بیرونی امداد سے تبدیلی مذہب 200 سال سے جاری

گاندھی نگر۔8 جنوری (سیاست ڈاٹ کام)دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کے ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام پر جاری تنازعہ کے درمیان مرکزی وزیر ایم وینکیا نائیڈو نے آج کہا کہ مذہبی تبدیلیاں بیرونی رقومات کی مدد سے زائد از 200 سال سے ہوتی آئی ہیں۔ انہوں نے اس موقف کا اعادہ کیا کہ حکومت کا ہندو کٹر پسندوں کی تبدیلی مذہب سے متعلق کوششوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور وہ ایسا قانون نافذ کرنے کے لئے تیار ہے جو مذہبی تبدیلیوں پر امتناع عائد کردے بشرطیکہ تمام سیاسی گروپوں میں اتفاق رائے پیدا ہوجائے۔ وینکیا نائیڈو یہاں 13 ویں پرواسی بھارتیہ دیوس سے مخاطب تھے جس کا افتتاح آج وزیراعظم نریندر مودی نے کیا ہے۔ نائیڈو نے کہا کہ تبدیلی مذہب اور مکرر تبدیلیاں گزشتہ 200 سال سے ہورہی ہیں، جو مودی حکومت کی تشکیل سے بہت بہت پہلے کی بات ہے۔ کافی بیرونی رقم تبدیلی مذہب کے لئے خرچ کی جارہی ہے۔

یہ ہر کسی کے لئے کھلا راز ہے۔ وزیر پارلیمانی امور نے دعوی کیا کہ آریا سماج کے بانی دیانند سرسوتی نے 1923 ء میں مکرر تبدیلی مذہب کے پروگرام منعقد کئے تھے اور اس وقت کے کئی کانگریسی قائدین نے اس کی تائید کی تھی۔ تاہم حکومت نے فراخ دلانہ موقف اختیار کرتے ہوئے مذہبی تبدیلیوں کے سلسلہ میں آنے والی بیرونی رقومات کے خلاف کچھ کارروائی نہیں کی کیوں کہ اس نے محسوس کیا کہ عقیدہ اور مذہب شخصی پسند کے معاملے ہیں۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ ترقی اور اچھی حکمرانی ہی این ڈی اے حکومت کا ایجنڈہ ہیں، نائیڈو نے کہا کہ حکومت ایسی صورت میں مداخلت کرتے ہوئے تبدیلی مذہب پر امتناع کا قانون لاگو کرے گی بشرطیکہ سیاسی اتفاق رائے ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ایسے اتفاق رائے کی صورت میں قانون کی تدوین کرے گی

اور اس کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے خواہش ہونی چاہئے، صرف ایسی صورت میں ہی حکومت مداخلت کرے گی۔ بصورت دیگر حکومت کا اس میں دخل دینے کا کوئی ارادہ نہیں، کوئی بھی وزیر یا پارٹی کے کوئی لوگ اس میں ملوث نہیں ہوں گے، براہ کرم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مکرر تبدیلی مذہب خراب عمل ہے تو تبدیلی مذہب بھی خراب ہے۔ ہم کوئی بھی مذہب کی تائید نہیں کرتے ہیں، حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ لوگوں کے مذہب ہوتے ہیں، ہم عوام کی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔ مذہب ان کی عبادت کا معاملہ ہے۔ مرکزی وزیر نے مزید کہا کہ یہاں صرف ہندوستانیت کا معاملہ ہے، یہ ہندوتوا کا بھی معاملہ ہے۔ لفظ ہندو کا کسی مخصوص مذہب کے ساتھ ربط نہیں ہے۔ یہ ہر کسی کے ذہن میں واضح ہوجانا چاہئے۔ وزیر موصوف نے یہ بھی کہا کہ ایسے لوگ جن کا ’’اوپری حصہ کھوکھلا ہے‘‘ اس مسئلہ پر حکومت کے نقطہ نظر کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