بیف کھانے والے طلباء سے لیکر نقلی ڈاکٹروں تک

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری      خیر اللہ بیگ
سیاسی نظریات اور سماجی تقاضوں کے درمیان مذاہب، فرقوں اور سیاست کی منڈی میں بالغ نظری ، شعور، عقل و فہم کی باتیں کون سنے گا، امن و انصاف کے تقاضوں پر کون غور کرے گا۔ بی جے پی قائدین ہندوستان کی سیاست ہو یا کسی ریاستی شہر میں سیاسی بد زبانی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہو ہر جگہ خود کو ٹھونس کر اپنا زہریلاپن ظاہر کررہے ہیں۔ مذہبی منافرت اور دشمنی کے دوہرے عذاب نے ملک کے سماجی چہرے کو اس قدر مسخ کرکے رکھ دیا ہے کہ آگے چل کر سیکولر ہندوستان پہچانا ہی نہیں جاسکے گا۔ حیدرآباد میں ان دنوں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء گروپ کے ’’ بیف فیسٹول ‘‘ پروگرام کو لیکر زبردست بحث چل رہی ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی نے اس طرح کے کسی بھی بیف فیسٹول کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ گوشہ محل کے بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ کی دھمکی آمیز یادداشت ملنے کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی کے ذمہ داروں کو کیمپس کے اصولوں اور  یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد کا خیال آیا۔ اب تک یونیورسٹی کیمپس میں جو کچھ ہوتا رہا تھا اس سے قطع نظر یونیورسٹی حکام نے یہ دہائی دی ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی صرف تعلیمی اور ریسرچ سرگرمیوں کے لئے ہے یہاں کوئی اور سرگرمی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بی جے پی ایم ایل اے نے جب یہ دھمکی دی کہ اگر کسی نے بھی بیف فیسٹول منایا تو وہ اسے جان سے ماردیں گے۔ ان کا یہ بیان پولیس اور انتظامیہ کیلئے چیلنج ہے۔ تعلیمی مرکز کو سیاسی اکھاڑہ بنانے کی حالیہ کوششوں کی سب سے تازہ کوشش بی جے پی رکن اسمبلی کی دادا گری ہے۔ تلنگانہ تحریک کے دوران یونیورسٹی کیمپس کو استعمال کرنے والوں نے اب ایک نیا حربہ اختیار کرلیا ہے۔ پولیس کے لئے یہ حالات درد سر بن سکتے ہیں۔ ریاستی پولیس خاص کر شہر حیدرآباد کی پولیس پہلے ہی دیگر سماجی و شہری مسائل سے پریشان ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ سے نمٹنے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ جس شہر میں ہر روز نئے نئے واقعات ہوتے ہیں، جرائم کی شرحوں میں اضافہ ہورہا ہوتا ہے تو وہیں انسانی جانوں اور صحت مند زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے ’’ نیم حکیم خطرہ ٔجان ‘‘ کی تعداد میں دن رات اضافہ ہورہا ہے۔

پولیس نے شہر میں نقلی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی شروع کی تو کئی ایسے افراد بھی بے نقاب ہوئے جن کی تعلیمی قابلیت ساتویں جماعت یا اس سے کم تھی۔ پرانے شہر کے علاقوں میں خاص کر ایسے نقلی ڈاکٹروں کی بہتات ہے۔ پولیس نے پتہ چلایا ہے کہ100سے زائد ایسے افراد ہیں جو غیر مجاز طریقہ سے کلینکس چلارہے ہیں۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں آر ایم پی، یونانی اور آیورویدک فزیشن بھی ہیں، میڈیکل ٹیکنیشنس بھی کلینکس چلارہے تھے۔ یہ لوگ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے اپنا روزگار تلاش کررہے تھے۔ صحت اور تعلیم کے شعبہ میں نمایاں دلچسپی دکھانے والی حکومت تلنگانہ کے سامنے دو مسائل آچکے ہیں، ایک نقلی ڈاکٹروں کی موجودگی، دوسرا عثمانیہ یونیورسٹی میں ’ بیف فیسٹول‘ کے حوالے سے کشیدگی پیدا کرنے کی سازش چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کیلئے نئی نہیں ہوگی کیونکہ تلنگانہ تحریک کے دوران بھی عثمانیہ یونیورسٹی کو بدامنی کا شکار بنایا گیا تھا۔ شہر میں بی جے پی ایم ایل اے راجہ سنگھ کی چرب زبانی کیا رنگ لائے گی، یہ چیف منسٹر خود محسوس کرسکتے ہیں۔ شہر کی پرامن فضاء کو بگاڑنے کی کوششوں کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہی ہے کہ چیف منسٹر کوئی جوکھم مول لینا نہیں چاہتے۔ بات صاف ہے کہ چیف منسٹر فی الحال بی جے پی کے کسی بھی لیڈر پر ہاتھ ڈالنا نہیں چاہتے۔

