بینگن کا بول بالا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
دہلی میں ہمارے ایک جگری دوست ہیں سردار اوتار سنگھ جج۔ انگریزی کے صحافی ہیں، لیکن پنجابی اور اُردو پر بھی گہری قدرت رکھتے ہیں۔ ایسے زندہ دِل اور فقرہ باز انسان ہیں کہ جس محفل میں بھی موجود ہوتے ہیں، اسے اپنی دلچسپ باتوں کے ذریعہ قہقہہ زار بنادیتے ہیں۔ بیس پچیس برس پہلے کافی ہاؤس میں ایک دن انھوں نے ہم سے پوچھا ’’یار! یہ اُردو والے اچھی خاصی اُردو بولتے بولتے اچانک بیچ میں فارسی کے کچھ الفاظ بھی بول دیتے ہیں، جیسے خورد و نوش… یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے کہا ’’کھانا پینا‘‘۔ پوچھا ’’اور یہ گفت و شنید؟‘‘ ہم نے کہا ’’کہنا سننا‘‘۔ بڑی معصومیت سے بولے ’’اوّل الذکر بہت اچھی چیز ہے۔ جب بھی ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو مجھے ضرور یاد کرنا، البتہ موخر الذکر چیز یعنی گفت و شنید سے مجھے ہمیشہ دُور رکھنا‘‘۔

اوتار سنگھ جج کی یاد آج ہمیں اس لئے آگئی کہ پچھلے کچھ عرصہ سے ہم اپنے کالم میں ’’خورد و نوش‘‘ کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پہلے آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرتے رہے اور آج ہمیں اپنی مرغوب سبزی بینگن کے بارے میں اظہار خیال کرنا پڑرہا ہے۔ کچھ دن پہلے انگریزی اخبار ’’ہندو‘‘ میں مرکزی وزیر ماحولیات اور جنگلات جے رام رمیش کی تصویر شائع ہوئی تھی جس میں دیکھا کہ موصوف اپنی گردن میں دس بارہ خوبصورت بینگنوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہار پہنے کھڑے ہیں اور زبردستی مسکرانے کی کوشش فرما رہے ہیں (زبردستی مسکرانے کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ موصوف کے گلے میں یہ ہار احتجاجی مظاہرین نے پہنایا تھا)۔جے رام رمیش کو ہم نے بیسیوں بار دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں دیکھا ہے جہاں یہ اپنے احباب سے ملنے کے لئے پابندی سے آتے ہیں۔ بے حد خوش شکل، وجیہہ و شکیل شخصیت کے مالک ہیں۔ ہمیں ان کی وجاہت اس لئے بھی پسند آتی ہے کہ ان کے سر پر جو گھنے بال ہیں، وہ ہماری نوجوانی کے دنوں کے بالوں سے بہت مشابہ ہیں۔ غالباً یہ ان کی شخصیت کا ہی کمال ہے کہ تصویر میں بینگنوں کا جو ہار ان کے گلے میں نظر آ رہا ہے، اس میں شامل بینگن بھی ہمیں خوبصورت اور وجیہہ و شکیل نظر آرہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ بینگن خالص ہندوستانی ہیں جب کہ جے رام رمیش ملک میں امریکہ کے بی ٹی بینگنوں (BT Brinjal) کی فصل اُگانے اور اسے مقبول بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ہم سبزیوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ بھنڈی، آلو، بینگن، ٹماٹے، اروی، شلغم، چقندر، گوبھی، پیاز، لوکی (جسے ہم دکن میں کدو کہتے ہیں)، مولی، ککڑی، وغیرہ جیسی سبزیوں کے ذائقہ سے ہماری زبان ضرور آشنا ہے۔ تاہم ان کے طریقۂ کاشت اور فصل وغیرہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، تاہم باورچی خانہ میں جس طرح کے ہاتھ ان سبزیوں کو پکاتے ہیں، ان کی مہارت یا اناڑی پن کے حساب سے یہ سبزیاں ہمیں حسب توفیق اچھی یا بُری معلوم ہوتی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ پکوان کا اصل ذائقہ اُسے پکانے والی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، سبزیوں میں نہیں۔جے رام رمیش کا کہنا ہے کہ امریکہ کے بی ٹی بینگن، کاشت کی جدید ٹکنالوجی کی مدد سے اُگائے جاتے ہیں۔ ان بینگنوں میں کچھ ایسے جینس (Genes) کو داخل کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ان میں کیڑے بالکل نہیں پیدا ہوتے اور یہ زیادہ مدت تک تر و تازہ بھی رہتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے ایک بینگن کی جسامت ہمارے دس بارہ بینگنوں کے برابر ہوتی ہے۔ گویا اس جسامت کے دس بارہ امریکی بینگنوں کا ہار اگر خدا نخواستہ وزیر زراعت کی گردن میں ڈال دیا جائے تو وہ حکومت کا بوجھ اُٹھانے کے قابل بھی نہیں رہ پائیں گے۔ ان بینگنوں کی دوسری خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی فصل سال میں کئی بار اُگائی جاسکتی ہے۔ تاہم ملک کے کسان اور بعض ماہرین زراعت بینگن کی اس جدید نسل کی فصل کو اپنے ملک میں اُگانے کی مخالفت کررہے ہیں۔

