بہار اسمبلی انتخابات

گلشن میں کہیں فصل بہار آئی ہے شاید
پھر خار مغیلاں کی چبھن جاگ اُٹھی ہے
بہار اسمبلی انتخابات
بہار اسمبلی کے انتخابات کیلئے شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ یہ انتخابات پانچ مراحل میں تکمیل پائیں گے ۔ انتخابی شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہوگیا ہے ۔ اب حکومتیں کسی سرکاری اسکیم یا پروگرام کا اعلان نہیں کرپائیںگی ۔ وہ اقتدار ملنے پر کئے جانے والے کاموں کے وعدے عوام سے ضرور کر سکتی ہیں۔ ویسے تو انتخابات کا بگل اب بجا ہے لیکن ریاست میں اقتدار کی دعویدار جماعتوں اور اتحادوں کی جانب سے عملا ان تیاریوں کا بہت پہلے ہی آغاز ہوچکا ہے ۔ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے اور لالو پرساد یادو ‘ نتیش کمار اور کانگریس پر مشتمل عظیم سکیولر اتحاد نے اپنی اپنی انتخابی مہم کا عملا بہت پہلے آغاز کردیا تھا ۔ عوام کو رجھانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ شائد اسی کوشش کے ایک حصے کے طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے بہار کیلئے ایک لاکھ پچیس ہزار کروڑ روپئے پر مشتمل خصوصی پیاکیج کا اعلان کیا گیا جبکہ نتیش کمار کی حکومت مسلسل یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ ریاست کو خصوصی درجہ دیا جائے جس کے نتیجہ میں ریاست میں ترقیاتی کاموں میں تیزی پیدا کی جاسکے اور عوام کو اس کے ثمرات سے مستفید کیا جاسکے ۔ بہار انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل ہی این ڈی اے اور سکیولر اتحاد کے مابین الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ابھی سے یہ مہم اوچھے ہتھکنڈوں کا بھی شکار ہوچکی ہے ۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندرمودی کی توجہ بھی بہارپر مرکوز رہی ہے اور وہ وہاں ایک سے زائد جلسوں وغیرہ سے خطاب کرچکے ہیں۔ لالو ۔ نتیش اور سونیا گاندھی کے اتحاد نے بھی وہاں ایک سوابھیمان ریلی کا انعقاد کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بہار کے بی جے پی قائدین نتیش کمار کی حکومت کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں جٹ گئے ہیں اور مرکز میں این ڈی اے حکومت کے قیام سے ان کے حوصلے بلند نظر آتے ہیں۔ سکیولر اتحاد کے قائدین بھی باہمی اتحاد اور ایک دوسرے کی سیاسی طاقت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کو شکست دینے کیلئے پر اعتماد نظر آتے ہیں حالانکہ ان کی صفوں میں اتحاد کا وہ مظاہرہ ممکن نہیں ہوسکا ہے جیسا کہ ہونا چاہئے تھا ۔ ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی یہاں سکیولر اتحاد کیلئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ سماجوادی پارٹی نے اس اتحاد میںشامل ہونے کے بعد پھر سے دوری اختیار کرلی ہے ۔
بی جے پی یہاں بہر قیمت اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اب تک بہار میں بی جے پی کو اقتدار نہیں مل سکا تھا ۔ اب نریندر مودی کی عوامی مقبولیت کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے پارٹی بہر صورت اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اسے اب تک ریاست میں سکیولر جماعتوں کی وجہ سے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع نہیں مل سکا تھا ۔ اب جبکہ مرکزی کابینہ میں بہار سے تعلق رکھنے والے وزرا کی بھی خاطر خواہ تعداد ہے اور خود نریندر مودی یہاں خاص توجہ دے رہے ہیں ایسے میں پارٹی کو امید ہے کہ اس بار اسے یہاں اقتدار حاصل کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا ہے ۔ ساتھ ہی سکیولر جماعتوں کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے ۔ وہ اگر بہار میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر ملک کی سیاست پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی جو ہواوں میں اڑ رہی ہے اور اپوزیشن کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے اسے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی ۔ ملک میں اپوزیشن کی آواز کو اہمیت دینا ضروری ہوجائیگا اور جو عوامی مسائل ہیں انہیں حل کرنے کے تعلق سے حکومت کو سنجیدگی اختیار کرنی پڑیگی ۔ اب تک سونیا گاندھی کے الفاظ میں مودی حکومت فی الحال ہوا بازی میں مصروف ہے ۔ اس نے عوام سے کئے گئے کئی اہم وعدوں کو پورا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی ہے ۔ عوام کو صرف تیقنات پر ٹالا جا رہا ہے اور حقائق کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ان کے سامنے صرف بہتر منظر کشی کی جارہی ہے ۔ اس کا قلع قمع کرنے کیلئے بہار میں سکیولر جماعتوں کی کامیابی ضروری ہے ۔ سکیولر جماعتوں کو اپنی کامیابی کیلئے آپس میں اتحاد کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورتہ ے ۔
نشستوں کی تقسیم سے لے کر انتخابی منشور کی تیاری تک ‘ رائے دہی میں عوام کی شراکت کو یقینی بنانے سے لے کر ملک کے مستقبل کے حوالے سے حقائق کو پیش کرنے تک سکیولر جماعتوں کو ایک جامع اورمبسوط حکمت عملی کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان قائدین کو ذاتی انا پرستی اور مفاد پرستی کو ترک کرتے ہوئے محض فرقہ پرستوں کی پیشرفت پر روک لگانے کے مقصد سے ایک جٹ ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر یہ جماعتی کسی بھی مسئلہ میں انا پرستی کا شکار ہوجائیں یا تن آسانی سے کام لیں تو پھر بی جے پی کی پیشرفت کو روکنا ان کیلئے مشکل ہوجائیگا ۔ موجودہ صورتحال میں یہ اشارے ملے ہیں کہ بی جے پی کویہاںشکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ سکیولر جماعتوں کے قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسی لہر کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اسے اور بھی مستحکم اور مضبوط کرنے کی کوشش کریں تاکہ فرقہ پرستی کی بڑھتی ہوئی لہر کو بہار میں مزید پیشرفت کرنے سے روک دیا جائے ۔