تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
مسلمانوں کو مبارکباد دینے کی جسارت نہیں کرسکتا البتہ ان کے مسلم لیڈروںکو مبارک جن کی سیاسی غلامی نے مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں، سرکاری نوکریاں اور صنعتوں کے قیام کے اجازت نامے دینے کے بجائے آٹو رکشا کی چابیاں تھمادی ہیں۔ تلنگانہ کے تیسرے بجٹ میں اپنا مستقبل تلاش کرنے والے مسلمانوں کو شدید مایوسی ہوئی ، یہ بجٹ سرکاری خزانہ کے خالی ہونے اور ہاتھ میں کشکول کی نوبت لانے کے لئے کافی ہے۔ لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا وعدہ کرنے والی تلنگانہ حکومت کو صنعت و حرفت کی ترقی کی فکر بھی ہے۔ کے جی تا پی جی تعلیم کا ذکر بھی فراموش کردیا گیا۔ اس وقت مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سیاستداں ایسا نقار خانہ بن چکے ہیں جس میں بھانت بھانت کے طوطی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ بھارت ماتا کی جئے کی طوطی بھی ان دنوں زور سے بولی جارہی ہے۔ ہر مسلم لیڈر اپنے تئیں طوفان اُٹھانے کے درپے ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی کے آلۂ کار بن کر’ تو مارے جیسا کر میں روئے ویسا کرتا ہوں ‘کے مصداق ایک ایسی نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ پہلے سے ہی بے شمار سازشوں میں گھرے ہوئے مسلمانوں کو نئی سازش کا شکار بنادے گی۔ اب مسلمان اپنے حقوق کیلئے آواز بھی نہیں اٹھاسکیں گے۔
تلنگانہ میں 12فیصد تحفظات کے مطالبہ کو منوانے کی ہمت جتانے کی کوشش کرنے والوں کو دوسرے طریقہ سے ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی انہی کے درمیان موجود ان کے لیڈروں نے چال چلی ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کی آس و اُمید کا گلہ گھونٹنے کے لئے یہی کافی ہے کہ انہیں ملک کا غدار قرار دیا جائے کیونکہ ان کے لیڈروں نے بھارت ماتا کی جئے کہنے یا نہ کہنے کا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ جن مسلمانوں نے ہمت کرکے حکومت تلنگانہ کے وعدہ 12فیصد مسلم تحفظات پر عمل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں ان کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں کی پسماندگی کی صورتحال سے واقفیت رکھنے کے باوجود حکومت انہیں صرف وعدوں کا لالی پوپ دے رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جب چند مسلمانوں کو آٹوز چلاتے ہوئے روزگار فراہم کرنے کا حکومت کی دانش میں قابل فخر قدم اٹھایا ہے تو بلا شبہ آٹوز کی چابیاں حاصل کرنے والوں کے گھروں میں خوشحالی کی لہر دوڑی ہوگی۔ کاش! ان نوجوانوں میں سرکاری ملازمتوں کے تقرر نامے دیئے جاتے تو تلنگانہ حکومت کے وعدہ کی ایک پہلی کوشش قرار پاتی۔ مسلمانوں کی پسماندگی کا پیمانہ ناپنے والے کئی کمیشنوں نے اب تک اپنی سفارشات کے ہزاروں صفحات کالے کردیئے ہیں لیکن مسلمانوں کی زندگیوں میں کوئی روشنی نہیں آئی۔ جن صفحات کی سیاہی کالی ہے اس میں سچائی کی سفیدی چھن کر اُمڈ رہی ہے کہ واقعی مسلمانوں کی اکثریت پسماندگی کا شکار ہے۔
تلنگانہ حکومت نے سدھیر کمیشن بھی تشکیل دیا تھا جس کی جانب سے رپورٹ پیش کرنے کی آخری تاریخ 31مارچ 2016 طئے ہوئی تھی اس کی مدت میں توسیع دے کر مسئلہ کو تعطل کے حوالے کردیا گیا، لیکن یہ کمیشن بھی دیگر کمیشنوں کی رپورٹس کی طرح سرد خانے کی نذر ہوجائے تو شکایت برقرار رہے گی۔ 3مارچ 2015کو تشکیل دیئے گئے اس کمیشن نے مسلمانوں کو سماجی ، معاشی اور تعلیمی پسماندگی کا جائزہ لیا ہے۔ ریاست کے تقریباً اضلاع کا احاطہ کرلیا گیا ہے مگر تحفظات کی فراہمی کا دارومدار اس کمیشن کی سفارشات پر نہیں بلکہ حکمراں کی نیت پر ہوتا ہے۔ یہ حکومت بھی 12فیصد تحفظات کے لئے قانونی جنگل میں بھٹک جائے گی۔ مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں خرابی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ان کی سیاسی طاقت نے خود ان کے حق میں خلافِ مفادات کام کیا۔ مسلمانوں کے اندر انتشاری کیفیت اور فرقہ پرستانہ واقعات کے ذریعہ ایشوز پیدا کرکے اُلجھا کر رکھا گیا اور رفتہ رفتہ انہیں فرقہ پرستوں کی سازشوں کے جال میں پھانس دیا۔ مرکز سے لیکر ریاستی سطح تک مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو ختم کرکے ایک ٹولہ کی حد تک محدود کرکے رکھ دیا گیا،اس لئے مسلمانوں میں ایسے کئی طاقتور، دولتمند، صاحب ثروت لوگ ہونے کے باوجود سیاسی عملی زندگی کے گہرے پانی میں اُترنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی کسی کو ان پانیوں میں اُترنے کی جرأت معلوم ہوتی ہے۔فرقہ پرستوں کو سر پر مسلط کرنے کے اسباب پیدا کرنے کے بعد اب بھارت ماتا کی جئے کا تنازعہ کھڑا کرکے نیا ڈرامہ شروع کردیا گیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو ایسی سرگوشیوں سے ہونہار رہنا چاہیئے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں فرقہ پرستوں کا اقتدار ہو اور قانون کو بائی پاس کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہو تو جس معاشرہ میں صحیح اور غلط کی تمیز مٹادینے کی کوشش ہورہی ہو۔ آر ایس ایس جیسی تنظیم ملک کے دستور اور جمہوریت کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے مسلمانوں کے نام نہاد لیڈروں کو اپنا آلۂ کار بناکر نت نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسانی جسم اذیت کے ایک خاص درجہ کی تاب نہیں لاسکتا لیکن اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ انسانی ذہن کو تشدد کا کوئی درجہ فتح نہیں کرسکتا۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کو ایسی ہی ذہن سازی کی ضرورت ہے جس میں دشمنوں کے ہزارہا منصوبوں اور تشددکی پالیسیوں پر فتح حاصل کرسکے۔ اس لڑائی میں آواز اور شور شرابہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خاموشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمان کو اپنی سرزمین اور اپنے ملک سے محبت ہے۔
اس ملک کے مسلمانوں کی والہانہ محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ سازش رچانے والوں اور فرقہ پرستوں کو خاموشی سے تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت ماتا کی جئے کی شور کی ابھی تو پہلی صدا سامنے آئی ہے۔ ابھی اس شور میں اور اضافہ ہوگا کہ کئی چور شور مچائیں گے۔ راجیہ سبھا میں اپنے 6سال کی میعاد پوری کرنے والے ارکان میں نغمہ نگار و شاعر جاوید اختر بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے وداعی خطاب میں اس شور یعنی بھارت ماتا کی جئے اوردستور و جمہوریت کے موضوع پر کہا کہ ہندوستانی مسلمان کسی ایک مسلم لیڈر کی بیان بازی سے ملک دشمن نہیں کہلاتا، دستور نے اگر کسی مسلمان کو بھارت ماتا کی جئے کہنے کا پابند نہیں بنایا ہے تو پھر اس دستور نے کسی شہری کو شیروانی اور ٹوپی پہننے کیلئے بھی پابند نہیں کیا ہے۔ جاوید اختر نے کہا کہ میں ہندوستانی مسلمان ہوں اور میں بارہا بھارت ماتا کی جئے کہوں گا کیونکہ یہ میرا حق ہے کسی کا حکم یا ہدایت نہیں ہے۔ جاوید اختر کی تقریر کے بارے میں ہندوستانی مسلمانوں کا نقطہ نظر بھی مختلف ہوسکتا ہے لیکن حیدرآباد کے محلہ لیڈر کے حوالے سے تلنگانہ کے مسلمانوں کے بارے میں جو شبہات پیدا کئے جارہے ہیں یہ غلط ہیں۔ تلنگانہ کے مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کی تاریخ کے اوراق میں گم ہونے والی قوم بننے سے بچنا چاہیئے۔
مسلمانوں کو صرف آٹوز کی حد تک عزت دینے والی تلنگانہ حکومت اپنے ماباقی موافق اقلیتی اسکیمات پر صرف سطحی عمل آوری پر ہی اکتفاء کرے تو ایسی دھوکہ دہی کا مکمل سدباب کرنے کی حکمت عملی بنانی چاہیئے۔ یہ تو واضح ہے کہ مسلمانوں کو معاشی ترقی دینے کی باتیں ہی ہوں گی اس لئے
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کہ بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا
لہذا فرقہ پرستوں کے ساتھ جن لیڈروں نے اسٹراٹیجک پارٹنر شپ کرلی ہے، یہ مسلمانوں کی زندگی میں اِفراطِ زر کے ساتھ ساتھ اِفراطِ شر پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ حیدرآباد سے نکل کر اپنی سیاسی مارکیٹنگ کے لئے ایسے تشہیری حربے بلا شبہ مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان ایسی سیاسی مارکٹنگ کرنے والے لیڈروں کے اگزیکیٹیوزبننے سے گریز کریں گے یا اس کا حصہ ہوں گے۔
kbaig92@gmail.com