بہار انتخابات ‘ الزامات و جوابی الزامات

ایک جملہ بدسلوکی کا بہت
پیار کی دیوار ڈھہنے کے لئے
بہار انتخابات ‘ الزامات و جوابی الزامات
ملک کے سیاسی مستقبل کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل بہار انتخابات کیلئے مہم بتدریج شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی انتخابات میں عوامی مسائل اورریاست کی ترقی کے ایجنڈہ کو کہیںپس پشت ڈال دیا گیاہے اورسیاسی قائدین کے ایک دوسرے پر الزامات وجوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ بہار میںانتخابی کامیابی کی اہمیت نے ان قائدین کوایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کیا ہے ۔ یہاں ہر جماعت اور ہر سیاسی قائد کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتاہے۔اس مقابلہ میں سیاسی اخلاق و اقدار کا کسی کو بھی پاس ولحاظ نہیں ہے اور اخلاقی پستی کی انتہا کو پہونچ کر بھی کامیابی حاصل کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ ہرسیاسی جماعت ‘ دوسری جماعت کو اورہرسیاسی لیڈر دوسرے لیڈر کو الزامات کا نشانہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ کوئی بھی مسائل اور عوام کی بہتری اور ترقی پر بات کرنے کوتیارنہیں ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم سے لے کر مقامی امیدوار تک بھی اسی نہج پر کام کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘ جو دوسروں کوطنز کا نشانہ بنانے میں شہرت رکھتے ہیں ‘ چیف منسٹر بہارکے ڈی این اے پر سوال کردیا ۔ اس کے بعد بی جے پی کے ایک اور لیڈر نے تو عملا چیف منسٹر بہار نتیش کمار کا سینہ چاک کردینے کی دھمکی دے دی ۔اکثریہ کہاجاتارہاکہ اس طرح کے دھمکی آمیز رویہ کیلئے سابق چیف منسٹر بہار لالو پرساد یادو ذمہ دارہیں۔وہ مخالفین کو اپنی تنقیدوں کے نشانہ پر رکھتے ہیں۔ لیکن اب یہ صورتحال ہے کہ بہارکے انتخابات کو عملا میدان جنگ بنادیا گیاہے اور انتہائی نچلی سطح پر اتر کر الزامات کا سلسلہ شروع کردیاگیا ہے۔ ویسے توہربار انتخابات میںتقریبا یہی لب ولہجہ اختیار کیا جاتا ہے اور مخالفین کو نیچادکھانے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھی جاتی لیکن اس بار چونکہ بہار کے انتخابی نتائج سے ملک کے سیاسی مستقبل کووابستہ کیا جا رہاہے اس لئے اس بار ہر ایک نے کوئی کسرباقی نہ رکھنے کافیصلہ کرلیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سبھی کو نہ اخلاقیات کی فکر ہے اور نہ ہی قواعد وقوانین کی پاسداری پر کوئی توجہ دی جا رہی ہے ۔ ہر کوئی یہ چاہتا ہے عوامی مقبولیت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ طاقت اور الزامات کے بل بوتے پر مخالفین کو پچھاڑ کر کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کی جائے ۔
جہاںیہ الزامات وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کئے گئے ڈی این اے ریمارک سے شروع ہوئے تھے وہیں اب ان میں چارہ چور ‘ بھورا بال ‘ کالیا ناگ ‘ موقع پرست اور نہ جانے کیسے کیسے الزامات مسلسل عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ ریاست بہارکا جہاں تک تعلق ہے وہ ملک کی پسماندہ ترین ریاستوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ یہاں کے عوام ملک کے ہر کونے میںمحنت و مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ دو معیادوں سے چیف منسٹر کی حیثیت میں نتیش کمار نے جوکام انجام دئے ہیں ان کی بدولت ریاست کی شبیہہ بدلنی شروع ہوئی ہے ۔بہار کے عوام بھی ترقی کے ثمرات دیکھ رہے ہیںاور ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔ بہارکے عوام کو ترقی کے معاملہ میںملک کی دوسری ریاستوں کے عوام کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کرنے میںابھی ایک طویل جدوجہد باقی ہے۔ نتیش کمار نے جہاں ریاست کی شبیہہ کو بدلنے کیلئے بہت کچھ کیا ہے تو اور بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ نتیش کمار نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ریاست کو خصوصی ریاست کادرجہ دے کر کچھ مراعات حاصل کرنے بھی جدوجہد کی تھی لیکن اس میںمرکزی حکومتوں کے ہٹ دھرمی والے رویہ کی وجہ سے انہیںکامیابی نہیںمل سکی ہے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ آٹھ سال تک نتیش کمار کے کام کاج کو قابل تعریف قرار دینے والے بی جے پی کے قائدین ان پر سخت تنقیدیں کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ یہاں سکیولر طاقتوں کو نیچادکھانے کیلئے بی جے پی نے موقع پرستوں سے اتحاد کرلیا ہے اور یہ اتحاد خود بھی اخلاقی گراوٹ اور پستی کی علامت ہی کہا جاسکتا ہے ۔
حیرت اس بات کی ہے کہ مقامی قائدین اور مختلف پارٹیوں کے امیدواروں کے ساتھ دستوری عہدے رکھنے والے تک بھی کیچڑ کے اس کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز نریندر مودی بھی خود کو اس اخلاقی گراوٹ والے عمل سے دور نہیں رکھ سکے ہیں۔ بہار کے عوام کویہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے اخلاقی پستی اور گراوٹ کی انتہا کوپہونچ جانے والے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کس قدر اخلاقی گراوٹ اور موقع پرستی کا ثبوت نہیںدینگے ۔ بہار کے عوام کو اخلاقی پستی اور گراوٹ کے اس کھیل کا حصہ بننے والوں کوسبق سکھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ انہیں یہ احساس ہوجائے کہ عوام کو صرف زبان درازی سے متاثر نہیں کیا جاسکتا بلکہ عوام کے سامنے ریاست اور خودعوام کی فلاح و بہبود اور بہتری کے جامع منصوبوںکو رکھتے ہوئے ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