بیروزگاری کو انتخابات میں بڑا مسئلہ بنانا ضروری

راویش کمار
نوکری کا مسئلہ سنگین بنتا جارہا ہے۔ ویسے بے روزگاری کے باوجود کسی کے بھی الیکشن جیتنے یا ہارنے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ میں آپ کو میرا تجربہ کہتا ہوں۔ ہر روز نوجوان لوگ اپنے جاب کے تعلق سے پیامات بھیجتے ہیں۔ اُن کیلئے کوئی دوسری ترجیح نہیں ہوتی ہے۔ بعض کا ٹسٹ ہوچکا، نتیجہ نہیں آرہا ہے۔ بعض کا نتیجہ تو آگیا لیکن لیٹر (مکتوبِ تقرر) نہیں آرہا ہے۔ ٹھیک یہی الفاظ میں نے پرائم ٹائم میں میری جاب سیریز کے دوران درجنوں مرتبہ کہے ہیں۔ کوئی بھی ریاست کے سلیکشن طریقہ کار میں بہتری نہیں ہے۔ ان نوجوانوںمیں سے کسی نے بھی توجہ نہیں دی، یہ الگ معاملہ ہے کہ انھیں اس کی فکر تک نہیں ہے۔ اس کے باوجود میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے جابس کیلئے کافی جدوجہد کرتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اس قدر سخت بن چکا ہے کہ وہ کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔ سیاسی قائدین سوچتے ہیں کہ پولیس لاٹھی چارج کے ذریعے وہ بیروزگاروں کی برہمی کو خاموش کردیں گے لیکن وہ ایسا تک نہیں کررہے ہیں۔ بیروزگاری کے تعلق سے زیادہ سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو ازخود دلچسپی لینا چاہئے، اس طرح کا فہم سیاستدان کا ہوسکتا ہے، لیکن نوجوان جانتا ہے کہ اُسے نوکری کی ضرورت ہے۔ اگر وہ واقعہ الوار میں پیش آیا ہے، اور اگر یہ واقعہ بھی دیانتداری سے جاب کے مسئلہ پر قابل بحث نہیں رہے گا، تو پھر ایسا کب ہوگا؟

راجستھان کی ایک میگزین کے 22 نومبر کے شمارہ میں صفحہ اول کی شہ سرخی خوفزدہ کرنے والی ہے۔ جاب کا کام نہ بنے گا، زندہ رہنے کا کوئی مطلب نہیں، ٹرین کے پاس 4 دوست یہ کہہ رہے ہیں، اور پھر ٹرین کے سامنے 3 جانیں چلی جاتی ہیں۔ اس خبر کو پڑھنے کے بعد ہمیں اور کچھ سجھائی نہیں دیا۔ اب یہ خبر نیوز چیانلوں کی ترجیحات سے غائب ہوگئی ہے۔ ہندو مسلم مباحثہ کے سواء کچھ وقت دستیاب نہیں ہے۔ تمام وقت اس قسم کے دھوکہ باز مباحثہ کی نذر ہورہا ہے۔ فرض کیجئے کہ چار دوست جاب حاصل نہ ہونے پر ٹرین کے آگے چھلانگ لگادیتے ہیں اور اس کے بعد بھی ہم بیروزگاری کے مسئلہ کو کانگریس، بی جے پی کی خامیوں کے نقطہ نظر سے ہی دیکھتے رہیں تو اُن نوجوانوں سے انصاف نہیں ہوسکے گا جن کی زندگیاں جاب پر منحصر ہیں۔ ایک اور عینی شاہد (چوتھے دوست) نے بتایا کہ چاروں دوستوں نے آپس میں کہا کہ نوکری نہیں ملے گی، تو وہ کیا کریں گے؟ چنانچہ 24 سالہ منوج مینا، 22 سالہ ستیہ نارائنا مینا، اور ایک صرف 17 سالہ نوجوان نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائیں۔ 22 سالہ ابھیشک مینا ضلع الوار میں زیرتعلیم تھا۔ یہ کوئی معمول کی خبر نہیں ہے۔ ستیہ نارائنا نے دوستوں سے کہا کہ زندگی سے اب ’من‘ بھرچکا ہے۔ ہم سب مرجائیں گے، کیا تم بھی مرنا چاہوگے؟ راہول نے کہا، میں کیوں مروں، میری فیملی کا کیا ہوگا؟ ستیہ نارائنا نے کہا کہ جاب نہیں ملے گا اور اگر ہم کھیتوں میں کام نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم کیا کرپائیں گے؟ اور اس طرح 4 دوست ٹرین کے پاس چلے گئے۔ 3 برسرموقع مرگئے۔ ہمارے ساتھی مودیت نے راہول مینا سے بات کی جو جائے واردات پر موجود تھا۔ پولیس انکوائری میں انکشاف ہوا ہے کہ تمام چاروں دوست اپنی زندگی سے اُکتا گئے تھے کیونکہ انھیں کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ زندگی جیو اور اچھی زندگی کیلئے جدوجہد کیجئے۔ لیکن جدوجہد کے کیا مواقع ہمارا سسٹم انھیں زندہ رہنے کیلئے فراہم کررہا ہے۔ آپ کوئی بھی ریاست کے سلیکشن کمیشن سے متعلق خبر لیجئے۔ خود تحقیق کیجئے۔ امتحانات کے انعقاد سے جڑی کئی طرح کی منفی خبروں مل جائیں گی۔
بیروزگاری مایوسی کو جنم دیتی ہے۔ لیکن نوکری کا مسئلہ وہاں بہت بڑا سوال ہے جہاں انتخابات جاری ہیں۔ سماج بھی اس مسئلہ پر دیانتدار نہیں ہے۔ لیڈر تک دیانتدار نہیں ہے۔ ہندوستان میں اسٹوڈنٹس کا خودکشی کرنا معمول بن گیا ہے۔ ’بزنس اسٹانڈرڈ‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح بیروزگاری مدھیہ پردیش انتخابات میں بڑا مسئلہ بنی ہے۔ مدھیہ پردیش میں 579 نوجوانوں نے 2015ء میں بیروزگاری کے سبب خودکشی کی۔ یہ ملک بھر میں اعظم ترین تعداد رہی؛ ٹاملناڈو، مہاراشٹرا اور گجرات سے کہیں زیادہ۔

دریں اثناء نوکریاں پیدا کرنے کے تعلق سے مباحثہ ہوا، ابھی تک حکومت کوئی نیا قانون نہیں بنا سکی ہے۔ درحقیقت، بہتر ہے کہ اس طرح کے سسٹم میں نا ہی ہوں کیونکہ آپ جان نہیں پائیں گے کہ ’کتنے لوگوں کو کوئی جابس حاصل ہوئے بغیر جابس مل چکے ہیں‘۔ لہٰذا، ایک نیا سسٹم ای پی ایف او اعداد و شمار کے ساتھ سامنے آیا۔ قبل ازیں، اسے جاری کرتے ہوئے خوشی منائی گئی کہ جابس کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم نریندر مودی بھی جولائی میں لوک سبھا کو یہی اعداد و شمار کے ساتھ آئے اور کہا کہ سپٹمبر 2017ء اور مئی 2018ء کے درمیان 45 لاکھ نئے رجسٹریشن ہوئے ہیں یعنی نوکریاں ملی ہیں۔ ’’بعد میں یہ اعداد و شمار کی ایسی حقیقت سامنے آئی کہ وزیراعظم نے اپنے ٹوئٹس میں اس کا ذکر ترک کردیا اور اپنی تقاریر میں بھی اس کا حوالہ دینے سے گریزاں ہوئے‘‘۔ 21 نومبر کے ’انڈین اکسپریس‘ میں خبر شائع ہوئی جس میں ای پی ایف او اعداد و شمار کے ذریعے فرضی اور نئی نوکریاں بالواسطہ انداز میں دکھائے جانے کا پردہ فاش کیا گیا۔ یہ کیسی بات ہے کہ جولائی میں وزیراعظم ایوان میں لب کشائی کرتے ہیں ، اور جب اس میں ترمیم کی جاتی ہے تو حکومت اس تعلق سے کچھ بھی نہیں کہتی ہے؟ ایمپلائیز پراویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن کے ای پی ایف او اعداد و شمار میں ترامیم کے بعد قابل لحاظ کٹوتی ہوگئی۔ قبل ازیں، سپٹمبر 2017ء اور مارچ 2018ء کے درمیان 39.35 لاکھ نئے رجسٹریشن بتائے گئے۔ نظرثانی کے بعد یہ تعداد گھٹ کر 29.77 لاکھ ہوگئی، جو 24.4 فیصد کم ہے۔

مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان متواتر چوتھی مرتبہ چیف منسٹر بننے کے دعوے دار ہیں۔ 2013ء میں بی جے پی کو 165 نشستیں حاصل ہوئیں۔ 72% آبادی مدھیہ پردیش کے دیہات میں رہتی ہے۔ آبادی کا 28% حصہ شہری سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی تنوع بہت کم ہے۔ 91 فیصد آبادی ہندو ہے، 7 فیصد مسلم اور 0.3 فیصد عیسائی ہیں۔ 20 فیصد آبادی کا تعلق درج فہرست قبائل (ایس ٹیز) اور 15 فیصد کا درج فہرست طبقات (ایس سیز) سے ہے۔ آبادی کا 56 فیصد حصہ غیردرج فہرست قبائل اور غیردرج فہرست طبقات پر مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 14 ملین شیڈولڈ ٹرائبس ہیں۔ تاہم، مدھیہ پردیش کے محکمہ قبائلی بہبود کی ویب سائٹ کے مطابق 46 نوعیت کے درج فہرست قبائل ہیں۔ اس ریاست میں بھیل اور گونڈ قبائل کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کے بعد واگا، کول اور سہریا قبائل کا نمبر آتا ہے۔ گونڈ آبادی میں کانگریس کا اثر زیادہ مانا جاتا ہے۔ 2014ء ایگزٹ پول کے مطابق 60 فیصد گونڈ آبادی کانگریس کے حق میں رہی، جبکہ بی جے پی کو 37 فیصد تائید حاصل ہوئی۔ بھیل قبائلیوں میں 58% بی جے پی اور 34% کانگریس کی تائید میں ہیں۔

اب یہ الیکشن کافی آگے بڑھ چکا ہے۔ پھر بھی بی ایس پی کا تنہا چناؤ لڑنے کا فیصلہ اہم ہے۔ اگر کانگریس اور بی ایس پی کو ملا کر دیکھیں تو 2013ء کے نتائج میں دونوں کو مجموعی ووٹوں کے اعتبار سے 103 اسمبلی نشستیں حاصل ہوئیں۔ مگر کانگریس کو 58 اور بی ایس پی کو 4 سیٹیں ملیں۔ اگر اس مرتبہ مخلوط رہتا تو کانگریس اور بی ایس پی کو 41 اضافی نشستیں (بالخصوص درج فہرست طبقات کے علاقے میں) مل سکتے تھے۔ کیونکہ مدھیہ پردیش میں بی ایس پی 20 سال سے 6 تا 9 فیصدی ووٹ حاصل کرتی آئی ہے۔ 2008ء میں سب سے زیادہ 9 فیصد رہا لیکن 2013ء میں یہ تناسب 6 فیصد درج ہوا۔ پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں بی جے پی نے 39 فیصد ریزرویشن او بی سی کو اور 24 فیصد ٹکٹس ٹھاکر برادری کو نیز 23 فیصد برہمنوں کو دیئے ہیں۔ کانگریس نے بھی 40 فیصدی ٹکٹ او بی سی کو، 27 فیصد ٹھاکر کمیونٹی کو اور 23 فیصد برہمنوں کو دیئے ہیں۔ ہمیں یہ معلومات ’ہندوستان ٹائمز‘ میں شائع رپورٹ سے حاصل ہوئے ہیں۔ 2003-13ء کے درمیان کانگریس نے درج فہرست طبقات کے علاقوں میں 6 فیصد کا اضافہ حاصل کیا ہے۔ بی جے پی نے 1 فیصد کا اضافہ درج کرایا۔ اور بی ایس پی کا بھی صرف 1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دیگر چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو 8 فیصد ووٹ دیئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر پرانوئے رائے، ڈوبر سپاری والا اور شیکھر گپتا کی ٹیم نے چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان سے بات کی ہے۔
