بیف کے نام پر پھر حملے

کرتی ہے ملوکیت آثارِ جنوں پیدا
اﷲ کے نشتر ہیں تیمور ہو یا چنگیز
بیف کے نام پر پھر حملے
کچھ مہینے قبل تک بیف کے نام پر مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بنانے اور انہیں سر عام پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینے کے واقعات عام ہوگئے تھے ۔ ہر روز کسی نہ کسی شہر یا کسی نہ کسی ریاست میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے تھے ۔ آسام ہو یا مغربی بنگال ہو ‘ راجستھان ہو یا مدھیہ پردیش ہو ‘ جھارکھنڈ ہو یا اترپردیش ہو ‘ ہریانہ ہو یا کوئی اور ریاست ہو وہاں پر مسلمانوں کا جینا مشکل کردیا گیا تھا ۔ مساجد کو تک نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ تاہم ہر گوشے سے مخالفتوں اور تنقیدوں کے بعد ایسا تاثر مل رہا تھا کہ یہ جنون پسندی قدرے کم ہوگئی ہے اور ہجومی حملوں کے واقعات میںکمی آگئی ہے ۔ تاہم اب جبکہ ملک میں انتخابات کا عمل پورا ہوچکا ہے اور نریندر مودی دوبارہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں اور انہیں پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر اور گئو دہشت گرد دوبارہ سرگرم ہوگئے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے شہر سیونی میں تین مسلم نوجوانوں کو گئودہشت گردوں کی جانب سے محض بیف منتقل کرنے کے شبہ میں اس قدر وحشیانہ انداز میںمارپیٹ کی گئی ہے کہ اس کا ویڈیو جو وائرل ہوا ہے اسے دیکھ کر دل دہل کر رہ جاتا ہے ۔ یہ جنون پسندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایسا کرنے والے انسانوں کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور انہیں بیدردی سے مارپیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس طرح کے واقعات جب پہلے پیش آئے تھے اس وقت کہا جاتا تھا کہ یہ حملے گئودہشت گردوںکی جانب سے گائے کی حفاظت کیلئے کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ حملے در اصل گئو دہشت گرد اپنی چاندی بنانے کیلئے کرتے ہیں۔ گئو رکھشا اب کوئی مذہبی کام نہیں بلکہ پیسے کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ اس کو باضابطہ ایک صنعت کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے اور اس میں کئی سطحوں پر پیسے کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے ۔ یہ ایک باضابطہ کاروبار بن گیا ہے جو کسی سرمایہ کاری کے بغیر بے دریغ منافع کمانے کا ذریعہ ہے ۔ تاہم اس سارے معاملہ میں انسانیت ختم ہوتی نظر آر ہی ہے اور انسانی جانیں بے دام ہوتی جا رہی ہیں ۔مدھیہ پردیش اور راجستھان خاص طور پر ایسے واقعات کیلئے بدنام ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت چاہے کسی بھی شہر یا ریاست کی کیوں نہ ہو اسطرح کے واقعات کو پسند نہیں کرتی لیکن مٹھی بھر شر پسندا ور انسانیت دشمن عناصر ہیں جو اپنی حرکتوں کی وجہ سے سبھی کو شرمندہ کر رہے ہیں ۔ تاہم حالیہ عرصہ میںا یک بار اور واضح ہوگئی ہے کہ لوگ ایسے عناصر کے خلاف منہ کھولنا اور انہیں روکنا بھی گناہ سجھنے لگے ہیں یا ان دہشت گردوں سے خوف کھانے لگے ہیں۔ سیونی میں جو واقعہ پیش آیا اس میں واضح دکھائی دے رہا ہے جب نوجوانوں کو پیٹا جا رہا ہے اور انہیں زد وکوب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو درجنوں افراد وہاں ٹہرے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں لیکن کسی نے بھی انہیں روکنا تو دور کی بات ہے پولیس کو ایک فون کرنا تک بھی مناسب نہیں سمجھا ۔ یہ ہمارے سماج کی بے حسی ہے اور یہی انتہائی افسوس کی بات ہے ۔ سماج کی اسی بے حسی یا پھر خوف کا نتیجہ ہے کہ جو لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں وہ بے خوف ہوگئے ہیں۔ ان کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ انہیں یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ وہ چاہے جو کچھ بھی کریں انہیں پوچھنے اور روکنے والا کوئی نہیں ہے اور پھر سیاسی سرپرستی اور مداخلت کے نتیجہ میں ان کے خلاف مقدمات بھی محض دکھاوے کے دائر کئے جائیں گے اور نامناسب پیروی کی وجہ سے وہ بہت جلد دوبارہ آزاد بھی ہوجائیں گے ۔اس طرح کے واقعات ملک میں ان ریاستوں میں زیادہ پیش آئے تھے جہاں بی جے پی کی حکومتیں تھیں لیکن اب مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حکومت ہے ۔ وہاں کمل ناتھ چیف منسٹر ہیں۔ کانگریس دور حکومت میں بھی اگرا س طرح کے عناصر پر قابو نہیں پایا جاتا ہے تو ان عناصر کے حوصلے مزید بلند ہونگے ۔ یہ لوگ اسی طرح کے غیر انسانی حرکتیں کرتے ہوئے اپنے ناپاک عزائم کو آگے بڑھائیں گے ۔ ریاستی حکومت ہو یا مرکزی حکومت دونوں ہی کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے جنون پسند اور ہذیان پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے جنونی عناصر پر قابو پانے ریاستی اور مرکزی دونوں حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