رشیدالدین
7 مودی اور نواز شریف …کامیاب اداکاری
7 کٹھمنڈو سے کشمیر کی انتخابی مہم
عام طور پر فلم ایکٹرس کو سیاستدانوں کے رول میں دیکھا جاتا ہے لیکن جب سیاستداں خود اداکاری پر اتر آئیں تو پھر فلم ایکٹرس کی تو چھٹی ہوجائے گی۔ نیپال میں 18 ویں سارک چوٹی کانفرنس کے موقع پر ہند۔پاک وزرائے اعظم نے اداکاری کے کچھ ایسے جوہر دکھائے کہ نامور فلمی ہستیاں بھی عش عش کرنے پر مجبور ہوئی ہوں گی۔ نریندر مودی اور نواز شریف کی ملاقات کا منظر قید کرنے کیلئے ہزاروں کیمرے بے چین تھے لیکن ان دونوں نے اپنی اداکاری کے ذریعہ فوٹو اور ویڈیو کیمروں کو شکست دیدی۔ فلمی اداکار شہرت اور دولت کیلئے اداکاری کرتے ہیں لیکن سارک چوٹی کانفرنس کے شہ نشین سے دنیا بھر کے سامنے یہ ایکٹنگ ووٹ اور حکومت کیلئے تھی۔ اسے بھی شہرت کے حصول کا انوکھا انداز کہا جائے گا کہ مودی اور نواز شریف بناوٹی بیگانگی اور جان کر بھی انجان رہتے ہوئے دنیا بھر کے اخبارات اور نیوز چینلس کی توجہ کا مرکز اور سرخیوں میں رہے۔ اگر دونوں قائدین کی ملاقات طئے ہوتی تو شاید انہیں اس قدر پبلسٹی حاصل نہ ہوتی۔ یہ سب کچھ آخر کس لئے تھا اور پس پردہ کیا عوامل کار فرما تھے؟ اس سوال کا جواب تلاش کریں تو پتہ چلے گا کہ جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات اس ڈرامہ کی اصل وجہ تھی۔ نریندر مودی نے کٹھمنڈو سے جموں و کشمیر انتخابات کیلئے بی جے پی کی انتخابی مہم چلائی اور نواز شریف نے معاون و مددگار کی حیثیت سے مکمل تعاون کیا۔
علاقائی تعاون کے نام پر قائم کردہ ادارہ سارک میں تلخی و ناراضگی کی گنجائش کہاں ہے؟ انتخابات میں سیاسی فائدہ کے حصول کے سلسلہ میں نریندر مودی جیسے مہارت حاصل کرچکے ہیں اور عام انتخابات پھر مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی چناؤ میں مودی نے اپنی اس صلاحیت کا لوہا منوایا۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات سے قبل کونسا قدم پارٹی کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ نریندر مودی دیش میں ہوں یا ودیش سیاسی فائدہ کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑتے۔ دو روزہ چوٹی کانفرنس کے پہلے دن دونوں وزرائے اعظم میں دوریاں اور پھر دوسرے دن گرم جوشی سے مصافحہ اور بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کو کس طرح حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ وہ قائدین جو ایک دن قبل 3 گھنٹے شہ نشین پر ساتھ رہیں لیکن خیرسگالی ملاقات توکجا ایک دوسرے سے آنکھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا، اچانک کیا بات ہوگئی کہ کھلکھلاکر ہنستے ہوئے گفتگو کرنے پر مجبور ہوگئے۔ عوام کیلئے یہ طئے کرنا مشکل ہوچکا ہے کہ پہلے دن کی دوری سچی تھی یا پھر یہ مصافحہ ۔ دونوں وزرائے اعظم کے جذباتی مصافحہ نے نئی دہلی کے اس مصافحہ کی یاد تازہ کردی جب نواز شریف نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ کیا وہ تمام مسائل حل ہوگئے جن کی بنیاد پر نریندر مودی نے نواز شریف سے رسمی ملاقات سے بھی انکار کیا تھا۔ حتیٰ کہ شہ نشین پر ایک صف میں رہ کر بھی آنکھ ملانا گوارا نہیں کیا ۔ یقیناً جب سے نریندر مودی وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے ہیں، انہوں نے سیاسی مقصد براری کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 125 سال سے زائد تاریخ کے حامل اور عظیم قومی قائدین کی وراثت رکھنے والی کانگریس پارٹی بھی مقابلہ میں ٹک نہیں سکی۔ نریندر مودی اور مرکزی حکومت کو ایک ہی دن میں پاکستان کے ساتھ رویہ میں نرمی کی وجوہات سے قوم کو واقف کرانا چاہئے ۔