مدھیہ پردیش دیہی ریاست ہے۔ یہاں کسانوں کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سے شیوراج سنگھ کو فصلوں کی حصولیابی سے متعلق خاص اسکیم کو اختیار کرنا پڑا۔ بی جے پی منشور صرف یہی ظاہر کرتا ہے کہ اس اسکیم کے فوائد چھوٹے کسانوں کو حاصل نہیں ہوئے، اس لئے انھیں علحدہ انتظام کیلئے کہا گیا ہے۔ کانگریس نے اپنے منشور میں کہا ہے کہ کسانوں کے خلاف دائر مقدمہ سے دستبرداری اختیار کی جائے گی۔
آئیے! دونوں منشوروں پر تیزی سے نظر ڈالتے ہیں۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو گیہوں پر 200 روپئے فی کنٹل کا بونس دیا جائے گا؛ جو دنیا میں کبھی پرمیشن کے بغیر کبھی نہیں دیا گیا ہے۔ 33 لاکھ کسانوں کے کھاتوں میں 5,900 کروڑ کی رقم جمع کرائی گئی ہے۔ محکمہ زراعت میں برسرکار ملازمین اور سائنٹفک اسٹاف کی تعداد کو دوگنا کیا جائے گا۔ کسانوں کو ترغیب دی جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ زرعی اراضی کو وزیراعظم کی فصل بیمہ اسکیم کے تحت درج فہرست فصلوں کے تحت لائیں۔ خانگی صنعت کے ذریعے خریدی کے وعدے اور سرکاری حصولیابی کے ذریعے متفرق قابل فروخت اشیاء کی 100% خریداری کو یقینی بنانا۔ 100 نئے ویٹرنری کلینکس 5 سال میں قائم کئے جائیں گے۔ پانچ برسوں میں مویشیوں کیلئے پالی کلینکس کی تعداد 3 گنا کی جائے گی۔ محکمہ موسمیات قائم کیا جائے گا۔ زمین کی جانچ کا سسٹم قائم کرنے کیلئے 1,000 نئے سنٹرز قائم کئے جائیں گے اور درکار ٹکنیکل اسٹاف کو یقینی بنایا جائے گا۔

کانگریس نے اپنے منشور میں لکھا ہے کہ تمام اقسام کی بینکوں سے لیا گیا 2 لاکھ روپئے تک کا قرض معاف کردیا جائے گا۔ کسانوں کو صفر شرح سود کی اسکیم کے حقیقی فوائد بہم پہنچانے کیلئے ادائیگی کی نئی تاریخ خریف فصل اور ربیع فصل کیلئے مقرر کی جائے گی۔ کانگریس نے وزیراعظم کی فصل بیمہ اسکیم میں کئی تبدیلیاں متعارف کرائے ہیں۔ نئی فصل بیمہ اسکیم لائی جائے گی جس میں فصل بیمہ کی یونٹ بدستور کھیت میں رہے گی، اور اپنی مرضی سے علحدہ رہنے والے کسانوں کو اس کی اجازت دی جائے گی۔ انشورنس کمپنیوں کیلئے انشورنس پالیسی اور پریمیم کی وصولی یقینی بنائی جائے گی۔ فصل کی رقومات کی تقسیم نئی فصل آنے سے قبل ہوجائے گی۔ گرام سبھا کی سفارش پر فصل بیمہ کا فائدہ کسانوں کو دیا جائے گا۔ فصل ناکام ہونے پر کسانوں کو اجرت کے حصول کے طریقہ کار پر نظرثانی بھی کی گئی ہے۔ جو کسان قرضوں کے بغیر کاشتکاری کریں، وہ بھی فصل بیمہ کیلئے اہل ہوں گے۔ کسانوں کو اپنی فصل امدادی قیمت سے کم پر منڈیوں میں نہ بیچنے کی ترغیب دی جائے گی۔ کسانوں کو گیہوں، دھان، جوار، باجرہ، مکئی، سویابین، کپاس، ارہڑ، مونگ، چنا، اڑد، ادرک، پیاز، ٹماٹر، گنا و دیگر پر بھی بونس دیا جائے گا۔ اندرا کسان اسکیم کے تحت برقی کی سربراہی 10 ہارس پاور کے استعمال تک نصف شرح پر ہوگی۔ کسانوں کو فصل کی حوالگی کے اندرون تین یوم رقم ادا کردی جائے گی۔
ravish@ndtv.com