بیدر۔10ستمبر ( ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) ہمہ لسانی قومی یکجہتی کُل ہند مشاعرہ کا انعقاد شاہین ادارے جات بیدر ‘ کنڑا ساہتیہ پریشد اور شوبھا گلے ‘رقص اور ثقافت ٹرسٹ والڈوڈی کے زیراہتمام رنگ مندر بیدر میں ہوا جس کا افتتاح ڈاکٹر این دھرم سنگھ سابق وزیر اعلیٰ کرناٹک کی تقریر سے عمل میں آیا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کے اس کُل ہند مشاعرے میں ہندوستان کے جانے مانے شاعر منور رانا کے علاوہ مراٹھی اور کنڑا ہندی کے جتنے شاعر ہیں ان تمام کا استقبال کرتا ہوں ۔ بیدر سرحدی پسماندہ علاقہ ہے پھر بھی یہاں اردو کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ اردو ہندوستان کی زبان ہے ۔ میں نائب وزیراعلیٰ تھا‘ تب میں نے اردو کی ترقی کیلئے کافی کوشش کی تھی ۔ ان تمام کا شکرایہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آج یہاں ہمہ لسانی قومی یکجہتی مشاعرہ کا انعقاد کیا ۔ سب سے پہلے کنڑا زبان کی شاعرہ پریما ہوگارکو دعوت سخن دی گئی ‘ پھر ہندی کی شاعرہ اندومتی دیوانسی نے اپنے کلام میں ہندوستانی کلچر کے شرارتی پہلوؤں کو بھی پیش کیا اور نوجوان سامعین کا دل جیت لیا ۔ ادھیڑ عمر کی مرہٹی شاعرہ کملا واگھمارے نے میری اپیکشا( اُمید) اور بیدر نگر جیسی نظمیں پیش کیں ۔ پاروتی سونارے نے کنڑا میں کلام پیش کیا جو نظم انہوں نے پیش کی وہ مادر وطن کے سپاہی سے متعلق تھی ‘ نظم پیش کرتے ہوئے ان کی آواز بھرآگئی ۔ ہندی کے پروفیسر دیویندر کمل نے اردو اور ہندی میں تخلیقات پیش کر کے مشاعرہ کو لٹنے کی کامیاب کوشش کی پھر باری آئی لکھنو سے تشریف لائے شاعر جناب حیدر علوی کی ‘ موصوف نے یہاں دشتہ زبان میں غزلیں پیش کیں ۔ کنڑا کی شاعرہ شکنتلا پاٹل نے تیزی سے کلام پیش کیا اور بیٹھ گئیں۔پھر ہندی کی معروف شاعرہ منگلا کیرے نے ہندی کے علاوہ کنڑا میں نظمیں پیش کیں جن میں ’’سعدیہ‘‘ نامی نظم کی کافی پذیرائی کی گئی ۔ کنڑا شاعر ہمشا کوی نے بھی کلام پیش کیا اور داد حاصل کی ۔ پھر باری آئی کولکتہ کے بزرگ شاعر جناب حبیب ہاشمی کی جو دیر تک مائیک پر ڈٹے رہے اور قدیم اردو شاعری کے عاشقوں کی سماعتوں کو گرماتے رہے ۔ اسکے بعد حیدرآباد سے تشریف لائے سردار علیم نے اپنی غزلوں کو پیش کیا جس میں امیجری کو کافی اہمیت حاصل تھی ۔ منور رانا جیسے بڑے شاعر نے بھی ان کے اشعار پر بے ساختہ داد دی ۔ اس کے فوری بعد بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر جناب منور رانا کو دعوت سخن دی گئی۔ وہ آئے اور انہوں نے اپنا کلام پیش کر کے اہلیان شہر اردو بیدر کا دل موہ لیا ۔ جناب عبدالقدریر سکریٹری شاہین ادارہ جات بیدری کو نذریہ شعر کیا ’’ چارہ گرترمہارت پہ یقین ہے ‘ لیکن کیا ضروری ہے کہ میں ہر ماہ اچھا ہوجاؤں‘‘ ۔ منور رانا نے یہ بھی کہا کہ بیدر کے اس علاقہ کو جس نے اردو کو جنم دیا ہم سلام کرتے ہیں ۔ منور رانا پہلی مرتبہ بیدر میں شعر پڑ رہے تھے جبکہ اس سے قبل تین مرتبہ انہوں نے وعدہ کیا لیکن مشاعرہ میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔ ہر ماہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی ہوجاتی تھی‘ لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ۔ منور رانا کے بعد ہڈگیر کو پیش کیا گیا پھر باری آئی حیدرآباد کے اردو ہندی شاعر نریندر رائے نرین کی ‘ موصوف نے ہندی اور اردو کے علاوہ کئی شاعری بھی پیش کی اور لوگوں نے ان کے کلام کو کافی سراہا ۔ نرین کے بعد ڈاکٹر نواز دیوبندی چیرمین اترپردیش اردو اکیڈیمی نے مائیک سنبھالا اور اپنے کلام سے سامعین کے دلوں کو گرمایا ۔ کافی دیر تک لوگ ان کی زبانی شعر سنتے رہے ۔ اس کے بعد منور رانا ‘ حبیب ہاشمی اور ڈاکٹر نواز دیوبندی کو دوبارہ سنا گیا ۔ آخر میں صدر مشاعرہ ڈاکٹر سنیل پٹوار ( بنگلور) نے اپنا تازہ ترین کلام پیش کر کے سبھوں کا دل موہ لیا جس کی داد منور رانا اور حبیب ہاشمی نے بھی دی ۔ جناب عبدالقدیر سکریٹری شاہین ادارے جات بیدر کے اظہار تشکر پر مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا ۔ اس ہمہ لسانی مشاعرے کی نظامت کے فرائض حیدرآباد کے معروف شاعر اور پھلواری کے ایڈیٹر جناب سردار سلیم نے بحسن خوبی انجام دیئے ۔ مشاعرہ کا آغام تلاوت کلام پاک اور نعت خوانی سے ہوا ۔ پروگرام کے مہمان خصوصی ڈاکٹر لاری آزاد اور ڈپٹی کمشنر پی سی جعفر تھے ۔