راجہ سنگھ بجرنگ دل کے سابق رکن ہیں، 2008ء میں دو عیسائی پادریوں کے قتل کے الزام میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا، اس سے قبل انہیں ایک تاجر کے قتل کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم وہ تمام کیسوں سے بری ہوگئے۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزامات کے باوجود وہ ایم ایل اے بن گئے۔ اب انہوں نے دھمکی دی ہے کہ جس کسی نے ’ بیف فیسٹول‘ منایا اسے قتل کردیں گے تو ایسا کہنے والے کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے والی پولیس اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو کس کو قصوروار ٹہرائے گی؟۔ بی جے پی کے لوگوں کے نزدیک ایک جانور کے سامنے انسان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس شخص کو ایم ایل اے بنانے والے رائے دہندوں کے فیصلہ پر ماتم کرنا چاہیئے کہ انہوں نے قتل کے مقدمات میں ملوث شخص کو ووٹ دیا، کل اگر عثمانیہ یونیورسٹی میں کچھ ہوجائے تو اس کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی جائے گی اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کردی جائے گی۔ دراصل ’ بیف فیسٹول ‘ کا اعلان بائیں بازو، دلتوں سے وابستہ تنظیموں نے کیا ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے درمیان میں رکھا گیا ہے۔ عثمانیہ یونویرسٹی کیمپس میں جب رواداری اور عدم رواداری کی دیوار کھڑی کردی جائے گی تو پھر یہ تلنگانہ حکومت کیلئے نیا چیلنج ہوگا۔ پولیس کو یہ اختیار دیا جانا چاہیئے کہ وہ امن و امان کی برقراری کو یقینی بنائے۔ پولیس نے جس طرح پرانے شہر میں ایک نقلی یونانی ڈاکٹر کے ہاتھوں ایک غریب شخص کی موت کے بعد سرگرمی دکھاکر نقلی ڈاکٹروں کے جال کو ختم کردیا ہے اسی طرح پولیس کو نفرت پھیلانے والوں کے خلاف بھی دھاوے کرنے کی ضرورت ہے،

لیکن کمزوروں پر ہاتھ ڈالنا آسان ہے مگر طاقتور کے قریب بھی جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں ’بیف فیسٹول‘ ایک پرانی روایت کا تسلسل ہے مگر اس کو بی جے پی قائدین نے سیاسی رنگ دے کر گائے کا مسئلہ چھیڑا ہے۔ پولیس کو آنے والے دنوں میں مزید چوکسی اختیار کرنی ہوگی۔ غیر مقامی افراد جیسے راجہ سنگھ نے شہر کو فرقہ پرستی کے زہر سے بھرنے کا خفیہ منصوبہ بنایا ہے تو اسے ناکام کرنا ہوگا۔ پولیس ان دنوں جتنی مستعدی کا مظاہرہ کررہی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ شہر میں جگہ جگہ ہونے والے چین چھین لینے کے واقعات میں کمی آئی ہے اور دھوکہ بازوں اور نقلی ڈاکٹروں کے علاوہ بیگم بازار جیسے مصروف ترین تجارتی مرکز میں کالا بازاری، چور بازاری، ملاوٹ کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی رنگ لائی ہے مگر بعض بیوپاریوں کو جب مقامی قیادت کی سرپرستی ملتی ہے تو ان کی  ملاوٹ کی عادتیں اور چور بازاری ختم نہیں ہوگی۔ عوام کو ٹھگنا اور لوٹنا، دھوکہ دینا تجارت کا حصہ بن جاتا ہے تو کاروباری مقام بھی بدنام ہوجاتا ہے۔ اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے نیک اور ایماندار تاجرین کو مشکلات ہوتی ہیں۔ شہر میں جہاں انسانی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے یہ بیوپاری ہیں تو پیشہ طب کے نام پر مریضوں کو دھوکہ دینے والے نااہل، اَن پڑھ، جاہل قسم کے یونانی ڈاکٹروں، آیورویدکس اور آر ایم پیز کی کثرت  دکھائی دیتی ہے