دراصل سارک کانفرنس کا پہلا دن ممبئی میں 26/11 دہشت گرد حملے کے 6 سال کی تکمیل کا دن تھا اور مودی نہیں چاہتے تھے کہ اس دن پاکستانی وزیراعظم سے مصافحہ کرتے ہوئے مخالفین کو تنقید کا موقع فراہم کریں۔ چونکہ اس حملے کے سلسلہ میں پاکستان راست طور پر ذمہ دار مانا جاتا ہے اور ہندوستانی حکومت پاکستان میں مقیم حقیقی سازشیوں کے خلاف کارروائی کی مانگ کر رہی ہے۔ یقیناً اس دن مودی کا نواز شریف سے مصافحہ کرنا اپوزیشن نہ سہی سنگھ پریوار کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔ نواز شریف نے اس معاملہ میں بھی مودی سے مکمل تعاون کیا۔ نواز شریف دو مرتبہ مودی کے قریب سے گزرے ، اگر وہ چاہتے تو نریندر مودی کی جانب متوجہ ہوسکتے تھے لیکن دونوں قائدین نے ایسی پرفیکٹ ایکٹنگ کی جیسے ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں لیکن دوسرے دن ہی ملاقات میں یہ محسوس نہیں ہورہا تھا کہ کبھی دونوں کے درمیان تلخی رہی ہو۔ ایک دن قبل جو ایک دوسرے کو دیکھنے تیار نہیں تھے، دوسرے دن ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑنے تیار نہیں تھے۔ ملاقات کے انداز اور باڈی لینگویج سے محسوس ہورہا تھا جیسے کامیاب اداکاری پر ایک دوسرے کو شاباشی دے رہے ہوں۔ الغرض مودی اور نواز شریف نے پہلے دن شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور بالی ووڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن بھی یقیناً اس اداکاری پر ششدر ہوئے ہوں گے۔ کسی نے کیا خوب تبصرہ کیا کہ مودی اور نواز شریف کو اداکاری کے زمرہ میں مشترکہ طور پر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا جانا چاہئے ۔
کشمیر کے اسمبلی چناؤ میں کامیابی اور 44+ کے نشانے کے تحت سارا ڈرامہ کیا گیا۔ مودی کے پیش نظر جموں اور لداخ کے رائے دہندے تھے جو پارٹی کی کامیابی میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ وادی کے مسلم اکثریتی حلقوں کے رائے دہندوں کو خوش کرنے کیلئے بی جے پی نے دفعہ 370 کو انتخابی منشور میں شامل نہیں کیا جبکہ یہ مسئلہ لوک سبھا کے انتخابی منشور میں شامل تھا۔ کشمیر میں بی جے پی حکومت کے قیام کیلئے دفعہ 370 کو بھلاکر ترقیاتی ایجنڈے کی بات کی جارہی ہے۔ نریندر مودی کی حلف برداری سے لیکر آج تک مختلف مراحل پر پاکستان نے سیاسی مقصد براری میں مکمل تعاون کیا ہے ۔
اس اعتبار سے مہاراشٹرا اور ہریانہ چناؤ کے وقت سرحدوں پر کشیدگی میچ فکسنگ کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ نریندر مودی جنہوں نے اپنی حلف برداری میں نواز شریف کی شرکت یقینی بنانے سارک ممالک کے دیگر سربراہان کو مدعو کیا اور نواز شریف نے فوری طور پر دعوت نامہ قبول کرلیا تھا۔ دہلی میں دونوں قائدین ایک دوسرے سے ایسے ملے جیسے دو بچھڑے ہوئے دوست ملتے ہیں۔ پھر اب مذاکرات سے انکار کا ڈرامہ کیوں ؟ آخر کس بات کو حقیقت سمجھا جائے ۔ مودی کی دعوت اور نواز شریف کی حلف برداری میں شرکت کو یا پھر کٹھمنڈو میں ناراضگی کی اداکاری کو ۔ سارک کا استحکام اور وجود ہندوستان اور پاکستان کے سبب ہے۔ جب ملنا ہی نہیں تھا تو پھر چوٹی کانفرنس کے انعقاد کی کیا ضرورت تھی اور پھر مودی نے شرکت کیوں کی؟ وزرائے اعظم کی ملاقات جب طئے نہیں تھی تو پھر سشما سوراج نے سرتاج عزیز سے ملاقات کیوں کی ؟ اتنا ہی نہیں جب آئندہ سارک کانفرنس پاکستان میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو ہندوستان نے مخالفت کیوں نہیں کی۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ دو سال بعد ہندوستانی وزیراعظم پاکستان جائیں گے۔ سارک چوٹی کانفرنس کے موقع پر دونوں اہم ممالک کی یہ ڈرامہ بازی دیگر رکن ممالک اور علاقہ کے عوام کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ دونوں کی ہٹ دھرمی نے کئی اہم معاہدات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کردی۔ پاکستانی ہائی کمشنر سے حریت قائدین کی ملاقات کو لیکر ہندوستان مذاکرات سے علحدگی اختیار کرچکا ہے۔ حالانکہ یہ ملاقات پہلی مرتبہ نہیں ہوئی۔
اس سے زیادہ سنگین مسئلہ تو اس وقت تھا جب حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کیا گیا تھا۔ سرحد پر ہندوستانی سپاہیوں کے سر قلم کرنے کا سانحہ اس وقت تازہ تھا لیکن بی جے پی نے اسے فراموش کرتے ہوئے نواز شریف کو دعوت دی۔ حالانکہ اپوزیشن میں رہ کر سپاہیوں کے سر قلم کرنے کے واقعہ پر بی جے پی نے خوب سیاست کی تھی اور پاکستان سے جنگ کی سفارش کی تھی۔ حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی سپاہیوں کے سر قلم کرنے کے واقعہ کو کیوں بھلا دیا گیا ؟ اسے محض اتفاق سمجھا جائے یا کچھ اور جب بھی ریاست کے چناؤ قریب ہوں ، سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے چناؤ سے قبل سرحد پر کشیدگی عروج پر تھی لیکن چناؤ کے ساتھ ہی دونوں طرف بندوقیں خاموش ہوگئیں۔ وزیراعظم کے دورہ کشمیر سے عین قبل جموں میں دہشت گرد حملہ ، پولیس اور انٹلیجنس ایجنیسوں کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ بی جے پی اس واقعہ کا یقینی طور پر سیاسی استحصال کرے گی۔ کب تک دونوں ممالک کے حکمراں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کریں گے؟ دیوار برلن کے ڈھائے جانے اور دونوں جرمنی کے اتحاد کی سلور جوبلی پر عوام نے جشن منایا لیکن اسی وقت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی دیوار مزید بلند کی جارہی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام محبت اور دوستی میں استحکام کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ تہذیب ، ثقافت ، اقدار حتیٰ کہ مسائل میں یکسانیت رکھنے والے دونوں ملکوں کو غربت ، بیماری اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے ۔
ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے حکمراں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے لاکھ سیاست کریں لیکن انہیں بات چیت کی میز پر آنا ہی پڑے گا۔ صرف مذاکرات کے ذریعہ ہی دونوں ممالک تنازعات حل کرسکتے ہیں۔ دونوں نیوکلیئر طاقتیں ہیں لہذا ان میں جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکمرانوں کو سیاست کرنے کے بجائے سنجیدگی سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے ۔ یہی دونوں ممالک کے حق میں ہوگا۔ جس طرح کشمیر میں عوامی تائید حاصل کرنے دفعہ 370 کو برفدان کی نذر کردیا گیا، اسی طرح دیگر متنازعہ مسائل سے بی جے پی کو دوری اختیار کرنی ہوگی۔ دراصل معلق اسمبلی کی صورت میں نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کی تائید حاصل کرنے اور مخالف بی جے پی ووٹ دیگر جماعتوں کو ملنے سے روکنے کی حکمت عملی کے تحت دفعہ 370 کو عارضی طور پر ایجنڈہ سے دور رکھا گیا ہے۔ کٹھمنڈو میں مودی اور نواز شریف کی ڈرامہ بازی پر بشیر بدر کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجھک گئی