ڈاکٹر سید بشیر احمد
بہادر شاہ ظفرؔمغلیہ دور کے آخری تاجدار تھے ۔ وہ بادشاہ اکبر شاہ ثانی کی اولاد اول تھے ۔ اکبر شاہ ثانی کے انتقال کے بعد ان کے سرپر تاج شاہی رکھا گیا ۔ بہادر شاہ ظفرؔ وہ بدقسمت بادشاہ تھے جو اس وقت تخت کے وارث ہوئے جبکہ مغلیہ حکومت روبہ زوال تھی ۔
بہادر شاہ ظفرؔ نے صنف غزل کے علاوہ ترجیع بند ، مخمس ، مسدس ، قطعات ، نعتیں ، رباعیات ، سہرے اور پنکھے بھی نظم کئے ۔ آخری زمانے میں انہوں نے ٹھمریاں بھی لکھیں ۔ وہ بے لطف قافیوں ، خشک ردیفوں اور سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے پر قدرت رکھتے تھے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے عام فہم اور سلیس زبان میں بھی شعر گوئی کی ہے ۔ محاورہ بندی ، رعایت لفظی ، محاکات اور سراپا نگاری میں وہ مہارت رکھتے تھے ۔ بہادر شاہ ظفرؔ فارسی ، برج بھاشا اور اردو کے خوش گو شاعر تھے ۔ ان کی شاعری تصوف ، خاک وطن سے محبت اور پند و نصائح پر محیط ہے ۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ اپنے وطن میں پیوند خاک ہوں لیکن مشیت ایزدی کے آگے کس کی چلتی ہے ، اس بات کا اتنا بڑا قلق تھا چنانچہ وہ کہتے ہیں ۔
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
غزل کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہر شعر میں ایک نیا مضمون باندھا جاتا ہے ۔ ایک غزل کے مطلع میں ظفر دنیا کی بے ثباتی کے تعلق سے کہتے ہیں۔
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
بلبل کو پاسباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید تھی لکھی فصلِ بہار میں
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جابسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
اسی غزل کے مزید کچھ اشعار ملاحظہ ہوں
اک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادماں
کانٹے بچھادیئے ہیں دل لالہ زار میں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہوگئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنجِ مزار میں
اپنی مسلسل بدنصیبی کا جو خاکہ انہوں نے کھینچا ہے اسے ملاحظہ فرمایئے ؎
نہ دبایا زیر زمیں انہیں ، نہ دیا کسی نے کفن انہیں
نہ ہوا نصیب وطن انہیں ، نہ کہیں نشان مزار ہے
انسان کی آزمائش عیش کے زمانے میں ہوتی ہے ۔ جب کہ وہ یاد خدا سے غافل ہوجاتا ہے یا وہ جب مغلوب الغضب ہوتا ہے تو خوف خدا سے غافل ہوجاتا ہے
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیئے گا ، وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے طیش میں یادِ خدا نہ ، رہی جسے عیش میں خوف خدا نہ رہا
ایسٹ انڈیا کمپنی کے پرچم تلے انگریز تجارت کے نام سے ہندوستان وارد ہوئے اور وقتاً فوقتاً مختلف رعایتیں تاجداران مملکت سے حاصل کرکے اور اپنی سازشوں سے اس ملک کو بالآخر غضب کرلیا ۔ پہلی جنگ آزادی کے ناکام ہوجانے کے بعد دہلی اوردہلی میں رہنے والوں پر جو افتاد پڑی اس کو بہادر شاہ ظفرؔ نے بڑے درد انگیز انداز میں پیش کیا ۔ ملاحظہ فرمایئے ؎
نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
یہ قصہ ہے رونے رلانے کے قابل
اجاڑے لٹیروں نے وہ قصر اس کے
جو تھے دیکھنے اور دکھانے کے قابل
نہ گھر ہے نہ در ہے رہا اک ظفرؔ ہے
فقط حالِ دہلی سنانے کے قابل
بہادر شاہ ظفرؔ کی ایک مرصع غزل ملاحظہ فرمایئے جس کا ہر شعر حاصل غزل ہے جس میں انہوں نے اپنی بربادیوں کا ذکر کیا ہے ؎
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں ، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے ، میں وہ مشتِ غبار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا ، مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا ، میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں ، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آکے شمع جلائے کیوں ، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاطرانہ چالوں سے حکومت مغلیہ زوال پذیر ہوگئی اور بہادر شاہ ظفرؔ تاج و تخت سے محروم ہوگئے ، ان سارے واقعات کی تصویر کشی ملاحظہ ہو ؎
کیوں نہ تڑپے وہ اب دام میں صیاد کے
بیٹھنا دو دو پہر اب تخت پر جاتا رہا
دنیا کی بے ثباتی کے تعلق سے ظفرؔ کہتے ہیں ؎
ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا
دیکھا جو کچھ سو خواب سا دیکھا
ایک شخص نے حضرت ذوالنون مصریؒ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ ایسی وصیت کیجئے جو ہمیشہ میرے کام آتی رہے ۔ فرمایا بس یہ خیال رکھنا کہ کہیں لوگوں کے عیوب کی چھان بین تم کو اپنے عیبوں پر نظر ڈالنے سے غافل نہ کرے ۔ اسی نصیحت کو بہادر شاہ ظفرؔ نے شعر میں یوں باندھا ہے
نہ تھی اپنے حال کی جب خبر تھی اوروں کے عیب و ہنرپر نظر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
بہادر شاہ ظفرؔ عشق کی دولت سے نوازے جانے اور عرصہ حیات کے مختصر ہونے پر کہتے ہیں ؎
نشہ عشق کا گر ظفر دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
بارگاہ ایزدی میں بہادر شاہ ظفرؔ کا معروضہ ملاحظہ ہو
ظفرؔ کو باز رکھ اعمال بد سے
خطا بخشا کرم گارا الہا
ظفرؔ کے کلام میں شوخی ملاحظہ فرمایئے
کیا بات یاد آگئی اس کو اے ظفرؔ
وہ یک بے یک جو سن کے مرا نام ہنس پڑا
بہادر شاہ ظفرؔ کی مشہور غزل جو زبان زد خاص و عام ہے اس کا مطلع ملاحظہ ہو
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق ہے کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا