ظفر آغا
جس بات کا اندیشہ تھا آخر وہی ہوا، بہار میں بی جے پی برسراقتدار آتے ہی وہاں کی مسلم آبادی پر قہر شروع ہوگیا۔ ابھی نتیش کمار نے بی جے پی کے اتحاد کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہی تھا کہ چند روز کے اندر بہار کے بھوجپور ضلع میں بھینس کا گوشت لے جانے والی ٹرک کو روک کر اس میں سوار مسلمانوں کی زبردست پٹائی کی خبر آگئی، اور میں جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے آج کا ’ انڈین ایکسپریس‘ اخبار رکھا ہے جس میں ضلع بھوجپور کے بی جے پی اور بجرنگ دل کے کچھ افراد کی تصویر ہے اور اس تصویر کے نیچے تحریر ہے کہ ’’ اب ہمارا راج ہے‘‘ یعنی اب بہار میں بی جے پی برسراقتدار آچکی ہے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والی ہے۔
ہندی بولے جانے والے علاقوں میں بہار ہندوستان کی وہ واحد ریاست ہے جہاں گزشتہ دو دہائیوں سے مسلمان چین و آرام کی سانس لے رہے تھے۔ 1992 میں بابری مسجد شہید کی گئی اور سارے ہندوستان کے مسلمانوں پر قہر ٹوٹ پڑا لیکن اسوقت لالو پرساد یادو کے بہار میں ایک مسلمان کی بھی جان نہیں گئی۔ گجرات میں 2002 اور اس سے قبل ممبئی میں مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو تک لٹ گئی لیکن بہار میں کہیں سے بھی کسی قسم کے فساد کی خبر نہیں آئی۔ پھر 2014 میں مرکز میں مودی راج کی شروعات کے بعد ہندوستان میں جگہ جگہ گاؤ رکھشکوں نے مسلمانوں کو روک روک کر ان کی جان لینی شروع کردی۔ حد یہ ہے کہ یو پی میں اخلاق کو گھر میں گھس کر مارا گیا اور جنید کو ٹرین سے اُترتے ہی اسٹیشن پر پیٹ پیٹ کر ختم کردیا گیا۔
الغرض، سارے ہندوستان میں 2014 سے مسلمان خوف کے دائرے میں بند ہیں اور ملک کے کونے کونے میں گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ اس پورے ہنگامہ میں محض ایک بہار ہی تھا جہاں ابھی پچھلے ہفتہ تک مسلمان چین و سکون سے زندگی بسر کررہے تھے جو صرف اور صرف لالو پرساد یادو کا کمال تھا کہ ان کی سیکولر شخصیت کے سبب سارا سنگھ پریوار مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔
لیکن نتیش کمار نے جب سے لالو پرساد کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تب سے بہاری مسلمانوں کی زندگی پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے۔ ابھی بھوجپور میں چند لوگوں کی پٹائی ہوئی ہے، اب دیکھیئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ لالو کے سبب بہار کی سرزمین مسلمانوں کے خون سے پاک تھی لیکن اب سنگھ پریوار اس بات کا غصہ نکالے گا کہ جب بابری مسجد گرائی گئی اور گجرات جیسے فسادات ہوئے تو بہار کا مسلمان کیسے بچا رہا؟ دیکھتے جایئے اب بہار میں مظفر نگر اور احمد آباد جیسے فسادات ہوں گے۔ لیکن ڈریئے مت، خوف کسی بھی قوم کے لئے غلامی کی بیڑی سے کم نہیں ہے اور پھر بہار میں تو مسلمان اکیلے نہیں ہیں۔ بہار وہ ریاست ہے جہاں آج بھی لالو پرساد یادو جیسا جیالا اور نڈر قدآور سیاستداں موجود ہے۔ لالو جیل گئے، لالو کو کرپشن کی آڑ میں ایک نہیں دوبار اقتدار سے باہر کیا گیا، لالو پرساد کو ہر قسم کا لالچ دیا گیا تاکہ وہ ہندوتوا نظریہ کے خلاف آواز نہ اٹھائیں اور پھر وہ سکون سے بہار میں اپنا راج چلائیں۔ لیکن لالو کوئی نتیش نہیں ہیں جو ضمیر کا سودا کرکے بی جے پی سے ہاتھ ملا کر بہار کے اقتدار پر اپنا قبضہ جمائے رکھیں۔ لالو اور سونیا گاندھی اور ان سے قبل وی پی سنگھ جیسے گنے چنے افراد ہیں جنہوں نے سنگھ سے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، بھلے ہی ان کا اقتدار چلاگیا ہو لیکن انہوں نے نتیش کمار کی طرح اپنے ووٹر سے غداری نہیں کی۔
بہار کے مسلمانوں کے ساتھ لالو پرساد یادو ایک ڈھال ہے جو لالو کی سیاسی زندگی میں ان کی حفاظت کرتی رہے گی۔ لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں ہے کہ بہار کے مسلمان سب کچھ لالو کے ہاتھوں میں چھوڑ کر خاموشی سے گھروں میں بیٹھے رہیں۔ سیاست ایک مستقل جدوجہد کا نام ہے، اس لئے بہاری مسلمانوں کو بھی اب جدوجہد کرنی ہوگی۔ اس کے لئے انہیں کوئی نیا پلیٹ فارم نہیں چاہیئے بلکہ بہار میں بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ لالو پرساد یادو کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔ بہار میں لالو پرساد کے ہاتھ جتنے مضبوط ہوں گے مسلمان بھی اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ لالو پرساد یادو اس ماہ پٹنہ میں ایک ریلی منعقد کررہے ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ بہار کے ہر ضلع میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں بہاری مسلمان اس ریالی میں شرکت کریں، خود اپنے خرچ پر بس یا ٹرین کے ذریعہ لالو کی پٹنہ کی ریلی میں ہر ضلع سے بہاری مسلمانوں کو شرکت کیلئے جانا چاہیئے کیونکہ یہ بہار کے مسلمانوں کا محض سیاسی معاملہ ہی نہیں بلکہ بہار میں تو اب ان کی زندگی گجرات کی طرح خطرے میں ہے اور یہ خطرہ صرف اسی طرح ٹل سکتا ہے کہ لالو کے ہاتھ مضبوط ہوں، اس لئے اس ریلی میں مسلمانوں کی لاکھوں کی تعداد میں شرکت لازمی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ ایک ریلی میں شرکت کرنے سے جان بچ جائے گی بلکہ اب تو مستقل طور پر ہر ضلع میں مسلم۔ یادو ۔ دلت اتحاد کے جلسے ہونے چاہیئے۔ لالو کی پارٹی کے ساتھ مل کر یا خود ہر شہر کے چند مسلم افراد مل کر اس قسم کے جلسوں کا انعقاد کریں جس میں مسلمان، پسماندہ ذاتیں اور دلت سب اکٹھا ہوکر سنگھ کی فرقہ پرست سیاست کے خلاف ایک پرچم تلے جمع ہوکر جدوجہد کریں۔
یہ حکمت عملی صرف بہار کیلئے ہی کارگر نہیں بلکہ سارے ہندوستان میں لالو پرساد یادو جیسے لیڈر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں بھی کوئی فرقہ پرستی کے خلاف کھڑا ہو وہاں وہاں اقلیتوں کو اس کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہیئے تاکہ پھر ہندوستان کی سیاست میں نتیش کمار جیسا کوئی دوسرا میر جعفر و میر صادق پیدا نہ ہوسکے اور مسلمانوں کی زندگی ہر جگہ ویسے ہی محفوظ رہے جیسے لالو کے بہار میں محفوظ تھی۔