بہادر یار جنگ اور محمد علی جناح

ڈاکٹر مسعود جعفری
بہادر یار جنگ اور محمد علی جناح میں گہری انسیت تھی ۔ دونوں بھی مسلم لیگ سے وابستہ تھے ۔ جناح پہلی دفعہ اپریل 1919 ء میں حیدرآباد آئے ۔ وہ ایک عوامی جلسہ کو مخاطب کرنے والے تھے ۔ تقریر کا عنوان ’’آنے والے کل کا ہندوستان‘‘ تھا ۔ پولیس کمشنر وینکٹ رام ریڈی نے تقریر سے اجتناب کرنے کے لئے کہا تو جناح نے نظام کے تحریری فرمان کا مطالبہ کیا ۔ کمشنر واپس ہوگیا ۔ جناح کو سیاسی موضوعات جیسے حکومت خود اختیاری ، رولٹ ایکٹ اور دیگر سیاسی عنوانات پر اظہار خیال سے روکا جارہا تھا ۔ اعلی حضرت کے سیاسی مشیر نظامت جنگ نے جناح کو خط لکھا اور ان سے کہا کہ سیاسی تقریروں سے پرامن لوگوں کے ذہنوں میں اضطراب پیدا ہونے کے امکانات ہیں ۔ جناح کے جلسے کے بارے میں کہا گیا کہ اس میں اسکول کے بچے اور کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے ۔ جناح کے ممالک محروسہ میں داخلے اور تقریر پر امتناع عائد کیا گیا ۔ جناح نے نظامت جنگ کے مراسلہ کا خاطر خواہ جواب دیا ۔ جب امتناع کی میعاد ختم ہوگئی تو جناح دوبارہ حیدرآباد آئے ۔ نظام کو اس بات کا احساس تھا کہ حیدرآباد میں جناح کے ماننے والوںکی تعداد اچھی خاصی ہے ۔ وہ جناح سے بہتر تعلقات کے خواہاں تھے ۔ ویسے بھی جناح اس وقت تک قائداعظم بن چکے تھے ۔ بدلے ہوئے حالات میں مراسم میں کشیدگی مناسب نہیں تھی ۔ جب میر عثمان علی خان آصف سابع کو پتہ چلا کہ جناح بمبئی میں واقع مالابار ہلز کے بنگلہ کو فروخت کردینا چاہتے ہیں تو نظام نے وائرلس پیام 7 مئی 1944 کو بھیجا ۔ اس کا متن دیکھئے ۔

I Have heard you intend disposing of your Malabar Hill house Bombay. If this is true will you allow Zain Yar Jung to have a look at the property and prepare valuation report for my government’s consideration ۔ (میں نے سنا ہے کہ تم اپنے بمبئی کے مالابار پہاڑیوں کے بنگلہ کوفروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہو ۔ اگر یہ سچ ہے تو کیا تم زین یار جنگ کو اپنی ملکیت دکھانے کی اجازت دوگے تاکہ وہ میری حکومت کے غور و خوض کے لئے ملکیت کی قدر و قیمت کی رپورٹ تیار کرسکیں) ۔ نظام نے گھر کی قیمت آٹھ لاکھ پچاس ہزار لگائی اور جناح نے اس کی قیمت پندرہ لاکھ پچاس ہزار مقرر کی ۔ سودا نہیں ہوا ۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ دونوں میں سردو گرم نوعیت کے تعلقات رہے ۔ جناح مغربی طرز فکر کے نقیب تھے اور ساتویں حکمراں مشرقی اقدار کے پاسباں ۔ دونوں کی سوچ اور فکر میں گہری خلیج حائل تھی ۔ تال میل کبھی پیدا نہ ہوسکا ۔ قائد ملت بہادر یار جنگ شعلہ نوا مقرر تھے ۔ آپ کا انداز بیان منفرد اور دل چھونے والا تھا ۔ آپ کی سحر انگیز خطابت کے دیوانے ہزاروں نہیں لاکھوں تھے ۔ جب بولنے لگتے تو مجمع ہمہ تن گوش ہوجاتا ۔ لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت جلسوں میں شریک ہوتے ۔ جب آپ کی عمر سترہ برس کی تھی تب آپ نے رابندر ناتھ ٹیگور کی گیتانجلی کی تعریف کی ۔ آپ کئی دنوں تک شانتی نکیتن میں بھی فروکش رہے ۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو آپ کی جادو بیانی کی قائل تھیں ۔ مسلم لیگ کے لئے بہادر یار جنگ ایک قیمتی اثاثہ تھے ۔ وہ جناح کے ممنون نظر رہے ۔ سرحدی علاقوں میں پہنچ کر سیاسی تقریریں کیں اور مسلم لیگ کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔

یہ ایک عظیم کارنامہ تھا ۔ حیدرآباد میں آپ پر زبان بندی عائد تھی ۔ اسی لئے سرحدی صوبے میں تقریر کے لئے اعلی حضرت سے اجازت مانگی ۔ چونکہ آصفیہ حکومت کا قانون ریاست حیدرآباد کی حد تک تھا اور وہ ممالک غیر میں رائج نہیں تھا ، اسی لئے بہادر یار جنگ کو تقریر کرنے سے باز نہیں رکھا گیا ۔ جناح نے صاف لفظوں میں کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ نظام سے ان کے تعلقات خراب ہوں ۔ وہ اس سلسلہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ بہادر یار جنگ سیکولر طرز فکر کے علمبردار تھے ۔ آپ غیر مسلموں میں بھی بہت مقبول تھے۔ پرانے حیدرآبادی ابھی بھی آپ کو یاد کرکے آبدیدہ ہوجاتے ہیں ۔ زبان بندی پر امتناع کے وقت آپ نے اپنے ساری مراعات بھی ترک کردیں ۔ آپ کو مسلم لیگ اور اس کا کازعزیز رہا ۔ حیدرآباد میں آپ کے سارے اعزازات سلب ہوچکے تھے ۔ اس کے باوجود آپ کے ماتھے پر شکن نہیں پڑی ۔ عزم و حوصلہ میں کمی نہیں آئی ۔ ایسے نابغہ روزگار کی موت پر راز کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ آج تک حقیقت کا پتہ نہیں چل سکا ۔ حقہ کا کش لیتے ہی سانس کی رفتار رک گئی اور آپ کا وصال ہوگیا ۔ وہ 25 جون 1944 تھا جب اس دنیا سے ایک عظیم انسان اٹھ گیا ۔ ان کی شریک حیات نے ناگہانی موت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا لیکن اس سلسلہ میں کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی ۔ بہادر یار جنگ کی عمر صرف 39 سال تھی ۔ اتنی کم عمری میں زندگی کا چراغ گل ہوگیا ۔ بہادر یار جنگ کی وراثت ، حق گوئی و بے باکی ہے ۔ وہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر وتعبیر ہیں ۔
آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی