے ہے اور جب وہ (جمائی لیتے ہوئے) ’’ھا‘‘ کہتا ہے تو اس سے شیطان خوش ہوتا ہے (بخاری کتاب الادب ، باب ما یستحب من العطاس و مایکرہ من التثاء ب بروایت ابو ھریرہ) ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ جب تم سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو حتی المقدور روکے ’’ ھا ھا‘‘ نہ کہے کیونکہ وہ شیطان کی جانب سے ہے وہ اس سے خوش ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ مسلمان کو ہر وقت اللہ کا ذکر کرنا چاہئے اور چھینک جسم میں نشاط اور چستی پیدا کرتی ہے اور جمائی سستی اور تھکاوٹ کی علامت ہے۔ جمائی کی ناپسندیدگی کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان امور سے پرہیز کریں جو جمائی کا سبب ہوتے ہیں۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے : اذا تثاء ب احد کم فلیمسک بیدہ علی فیہ (جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنے ہاتھ منہ پر رکھ کر اس کو روکے) امام ابن ابی شیبہ نے یزید بن الاصم سے مرسل حدیث نقل کی ہے : ماتثا ء ب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قط
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی جمائی نہیں آئی ۔ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب فتح الباری میں نقل کرتے ہیں۔ جمائی کا نہ آنا نبوت کی خصوصیات میں سے ہے اور خطابی نے سلیمہ بن عبدالملک بن مروان کی سند سے تخریج کی ہے ۔ ’’ما تثاء ب نبی قط‘‘ یعنی کسی نبی کو جمائی نہیں آئی۔ بناء بریں کتب فقہ میں منقول ہے کہ اگر کوئی یہ خیال کرے کہ انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کو جمائی نہیں آتی تھی تو اس کی جمائی روک جائیگی اور امام قدوری نے فرمایا کہ یہ مجرب ہے ۔ ہم نے کئی مرتبہ اس کا تجربہ کیا ہے ۔ ردالمحتار جلد اول کتاب الصلاۃ صفحہ 516 میں ہے : فائدۃ :رأیت فی شرح تحفۃ الملوک المسمی بھدیۃ الصعلوک مانصہ: قال الزاھدی ، الطریق فی دفع التثاء ب : ان یخطر ببالہ ان الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام ماتثاء بوا قط ۔ قال القدوری جربناہ مرارا فوجد ناہ کذلک اھ قلت : و قد جربتہ ایضا فوجدتہ کذلک۔
اس کتاب کے 695 میں ہے : (والانبیاء محفوظون منہ) قدمنافی آداب الصلاۃ ان اخطر ذلک ببالہ مجرب فی دفع التثاء ب
نماز میں حرکت مخل خشوع ہے اس لئے دورانِ نماز کسی کو جمائی آئے تو وہ ا پنے ہونٹوں کو دانت میں لیکر روکے اور اگر نہ رکے تو اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کو اپنے منہ پر رکھے اور اگر وہ قیام کی حالت میں ہو تو کہا گیا کہ سیدھا ہاتھ منہ پر رکھے۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول کذب الصلاۃ صفحہ 515 میں ہے: (وامساک فمہ عندالتثاء ب) فائدۃ لدفاع التثاء ب مجرب ولو بأخذ شفتیہ بسنہ (فان لم یقدر غطاہ) ظھر (یدہ) الیسری و قیل بالیمنی لوقائماً والا فیسراہ

فجر کی سنت کی اہمیت
سوال : میں نے حدیث شریف کی ایک کتاب میں فجر کی دو سنت کی فضیلت پڑھی تھی، اس کے بعد سے میں ہمیشہ فجر کی دو سنت کا اہتمام کرتا ہوں اور بسا اوقات میں ایسے وقت مسجد میں داخل ہوتا ہوں جبکہ امام صاحب نماز کے آخری مراحل میں ہوتے ہیں ۔ میں ایسے وقت کبھی جماعت میں شریک ہوجاتا ہوں اور کبھی پہلے سنت پڑھ کر تنہا فرض پڑھ لیتا ہوں اور جب جماعت میں شریک ہوجاتا ہوں تو سنت چھوٹنے کا مجھے کافی ملال ہوتا رہتا ہے ۔ اس ضمن میں اگر آپ میری رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ہوگی؟
