بیت المقدس اور اسرائیل کے عزائم
بیت المقدس میں ایک بار پھر جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔ اسرائیل کی پولیس کی جانب سے فلسطینیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ربر کی گولیوں سے فائرنگ کی گئی ۔ مسجد اقصی کے احاطہ اورا طراف میں کشیدگی انتہائی حدوں تک پہونچ گئی ہے ۔ اسرائیل کی پولیس نے ایک بار پھر یہی ادعا کیا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں نے اس پر سنگباری کی تھی جس کے نتیجہ میں اسے فائرنگ کرنی پڑی ہے ۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر نت نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے حالات کو بگاڑا جا رہا ہے اور اس کی ذمہ داری الٹا فلسطینیوں پر عائد کرتے ہوئے اپنی جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عیدالاضحی کے موقع پر اس طرح کی کشیدگی سے اسرائیل کے عزائم پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں مسجد اقصی کے احاطہ میں اسرائیل کی جانب سے نت نئی پابندیاں عائد کی گئیں اور پھر یہودیوں کی زیادہ تعداد نے یہاں جمع ہونا شروع کردیا ہے ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے پس پردہ صیہونی عزائم اور یہودی سازشیں ہوسکتی ہیں جن پر روک لگانے کی ضرورت ہے ۔ گذشتہ دنوں بھی مسجد اقصی کے احاطہ میں مسلسل تین روز تک جھڑپیں ہوئی تھیں اور اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کی گئیں۔ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ایک 18 سالہ نوجوان فلسطینی طالبہ کو اسرائیل کے دو دہشت گرد سپاہیوں نے انتہائی قریب سے گولی مار کر ہلاک کردیا اور یہ جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس طالبہ سے انہیں خطرہ لاحق تھا اور انہوں نے اپنے دفاع میں کارروائی کرتے ہوئے گولیاں داغی تھیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا کے ہر خطہ میں انسانی حقوق اور ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا دعوی کرنے والے ممالک بھی اسرائیل کے ایسے بچکانہ جواز کو من و عن قبول کرتے ہوئے اس کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی اسی روش کی وجہ سے اسرائیل اور اس کی ظالم فوج کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ اسرائیل کی کارروائیاں ایسی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور یہ کھلی دہشت گردی کے مترادف ہے ۔
گذشتہ دنوں سعودی عرب کے شاہ سلمان نے عالمی برادری پر زور دیا تھا کہ مسجد اقصی کے احاطہ میں کشیدگی کو روکنے کیلئے فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کو اس معاملہ میں سرگرم رول اداکرنا ہوگا ۔ شاہ سلمان نے صیہونی اسرائیل کو اس کی ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ کچھ مغربی ممالک نے اس خیال سے اتفاق کیا تھا کہ مسجد اقصی میں یہودیوں کے داخلہ اور وہاں کے موجودہ قوانین کو اگر تبدیل کیا جاتا ہے ‘ جس کا اسرائیل نے خفیہ منصوبہ بنایا ہوا ہے ‘ تو پھر یہاں حالات دگرگو ں ہوسکتے ہیں۔ اب وہی صورتحال لاحق ہے ۔ اسرائیل یہاں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا جا رہا ہے حالانکہ یہاں انہیں عبدات کرنے کی اجازت نہیںہے ۔ اسرائیل کے کٹر پسند دہشت گرد گروپس چاہتے ہیںکہ یہاں یہودیوں کو عبادت کی اجازت دی جائے ۔ کچھ انتہا پسند گروپس تو یہاں نیا ہیکل تعمیر کرنے کی بھی تیاری کر رہے ہیں اور اسرائیل کی حکومت در پردہ انہیں بڑھاوا اور فروغ دے رہی ہے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع نے بارہا کہا ہے کہ حالانکہ یہودی باشندوں کو مسجد اقصی کے دورہ کی اجازت ہے لیکن وہاں انہیں عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔ ان یہودی اور صیہونی حکمرانوں کے وعدوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ کسی بھی وقت اپنے قول سے انحراف کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ انصاف پسندا ور اصول پسند ممالک حرکت میں آئیں اور اسرائیل کو اس کے ناپاک عزائم سے باز رکھاجائے ۔ اقوام متحدہ کو بھی چاہئے کہ وہ اسرائیل پر لگام کسنے سے گریز نہ کرے تاکہ مسجد اقصی اور اس کے اطراف میں کشیدگی کو ختم کیا جاسکے ۔
امریکہ اور اس کے حواری ممالک مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیںاور اس کے ہر بچکانہ جواز کو قبول کیا جاتا رہا ہے جس کے نتیجہ میں اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ نہتے فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا ہوتی جا رہی ہے ۔ فلسطینی خواتین اور بچوں تک کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ اسرائیل پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ اپنی ظالمانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے باز آجائے ۔ اس کے خلاف عالمی برداری کو حرکت میں آتے ہوئے مسجد اقصی اور اس کے اطراف میں پیدا ہوئی کشیدگی کو ختم کرناچاہئے اور مسجد اقصی میں عبادت کے تعلق سے جو قوانین رائج ہیں ان پر سختی سے عمل کو یقینی بنایا جانا چاہئے ورنہ صورتحال اور بھی سنگین ہوسکتی ہے ۔