بہار میں سیکولر پارٹیوں کا اتحاد ، نامکمل تجربہ

غضنفر علی خان
ملک کی دوسری بڑی شمالی ریاست بہار میں جنتادل یونائیٹڈ اور راشٹریہ جنتادل نے وہاں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لئے اتحاد کرلیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا فرقہ پرست بی جے پی کو انتخابی شکست دینے کی ضرورت صرف بہار ریاست ہی میں ہے ؟ کیا سارے ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتوں کو ان کا صحیح مقام بتانا کہ ملک میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ضروری نہیں؟ بہار کی سیکولر جماعتیں اس اتحاد سے اگر یہ اشارہ یا سگنل دینا چاہتی ہیں کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں نہ صرف متذکرہ بالا دو سیکولر پارٹیوں کو بلکہ تمام سیکولر طاقتوں کو فرقہ پرستوں کے خلاف اسی طرح متحد ہونا چاہئے تو آج جو اتحاد ان دونوں میں ہوا وہ مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔ ملک کے سیکولرازم کو جو خدشات آج لاحق ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھے ۔ 1980 کے دہے کے بعد ہی سے یہ آثار نمودار ہوچکے تھے کہ اب ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں بن سکتی ۔ اقتدار ہم خیال سیکولر پارٹیوں میں ہمیشہ بٹ جائے گا چنانچہ ہوا بھی یہی ۔ گذشتہ 15 برسوں میں دیکھا گیاکہ کسی ایک پارٹی کی حکومت نہ بن سکی ۔

یو پی اے میں بھی کئی پارٹیاں شامل تھیں۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس میں بھی کئی پارٹیاں تھیں ۔ آج بھی این ڈی اے کی حکومت ہے لیکن فرق یہ ہیکہ الائنس کی قیادت کرنے والی بی جے پی کو اس کے اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کا موقف حاصل ہے ۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہوئی ہے ۔ اگرچیکہ اکثریتی موقف حاصل ہونے کے باوجود بی جے پی نے اپنی حکومت نہیں بنائی بلکہ این ڈی اے میں شامل دیگر پارٹیوں کو ساتھ رکھا جبکہ کانگریس کی قیادت والے یو پی اے کو یہ موقف کبھی نہ مل سکا حالانکہ گذشتہ دس سال سے اس کی حکومت رہی ۔ بی جے پی کی اس کامیابی کے دو مضر اثرات سارے سیکولرازم اور پارلیمانی جمہوریت پر واضح طور پر مرتب ہورہے ہیں ۔ ان اثرات کو کم کرنے کے لئے ہر چند دن بعد وزیراعظم مودی کو دہائی دینی پڑرہی ہیکہ ’’دستور ہند‘‘ بھی ہماری قومی کتاب ہے ۔ اقلیتوں کو ان کے دستوری حقوق ملیں گے ۔ کسی مذہبی عقیدے کے خلاف کوئی معاندانہ بات نہ کہی جائے گی اور نہ اس پر عمل ہوگا لیکن وزیراعظم مودی کے ایسے ہر بیان کے بعد بی جے پی کا کوئی نہ کوئی انتہا پسند لیڈر کوئی نہ کوئی غیر دستوری بات کرتا ہے ۔ دھڑلے سے سینہ ٹھونک کر کہتا ہے کہ رام مندر تعمیر ہوگا ۔ مسلم طبقہ کے بارے میں دل آزاری کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ سوریہ نمسکار اور یوگا کے مسئلہ سے لیکر ’’گھر واپسی‘‘ کے نعرہ تک ایک ہی ذہن کام کررہا ہے جس پر مودی کوئی روک نہیں لگاسکتے ۔ وہ خارجی محاذ پر کامیاب ہوں تو ہوں گے لیکن داخلی سطح پر وہ ایک غیر موثر وزیراعظم بن کر رہ گئے ہیں ۔ ان حالات میں سیکولرازم کو خدشات لاحق ہوگئے ہیں جو طاقتیں آج ہندوتوا کے ایجنڈہ کو موثر کرنے کے لئے کمربستہ ہیں ان کے بارے میں تویہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ وزیراعظم کی بات پر غور کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں ۔ بی جے پی نے 2014 میں جو کامیابی انتخابات میں حاصل کی تھی اس کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ ملک کے عوام سیکولرازم پر یقین تو کرتے ہیں لیکن انھیں ان پارٹیوں پر اب یقین نہیں رہا کہ یہ کچھ کرسکتی ہیں ۔ سیکولرازم پر ہمارا ایقان برقرار ہے لیکن سیکولر پارٹیوں پر سے ان کا ایقان ختم نہ ہوا تو کم از کم کمزور ضرور ہوگیا ہے ۔ ہندوستان میں سیکولرازم اب ایک طرز زندگی بن گیا ہے لیکن اسکا سوانگ بھرنے والی پارٹیو ںکی آپسی چپقلش اور صف آرائی نے عوام کو مایوس کردیا ہے ۔

سیکولرازم کے نام پر اتحاد صرف دو پارٹیوں میں ہی کیوں اور صرف ریاست بہار کی حد تک ہی محدود کیوں کیا جارہا ہے ؟۔ اس سے تو یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ سیکولرازم صرف بہار کو ضرورت ہے جبکہ زمینی حقیقت کچھ اور ہے ۔ جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اگرچیکہ بہارت تک ہی محدود ہیں ان کا یہ اتحاد قابل تعریف بھی ہے لیکن اتنے مفید اور اہم تجربہ کو صرف یہاں تک محدود کرنے کا تو یہ مطلب ہے کہ دونوں پارٹیںا صرف بہار کو بی جے پی کی یلغار سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں ۔ سیکولر پارٹیوں کا اتحاد اگر وسیع بنیادوں پر قومی سطح پر ہو تو یقیناً اس کے مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ سیکولر جماعتیں اپنی کمزوریوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہ بکھری ہوئی منتشر سیکولر جماعتیں کتنی بڑی طاقت ہیں لیکن ان کی کمزوری یہ ہے کہ یہ یا تو کچھ مخصوص ریاستوں تک محدود ہیں یا پھر ان کا دائرہ کار ملک کے مفادات سے زیادہ اپنی پارٹی اور اپنی ریاست تک ہی محدود ہے ۔ خود ان دونوں پارٹیوں میں طے شدہ اتحاد کا اثر بہار ہی میں ہے ۔ پڑوسی ریاست میں ملائم سنگھ یادو کی ساج وادی پارٹی یا مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اترپردیش میں طاقتور موقف رکھتی ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ دونوں سیکولر پارٹیاں بھی اسی ریاست اترپردیش میں حصول اقتدار کے لئے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں ۔ یہی صورتحال بہار میں بھی تھی ۔

جنتادل یونائیڈ اور راشٹریہ جنتادل بھی بہار میں ایکدوسرے سے مقابلہ کرتی تھیں ۔ اگر اس تجربہ کو جو بہار میں ہوا اترپردیش میں دہرایا جائے اور بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹیوں میں بھی انتخابی مفاہمت ہوجائے تو اترپردیش اور بہار جیسی بڑی ریاستوں میں فرقہ پرست طاقتوں کو لگام دی جاسکتی ہے ۔ بہار کو اس وقت ’’سیکولر اتحاد کی تجربہ گاہ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ یہ اتحاد اگر ایک تجربہ ہے تو اس کو مزید وسعت دی جانی چاہئے ۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا اس تجربہ کو ملک بھر میں دہرانے کے راستے میں صرف سیکولر جماعتوں کی انا حائل ہے ۔ ہر پارٹی سمجھتی ہے کہ اسکا سیکولر نظریہ دوسری پارٹیوں سے بہتر ہے ۔ اس لئے اس کا سیکولر نقطہ نظر رائج ہونا چاہئے ۔ ان تمام سیکولر پارٹیوں میں کانگریس بھی شامل ہے ۔ کانگریس کا سیکولرازم آزادی کے بعد 67 سال کے دوران ’’کھرا سکہ‘‘ ثابت نہیں ہوا بلکہ امتداد زمانہ نے اس کے کھوٹے پن کو ہی اجاگر کیا ۔ اس کے باوجود یہی ایک ملک گیر سطح کی پارٹی ہے جسکا اپنا کیڈر اپنا نٹ ورک ہے لیکن اس کے سیکولرازم کو پوری طرح کھرا سمجھنے کے لئے نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کے تمام وسیع النظر عوام تیار نہیں ۔ کانگریس تنہا کچھ نہیں کرسکتی ۔ اسی لئے کانگریس کو بھی اپنے سیکولرازم کی ’’انانیت‘‘ ختم کرنی پڑے گی اور دوسروں کے سیکولرازم کو اتنا ہی اچھا اور مفید سمجھنا چاہئے جتنا کہ وہ اپنے نقطہ نظر کو سمجھتی ہے ، سیکولر محاذ ایسی صورت میں ہی کامیاب ہوسکتا ہے جبکہ اس کی بنیادیں وسیع ہوں اور کانگریس پارٹی کو بھی اس میں شامل کیا جائے ۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ بہار کے اس اتحاد کے دوران کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی اور جے ڈی یو کے سربراہ نتیش کمار کی ملاقات بھی ہوئی ، تادم تحریر اسکا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا ۔ جہاں تک راشٹریہ جنتادل اور اس کے سربراہ لالو پرساد یادو کا سوال ہے انھیں شاید کانگریس کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہ ہو ۔ پہلی بات تو یہ کہ بہار کے تجربہ کو وسیع تر کرنے اور اس میں دیگر ہم خیال پارٹیوں کوبھی شامل کرنا چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ صرف بہار تک اس کو محدود نہیں کرنا چاہئے ۔ بہار اسمبلی کے چناؤ تو قریب ہیں ابھی سے اس تجربہ کی ملک گیر پیمانہ پر غور و فکر ہونی چاہئے ۔ بہار میں ان دونوں پارٹیوں نے اپنے مشترکہ و مجوزہ چیف منسٹر کی حیثیت سے نتیش کمار کا نام بھی پیش کردیا ہے ۔ اس اعلان نے ایک بہت بڑا مسئلہ حل کردیا ہے ۔ ورنہ خدشہ تھا کہ لالو پرساد یادو بھی اس عہدہ کے لئے ایک طاقتور دعویدار ہوسکتے تھے۔ اپنی سیماب صفتی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اپنے چیف منسٹر (متوقع و مجوزہ) کے نام کااعلان کرے ۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ بی جے پی اپنا کوئی امیدوار چیف منسٹر کے عہدہ کے لئے پیش کرے گی ۔ یہ بات تو کہی جاسکتی ہے کہ اگر اترپردیش اور بہار میں بی جے پی کی پیش رفت کو روکا جائے تو دہلی کے تخت پر اس پارٹی کو براجمان ہونے سے بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے ۔ سیکولر محاذ ملک کی کمیونسٹ پارٹیوں کے بغیر بھی نامکمل ہوگا۔ یہ کمیونسٹ پارٹیاں بھی سمٹتی سکڑتی جارہی ہیں حالانکہ سیکولرازم کی مدافعت میں ان کی ناقابل فراموش خدمات رہی ہیں ۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس کے ہاتھوں تو لگ بھگ دو سال پہلے ہوئی شکست کے بعد تو مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی گویا بے اثر ہوگئی ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا دائرہ اثر بھی کم ہوگیا ، لیکن اس کے باوجود کمیونسٹ پارٹیوں کو کسی بھی سیکولر محاذ میں شامل نہ کرنا زبردست سیاسی غلطی ہوگی ۔ ان پارٹیوں کا کیڈر بے حد مضبوط ہے اور یہ اپنی انداز فکر کو ہمیشہ مستحکم رکھتا ہے ۔ ان پارٹیوں کوبھی سیکولر لحاظ میں (جب بھی یہ تشکیل دیا جائے) شامل ہونا اور شامل کیا جانا چاہئے ۔