ان کے علاوہ بیرونی ملکوں کی غیر معروف یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر پریکٹس کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔ دولت مشترکہ کے آزاد ممالک اور چین سے غیر مسلمہ ڈگریوں کے ساتھ ڈاکٹرس بننے والے بھی ان دنوں شہر میں سرگرم ہیں، ریاستی حکومت کیلئے ایسی صورتحال اور ان جعلی ڈاکٹروں کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یوکرین، فلپائین، قازقستان ، بیلاروس، روس، نیپال، چین کے علاوہ دولت مشترکہ کے ملکوں سے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرکے میڈیکل پریکٹشنر بن جانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جس طرح پولیس ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کررہی ہے مگر وہ ان بڑے ہاتھوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے جو سفید کوٹ کی آڑ میں اپنے پیشہ طب کی کالک کو چھپائے رکھتے ہیں۔ میڈیکل کونسل ایکٹ 1956 کے تحت کوئی بھی شخص بیرونی ملک سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرتا ہے تو اسے میڈیکل کونسل آف انڈیا کی جانب سے کروائے جانے والے اسکریننگ ٹسٹ سے گذرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان میں ایسی کسی بھی میڈیکل پریکٹس کے لئے میڈیکل کونسل آف انڈیا کا ٹسٹ کامیاب کرنا لازمی ہے مگر رشوت نے ہر کام آسان بنادیا ہے اور انسانی زندگیوں سے کھلواڑ ان کا پیشہ بنتا جارہا ہے۔

ڈاکٹری کی ڈگری کا شوق اتنا شدت اختیار کرگیا ہے کہ امیر ماں باپ اپنے بچوں کو بیرون ملک یونیورسٹیوں سے تعلیم دلاتے ہیں لیکن جب یہ لوگ ڈگری لے کر واپس ہندوستان آتے ہیں تو ان میں سے کئی میڈیکل اسکریننگ ٹسٹ میں ناکام ہوتے ہیں جو بھی اسکریننگ ٹسٹ کیلئے اہل نہیں ہوتے انہیں ڈاکٹر نہیں سمجھا جاتا، مگر شہر میں ایسے کئی نوجوان ہیں جو میڈیکل اسکریننگ ٹسٹ کامیاب کئے بغیر ہی کارپوریٹ دواخانوں میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اور صرف اسی سال 250 طلباء نے روس سے تعلیم حاصل کی ، جملہ 50 طلباء قازقستان  گئے ہیں، ہر سال تلنگانہ میں 100 طلباء بیرونی یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں مگر ان کی واپسی ’’ نیم حکیم خطرۂ جان ‘‘ ہوتی ہے۔ 20لاکھ روپئے خرچ کرکے جب قازقستان میں پانچ سالہ ڈاکٹری کی ڈگری مل جاتی ہے تو یہ لوگ سلم بستیوں اور غریب عوام کا علاج کرتے ہوئے روزگار کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ یہ طلباء تو کم از کم روپئے خرچ کرکے ڈاکٹری کرتے ہیں جبکہ شہر میں میڈیکل لیب ٹیکنیشن اور جاروب کش جیسے لوگ بھی آر ایم پی بن کر بغیر ڈگری کے دوائیں دیتے ہیں تو یہ واقعی تباہ کن اور خطرناک کیفیت ہے۔
kbaig92@gmail.com