اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
یہ بھی اچھا ہوگیا کچھ لوگ پہچانے گئے
بہار انتخابات اور سماجوادی پارٹی
بہار میں اسمبلی انتخابات کے اعلان نے ملک میں عملا نئی سیاسی صف بندیوںکا آغاز کردیا ہے ۔ انتخابات سے قبل سے ہی سیاسی جماعتوں کی توڑ جوڑ کا آغاز ہوچکا تھا اور مختلف جماعتوں پر مشتمل اتحاد بھی تشکیل دئے جا رہے تھے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد سے ہی عملا بہار انتخابات کی تیاریوں کا آغاز ہوچکاتھا ۔ بہار میں ہوئے ضمنی انتخابات میں نتیش کمار ‘ لالو پرساد یادو اور کانگریس پر مشتمل اتحاد نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے سابقہ جنتادل کی جماعتوں کو متحد کرنے اور ایک دوسرے میں ضم کرنے کی تجویز پیش ہوئی اور اس پر کافی پیشرفت بھی ہوچکی تھی ۔ تاہم عین وقت پر اب سماجوادی پارٹی ‘ جس کا بہار میں وجود برائے نام ہے ‘ کھیل بگاڑنے پر اتر آئی ہے ۔ بہار میں حلیف جماعتوں کی سوابھیمان ریلی میں شرکت کے باوجود سماجوادی پارٹی نے نشستوں کی تقسیم کا بہانہ کرتے ہوئے خود کو سکیولر اتحاد سے علیحدہ کرلیا ۔ حالانکہ سکیولر اتحاد کے قائدین ملائم سنگھ یادوکو منانے کی کوشش بھی کر رہے تھے لیکن انہوں نے الگ سے این سی پی کے ساتھ مل کر نیا اتحاد قائم کرلیا ہے۔ شائد ملائم سنگھ یادو کے سکیولر اتحاد سے علیحدہ ہوجانے کا ہی نتیجہ تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی ستائش شروع کردی تھی۔ انہوں نے ایک تقریب میں ملائم سنگھ یادو کو عزت مآب کہہ کر مخاطب کیا۔ ملائم سنگھ یادو ایک طرح سے موقع پرستی کیلئے بھی شہرت رکھتے ہیں اور ان کے سامنے بہار نہیں بلکہ اتر پردیش ہے جہاں ان کی پارٹی کو اقتدار حاصل ہے ۔ وہ اتر پردیش میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کیلئے بی جے پی کو بہار کا تحفہ پیش کرنے تیار ہیں۔ اسی مقصد سے انہوں نے بہار کے سکیولر اتحاد کو بننے سے پہلے ہی بگاڑنے کی کوشش کی ہے ۔ اب انہوں نے این سی پی کے ساتھ مل کر ریاست میں تیسرا محاذ قائم کرلیا ہے ۔ یہ محاذ بہار کی سیاست میں کوئی طاقت نہیں رکھتا ۔ انتخابات میں بھی اس محاذ سے کسی بہتر مظاہرہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی تاہم یہ اندیشے ضرور پیدا ہوگئے ہیں کہ اس محاذ کے میدان میں آنے سے بی جے پی کو فائدہ ضرور ہوسکتاہے۔ شائد دوسروں کی طرح ملائم سنگھ یادو اور شرد پوار کی جماعتوں کا مقصد بھی یہی ہو کہ بی جے پی کو بہار میں حکومت بنانے کا موقع مل جائے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو نے شرد پوار کی جماعت سے اتحاد کیا ہے ۔شرد پوار بھی وہی ہیں جنہوں نے مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کے فوری بعد بی جے پی کو غیر مشروط تائید فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ بی جے پی کا مہاراشٹرا میں شیوسیناسے اتحاد تھا اور ہے بھی لیکن شرد پوار نے بی جے پی کو استحکام بخشنے میں سب سے آگے رہنے میں اپنی سیاسی عافیت سمجھی تھی ۔ ملائم سنگھ یادو وہ لیڈر ہیں جو اپنے حلیفوں کا استعمال کرتے ہوئے انہیں عین موقع پر دھوکہ دینے میں شہرت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے صدر جمہوریہ کے انتخاب کے مسئلہ پر بھی دوغلی پالیسی اختیار کی تھی ۔ انہوں نے مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی کوعین وقت پر دھوکہ دیا تھا جواس وقت ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو ایک بار پھر صدارتی امیدوار کے طور پرپیش کرناچاہتی تھیں۔ یو پی اے کے دور حکومت میں ملائم سنگھ یادونے امریکہ سے نیوکلئیر معاہدہ کے مسئلہ پر حکومت کو زوال سے بچانے میں اہم رول ادا کرکے کمیونسٹ جماعتوں کے فیصلے کو بے اثر کردیا تھا۔ حصول اراضی قانون اور ویاپم اسکام کے مسئلہ پرپارلیمنٹ میںاپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مسلسل احتجاج کے بعد انہوں نے اختتامی ایام میں پارلیمنٹ میں کارروائی روکے جانے کی مخالفت میں آواز اٹھائی تھی۔ اسی وجہ سے انہیں وزیر اعظم سے شاباشی بھی ملی تھی۔ بہارکے بعد یوپی میںبھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ملائم سنگھ یادو کے سامنے اب اپنی سیاسی بقا کا مسئلہ ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ وہ دوسری سکیولر جماعتوں کو نقصان پہونچانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔
ملائم سنگھ یادواور شرد پوار کی سیاسی پارٹیاں بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد پر آمادہ ہوگئی ہیں۔ بہار میں تیسرے محاذ کا قیام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ یہ محاذ بہار کے انتخابی منظر نامہ کو بدلنے کی کوشش میں جٹ چکاہے ۔ بہار میںجس طرح سے نتیش کمار ‘ لالو پرساد یادواور کانگریس مل کر ملک کے مستقبل کی لڑائی لڑ رہی ہیں ایسے منظر میں ملائم سنگھ یادو اور شرد پوار کوچاہئے تھاکہ وہ حتی المقدور ان سکیولر جماعتوں کی تائید کرتیں تاکہ ملک کے سکیولر ڈھانچہ کوبکھرنے سے بچایا جاسکے۔ ان جماعتوں نے اس کے برخلاف موقف اختیار کیا ہے اور اپنے اپنے سیاسی مستقبل کو بی جے پی کی ہمدردی سے وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان جماعتوں کی یہ کوشش خود ان کیلئے چاہے کیسے بھی نتائج پیدا نہ کرے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سے ملک کے مستقبل کاسوال وابستہ ہوگیاہے اور اگر بہار میں سکیولراتحاد کوشکست ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری ان دونوں جماعتوں پر عائد ہوگی۔