بہادر لڑکا

اسلم ایک خوبصورت، سرسبز و شادب علاقے کے ایک گاؤں میں اپنے ماں باپ اور ایک بہن کے ساتھ رہتا تھا۔ چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ اس کے گھر کے پاس ریل کی ایک پٹری تھی جہاں دن میں دو یا تین مرتبہ ٹرین گذرتی تھی۔ گھر سے کچھ فاصلے پر ایک تالاب تھا، جس میں اسلم اکثر نہانے جاتا تھا۔ اسلم کی ایک چھوٹی بہن تھی جو گھر کے کاموں میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ اسلم کے والد کافی عرصہ سے بیمار تھے۔ کام کرنے کے قابل نہ تھے۔ جب وہ تندرست تھے تو محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلاتا تھے۔ اس کی والدہ چند ایسے گھروں میں کام کرکے پیسے لاتی تھی جو سیر کی غرض سے یہاں آ کر کرائے کے مکانوں میں ٹھہرتے تھے۔ دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی تھی اوپر سے اسلم کے والد کی دواؤں کا خرچہ بھی تھا۔

اسلم صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکا تھا۔ اسے مجبوراً تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ سارا دن اپنی تین بکریوں کو چراتا رہتا تھا۔ وہ ایک بہادر لڑکا تھا۔ اس کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش رہتی تھی۔ ہر وقت دوسروں کی مدد کیلئے تیار رہتا تھا۔

ایک روز وہ دوپہر کے وقت بکریاں چرا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک عورت ایک شخص کو وہیل چیئر پر بٹھا کر لارہی ہے۔ اچانک اس عورت کے ہاتھوں سے وہیل چیئر نکل گئی۔ وہیئل چیر نے ڈھلان کی طرف چلنا شروع کردیا۔ ڈھلان معمولی سی تھی۔ عورت وہیل چیئر کو پکڑنے کیلئے اس کے پیچھے بھاگی لیکن پکڑ نہ سکی۔ اسلم نے جب یہ دیکھا تو تیزی سے وہیل چیئر کی طرف بھاگا اور اسے پکڑ لیا۔ اس طرح وہیئل چیر پر بیٹھا شخص حادثے سے بچ گیا۔ اس نے اسلم کی بہادری کی تعریف کی اور کچھ رقم اسلم کو دینا چاہی مگر اسلم نے انکار کردیا لیکن عورت کے بے حد اصرار پر اسے پیسے لینے پڑے۔ اسی طرح ایک دن ایک لڑکا تالاب میں گر پڑا۔ اس وقت تالاب کے پاس صرف دو لڑکے تھے جو اس لڑکے کی جان بچانے کیلئے شور مچانے لگے۔ اسلم نے جب شور سنا تو وہ تیزی سے تالاب کی طرف بھاگا۔ اسے تیرنا آتا تھا اس نے تالاب میں چھلانگ لگا کر لڑکے کو بچا لیا۔

لڑکے کے ماں باپ کو پتہ چلا تو وہ اسلم کے گھر اس کا شکریہ ادا کرنے آئے۔ ایک ایک واقعہ نے اسلم کی زندگی بدل دی۔ ایک دن اپنی بکریوں کے ساتھ ریل کی پٹری کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کی ایک بکری ریل کی پٹری کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی خاص دور نکل گئی۔ اسلم اس کے پیچھے بھاگا ۔ اچانک اس کی نظر پٹری پر پڑی جہاں کئی فٹ پٹری غائب تھی۔ غالباً یہ کسی دہشت گرد کی کارروائی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے کیونکہ تھوڑی دیر میں وہاں سے ٹرین گذرنے والی تھی۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اس نے اپنی قمیص اتار لی اور ٹرین کا انتظار کرنے لگا تاکہ جیسے ہی ٹرین دور سے نظر آئے یہ ٹرین کی طرف بھاگنا شروع کردے گا۔ تھوڑی دیر میں اسے ٹرین دور بہت دور ایک دھبے کی شکل میں آتی نظر آئی۔

اس نے اپنی قمیص ہاتھ میں پکڑ کر بازو کو بلند کیا اور قمیص کو لہراتا ہوا پٹری کے درمیان پوری قوت سے بھاگنے لگا۔ تیز بھاگتے ہوئے وہ ٹھوکر کھا کر کئی مرتبہ گرا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ وہ تیزی سے بھاگتا رہا۔ قمیص کو لہراتا رہا۔ آخرکار انجن کے ڈرائیور نے اسے دیکھ لیا وہ سمجھ گیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ اس نے بریک لگانا شروع کردیا۔ ٹرین کی رفتار چونکہ تیز تھی، اس لئے گاڑی ایک دم نہیں رک سکتی تھی۔ ادھر اسلم بھی ٹرین کی طرف بھاگ رہا تھا۔ آخر کار ٹرین اسلم کے بالکل نزدیک آ کر رک گئی۔ اسلم ٹرین کو اتنے نزدیک پا کر بیہوش ہوکر گر پڑا لیکن ٹرین تو رک چکی تھی۔ ڈرائیور، گارڈ اور مسافر ٹرین سے اتر کر اسلم کی طرف بھاگے۔ ڈرائیور نے اسے اٹھایا پانی پلایا کچھ دیر بعد اسلم کو ہوش آ گیا۔ ڈرائیور نے جو کچھ دیکھا تھا وہ سب کو بتایا۔

سب اسلم کی بہادری پر حیران رہ گئے۔ گارڈ نے اپنے افسران کو اطلاع دی۔ تھوڑی دیر میں پٹری مرمت کرنے والا عملہ آ گیا چونکہ پٹری کی مرمت میں خاصی دیر تھی اس لئے ڈرائیور، گارڈ اور کچھ مسافر اسلم کو اس کے گھر لے گئے۔ اسلم کے والدین کو جب سارے واقعہ کا علم ہوا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ یہ خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سارا گاؤں اسلم کے گھر کے باہر جمع ہوگیا۔ سب لوگ اس کی بہادری کی تعریف کررہے تھے۔ رات کو ریلوے کے وزیر اسلم کے گھر آئے۔ انہوں نے اسلم کی بہت تعریف کی اور حکومت کی طرف سے اسلم کو پانچ لاکھ نقد انعام، اسلم کے والد کا ہاسپٹل میں مفت علاج، اسلم کی تعلیم کا تمام خرچہ اور ہر ماہ گھر کے اخراجات کیلئے 10 ہزار روپئے دینے کا اعلان کیا۔ اسلم نے کالج میں اور اس کی چھوٹی بہن نے اسکول میں داخلہ لے لیا اور خوب دل لگا کر پڑھنا شروع کردیا۔ اسلم کے نیک جذبے اور بہادری سے ان سب کے حالات بہت اچھے ہوگئے اور یہ سب ہنسی خوشی زندگی گذارنے لگے۔

’’مجھے ڈر لگتا ہے!‘‘
کل رات بستر پہ مجھے اِک آہٹ نے چونکا دیا۔ اِک نرم ہوا کا جھونکا، میری پیشانی سے چھو گیا۔ آنکھ کھلی تو ماں کو دیکھا۔ کچھ ہلتے لب، کچھ پڑھتے لب، میں دھیرے سے مسکرا دیا… ماں آج بھی اُٹھ کر راتوں کو میری پیشانی کو چومتی ہے اور اپنے حصے کی بھی سب دعائیں مجھ پر پھونکتی ہے۔بس اتنا یاد ہے مجھے کہ اِک عرصہ پہلے بچپن میں، بس اِک بار میں نے کہا تھا : ’’ ماں مجھے ڈر لگتا ہے! ‘‘۔