نام …
جواب : اگر فجر کی نماز ہورہی ہے اور بعد میں آنے والے کو یہ یقین ہے کہ وہ سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہوسکتا ہے تو اس کو چاہئے کہ فوراً دو رکعت سنت پڑھ لے پھر جماعت میں شریک ہوجائے اور جماعت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو فرض کی جماعت میں شریک ہوجائے ۔ عالمگیری ج : 1 ص : 53 میں ہے ’’و یکرہ النفل اذا اقیمت الصلوۃ الاسنۃ الفجر ان لم یخف فوت الجماعۃ‘‘۔بعض ائمہ کے پاس فرض نماز شروع ہونے کے بعد کوئی سنت خواہ سنت فجر ہی کیوں نہ ہو پڑھنا درست نہیں ۔ صرف احناف کے پاس سنت فجر کی حد تک یہ رعایت ہے کیونکہ سنت فجر کی تاکید زیادہ آئی ہے۔

استخارہ کا وقت اور اسکا اشارہ
سوال : اکثر لوگ کسی اہم کام کے آغاز سے قبل مثلاً شادی بیاہ طئے کرتے وقت استخارہ کرتے ہیں۔ کیا آدھی رات کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر دعاء استخارہ کر کے سونا چاہئے یا اس نماز کا صحیح وقت کیا ہے ؟ نیز خواب میں کس قسم کا اشارہ ہوتا ہے ۔ اگر شادی طئے کرنا ہو تو کس طرح اشارہ ہوتا ہے اور رشتہ طئے نہ کرنا ہو تو کس طرح سے اشارہ ہوتا ہے۔ برائے مہربانی اس سلسلہ میں وضاحت فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمدتوفیق خان، حسن نگر
جواب : جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور اس کے کرنے یا نہ کرنے میں تردد و شک ہو تو وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو تمام معاملات میں استخارہ کرنا سکھاتے تھے جس طرح آپ ہم کو قرآن کی سورتیں سکھایا کرتے تھے ۔
ترمذی شریف کی روایت ہے : من سعادۃ ابن آدم استخارتہ اللہ ومن سعادۃ ابن آدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوہ ابن آدم ترکہ استخارۃ اللہ ومن شقوۃ ابن آدم سخطہ بما قضاہ اللہ ۔
ترجمہ : استخارہ کرنا انسان کی سعادتمندی ہے اور اللہ کے فیصلہ پر راضی ہونا بھی انسان کی سعادتمندی میں ہے اور استخارہ ترک کرنا انسان کی بدبختی ہے اور اس کے فیصلہ سے ناراض ہونا بھی بدبختی ہے ۔ یہ بھی منقول ہے : لاخاب من استخار ولا ندم من استشار: جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا۔استخارہ کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں ہے ۔ البتہ سونے سے قبل استخارہ کی نماز پڑھنا بہتر ہے ۔ استخارہ کی برکت سے انشراح صدر ہوتا ہے۔ دل کسی ایک طرف مائل ہوجاتا ہے اور کسی معاملہ میں قلبی میلان نہ ہے تو سات دن تک استخارہ کرنا بہتر ہے۔ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ خواب میں سفید یا سبز رنگ نظر آئے تو کرنے کی علامت ہوتی ہے اور سرخ و سیاہ رنگ نظر آئے تو نہ کرنے کی علامت ہوتی ہے ۔ تاہم خواب میں رنگ نظر آنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ البتہ ہر ایک کو علحدہ علحدہ انداز میں اشارہ ملتے ہیں۔ اس لئے کسی بزرگ شخص کو جو آپ کے احوال و کیفیات سے واقف ہو اس سے ذکر کرنامناسب ہے ۔ تاکہ وہ اشارات کو صحیح سمجھ کر آپ کی رہنمائی کرے۔