ہمیں ان بینگنوں کے محاسن اور عیوب کے بارے میں کچھ نہیں کہنا ہے، کیونکہ ہم کوئی ماہر زراعت تو ہیں نہیں کہ اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کرسکیں۔ یوں بھی دیسی بینگن ہماری پسندیدہ سبزی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف سستی ہوتی ہے بلکہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ جن لوگوں کو حیدرآباد کے بگھارے بینگن کھانے کا اور عملی سیاست میں تھالی کے بینگنوں کو دیکھنے اور انھیں برتنے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ بینگن کتنے کام کی سبزی ہے۔ یوں تو بینگن ساری دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، لیکن انھیں شہرت صرف حیدر آباد میں ملی، کیونکہ حیدرآبادی خواتین باتیں بگھارنے کے علاوہ ان بینگنوں کو مخصوص ڈھنگ سے بگھارنے کا ایسا انوکھا سلیقہ جانتی ہیں کہ انھیں کھانے والا بس اُنگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔

بے شک، حیدرآباد اپنی بریانی کے لئے بھی شہرت رکھتا ہے، لیکن جب تک اس بریانی کو بگھارے بینگن کے ساتھ نہ کھایا جائے، یہ حلق سے نیچے نہیں اُترتی۔ شمالی ہند میں بینگن کا بھرتہ بھی بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے، لیکن اس میں وہ بات نہیں ہوتی جو حیدرآباد کے بینگنوں میں پائی جاتی ہے۔ بینگنوں کی جدید امریکی نسل کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس میں کیڑوں کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی جب کہ ہمارے اکثر دیسی بینگنوں کو کاٹنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان میں کیڑے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ہم تو خیر پکوان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے، لیکن ہمارے ایک ماہر پکوان دوست کا کہنا ہے کہ پکے ہوئے بینگن میں ذائقہ بینگن کے بیجوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کیڑوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، جو بینگن کے بیجوں میں کچھ اس طرح شیر و شکر ہوجاتے ہیں کہ بیجوں اور کیڑوں میں فرق کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اس اعتبار سے بینگن کا سالن جہاں ویجیٹیرین ہوتا ہے، وہیں نان ویجیٹیرین بھی ہوتا ہے۔ بہرحال، یہ مسئلہ ایسا ہے جس پر ماہرین پکوان کو غور کرنا چاہئے۔ بینگن کو بعض لوگ ’سبزیوں کا سرتاج‘ بھی کہتے ہیں، کیونکہ اس کے سر پر ایک تاج ہوتا ہے جو دیکھنے میں بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کھانے والے احتراماً اس تاج کو نہیں کھاتے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ امریکہ کی دریافت کے بعد دُنیا کئی سبزیوں اور پھلوں سے روشناس ہوئی۔ مثال کے طور پر آلو آج دُنیا کے ہر براعظم اور ہر خطہ میں پیدا ہوتا ہے، لیکن امریکہ کی دریافت سے پہلے یہ امریکہ کے سوائے کسی اور براعظم میں پایا نہیں جاتا تھا۔ امریکہ سے نکل کر یہ دُنیا میں ہر جگہ ایسا پھلا پھولا کہ آج ساری دُنیا امریکہ کے آلو کلچر (Potato Culture) کی گرفت میں آچکی ہے۔ بہرحال، اس وقت بات بینگن کی ہورہی ہے اور قیاس اغلب ہے کہ یہ سبزی ہندوستان میں ہزاروں سال سے موجود ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے سماج میں تھالی کے بینگنوں کا چلن بھی ہزاروں برس سے جاری و ساری ہے۔جدھر جائیے، تھالی کے بینگنوں کا بول بالا ہے، کیونکہ ان میں لڑھکنے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔

ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ امریکہ کے ماہرین زراعت ہمارے بینگنوں پر اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے تھالی کے بینگنوں کی مناسب افزائش کی جانب توجہ کریں۔ ان میں کچھ ایسے Genes داخل کریں کہ ان کے لڑھکنے میں استقامت پیدا ہو اور ان کے نظریات میں استحکام کے امکانات فروغ پائیں، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ امریکہ کے ماہرین زراعت اور ماہرین سماجیات اس طرف کوئی توجہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ امریکہ کو دُنیا میں اپنی برتری اور افضلیت کو برقرار رکھنے کے لئے قدم قدم پر تھالی کے بینگنوں کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ چنانچہ آج دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جن کی حیثیت تھالی کے بینگن کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ امریکہ کے ماہرین زراعت جب بینگنوں کی جسامت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے خواہش مند ہیں تو امریکہ کے ماہرین سماجیات سے یہ ڈر ہو رہا ہے کہ کہیں وہ خود امریکہ کی جسامت میں اتنا اضافہ نہ کردیں کہ اس میں ساری دنیا ہی سما جائے۔آخر میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ امریکہ ہمارے بینگن کو اس کے حال پر چھوڑ دے، کیونکہ یہی وہ سبزی ہے جو آسانی سے اس ملک کے غریبوں کو میسر آجاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ملک میں ٹماٹروں کی قلت ہوجاتی ہے۔ آلو بھی عنقا ہوجاتے ہیں، کبھی پیاز بھی غائب ہوجاتی ہے، لیکن بینگن کی قلت کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ پھر ہمارے حیدرآبادی بگھارے بینگن کے سالن کو دیکھا کہ یہ کبھی باسی ہونے کا نام نہیں لیتا بلکہ جوں جوں اس کی تاریخ پکوان یا تاریخ پیدائش میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اس کے ذائقہ کا عہد شباب بھی تر و تازہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر بینگن ایک پُرامن اور بے ضرر سی سبزی ہے۔

ٹماٹے کو دیکھئے کہ جب یہ خراب ہونے لگتا ہے تو یہ بطور احتجاج سیاسی جلسوں اور مشاعروں میں پھینکنے کے کام آتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی لیڈروں اور شاعروں کا حلیہ بگڑ جاتا ہے۔ بینگن میں سوائے بیجوں کے اور کوئی چیز ہوتی ہی نہیں جو دوسروں کا کچھ بگاڑنے کے کام آ سکے۔ بینگن کی اسی بے توقیری اور بے سر و سامانی کا نتیجہ ہے کہ دکنی محاوروں میں اسے سالن بنانے سے کہیں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے آپ کیا بینگن کام کرتے ہیں؟ آپ کسی چیز کے بارے میں بینگن بھی نہیں جانتے؟ آپ نے ہماری عزت بینگن میں ملا دی! آپ میرا کام نہیں کرتے تو بینگن ستی… وغیرہ وغیرہ۔ اس سبزی کو آپ جدید ٹکنالوجی اور وہ بھی امریکی ٹکنالوجی سے دُور ہی رکھیں تو اچھا ہے۔(ایک پرانی تحریر)