ظفر آغا
مودی حکومت نے ابھی حال ہی میں اٹل بہاری واجپائی اور مدن موہن مالویہ کو بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں لیڈر ہی جدید ہندو تاریخ کی اہم شخصیات ہیں ۔ اٹل بہاری واجپائی آزاد ہندوستان کی پہلی ایسی حکومت کے وزیراعظم تھے جو باقاعدہ ہندو مفاد کے نام پر قائم ہوئی اور اس نے ہندوستان میں پہلی بار آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈا نظام کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح مدن موہن مالویہ کہنے کو تو کانگریس پارٹی کے صدر تھے ، وہ ایک بار نہیں بلکہ آزادی سے قبل چار بار کانگریس کے صدر رہے ، لیکن تاریخی اعتبار سے مالویہ جی نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں اتنا نمایاں کردار نہیں ادا کیا ، جتنا اہم کردار انہوں نے ہندو سماج کو جگانے میں ادا کیا ۔ مدن موہن مالویہ ہندوستان کی پہلی اہم ہندو سیاسی اور سماجی تنظیم ہندو مہا سبھا کے بانی تھے ۔ یہ تنظیم نظریاتی اعتبار سے آر ایس ایس سے بہت قریب کہی جاسکتی ہے ۔ اس کا مقصد ہندوستان میں ہندوؤں کی سیاسی اورسماجی بالادستی کو قائم کرنا تھا ۔ پھر مدن موہن مالویہ کا دوسرا اہم کارنامہ حیات بنارس ہندو یونیورسٹی کا قیام تھا ۔ اس یونیورسٹی کا مقصد بھی ہندوؤں میں جدید اعلی تعلیم کو رائج کرنا تھا ۔ یعنی بنیادی طور پر مدن موہن مالویہ بھی اٹل بہاری کی طرح ایک ہندو لیڈر تھے ۔ یہی سبب ہے کہ ان دونوں کو مودی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا ہے ۔
مودی حکومت کے اس فیصلے سے یہ واضح ہے کہ حکومت ملک میں اگر ہر فرقہ کے اہم لیڈر کو نہیں تو کم از کم جدید ہندوستان کے ہندو لیڈروں کو نہ صرف عزت و احترام بخش رہی ہے بلکہ ہندو مفاد میں کارگر کانگریس پارٹی اور خود سنگھ پریوار کے اندر رہے ہندو لیڈروں سے اپنے تعلق کا اعلان کرکے ایک خاص اشارہ کررہی ہے ۔ اور وہ اشارہ یہ ہے کہ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہندو راشٹرا ہے اور یہاں پر ان شخصیات کا احترام ہوتا ہے جو ہندو مفاد میں کام کرتے ہیں خواہ وہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ۔ مثلاً بی جے پی نے باقاعدہ کانگریس لیڈر سردار پٹیل کو کم و بیش اپنا لیڈر مان لیا ہے ۔ گجرات میں کئی سو کروڑ روپئے کی لاگت سے وزیراعظم مودی پٹیل کا مجسمہ نصب کروارہے ہیں ۔ سردار پٹیل اور اندرا گاندھی کا یوم پیدائش نومبر کے مہینے میں اتفاقاً ایک روز ہی ہوتا ہے ۔ ہر سال اس موقع پر ملک کا ہر وزیراعظم اندرا گاندھی کی سمادھی پر جا کر ان کو خراج عقیدت پیش کرتا تھا لیکن اس بار وزیراعظم مودی اندرا کی سمادھی پر نہیں گئے جبکہ انہوں نے دہلی میں پٹیل کی مورتی پر جا کر اس پر ہار چڑھایا ۔ اس طرح مودی حکومت نے اس موقع پر بھی یہ اشارہ دیا کہ اب اس ملک میں سیکولر لیڈر نہیں بلکہ ہندو لیڈر کو برتری حاصل ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا مالویہ کو بھارت رتن دے کر یا پھر پٹیل کی شاندار آہنی مجسمہ بنواکر مودی حکومت ہندوستانی سیاست میں کوئی ایک نئی پہل کررہی ہے ۔ کیا وہ پہل یہی ہے کہ ہندوستان بنیادی طور پر ہندوؤں کا ملک ہے اور یہاں ہندوؤں کو باقی تمام قوموں پر افضلیت ہے ۔ جس کی شکل آر ایس ایس کا ہندو راشٹرا ہے ؟ اس سے جڑا دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا آر ایس ایس کا ہندو راشٹر نظریہ محض سنگھ کا نظریہ ہے یا پھر اس نظریہ کے تانے بانے جدید ہندوستان کی تاریخ میں شروع سے ہی پھیلے ہوئے ہیں ۔
اس پس منظر میں اگر ہندوستان کی جنگ آزادی پر نگاہ ڈالئے تو ایک بات یہ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ہندو سماج میں انگریزوں کی آمد کے بعد سے یہ خیال گھر کرگیا تھاکہ وہ اس ملک میں انگریزوں کے وقت سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے وقت سے غلام ہیں ۔ اسی نقطہ نگاہ سے ہندو سماج نے پہلے اپنے اندر طرح طرح کی اصلاحی تحریکیں شروع کیں، جس کے موجد سوامی ویویکانند اور راجا رام موہن رائے جیسے لوگ تھے ۔ راجا رام موہن رائے نے کلکتہ میں برہمو سماج کی بنیاد رکھی اور ہندو سماج کے لئے کام کیا ۔ کچھ عرصے بعد کلکتہ میں ہی اس نظریہ کو اور تقویت ملی جس میں کھل کر یہ بات سامنے آئی کہ ہندوستان بنیادی طور پر ایک ہندو راشٹرا ہے جہاں آزادی کے بعد ہندو بالادستی قائم ہونی چاہئے ۔ اس نظریہ کا پہلا عکس بنگال کے مشہور ناول نگار بنکم چندر چٹرجی کے تاریخی ناول ’’آنند مٹھ‘‘ میں ابھر کر آتا ہے ، جہاں سے وندے ماترم یعنی بھارت ماتا اور وندے ماترم جیسے نعرہ کا جنم ہوا، جس کو جنگ آزادی کے دوران کانگریس اور آر ایس ایس نے تسلیم کیا ۔
پھر اس نظریہ نے اور تقویت حاصل کی جس کے نتیجے میں ہندو مہاسبھا اور آریہ سماج جیسی تنظیموں کا قیام ہوا جس کے لیڈر کھل کر کانگریس پارٹی میں نمایاں کردار نبھاتے رہے ۔ پھر 1915 میں گاندھی جی افریقہ سے ہندوستان تشریف لائے اور انھوں نے اپنے کام کاج کے طریقوں سے جو طرز اپنایا اس میں ہندو تہذیب کو کھلی برتری حاصل تھی ۔ گو گاندھی جی نے نظریاتی سطح پر ہندو ۔ مسلم اتحاد پر زور دیا لیکن ان کا طرز عمل وندے ماترم کی برتری کی گواہی دیتا رہا ۔ اسی کے ساتھ ساتھ گاندھی جی نے 1947 میں ہندوستان کا بٹوارا منظور کرلیا لیکن وہ اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوںکو اپنی سطح پر کچھ ایسی مراعات حاصل ہوں ، جس سے ان کے مجموعی حقوق کا تحفظ ہوسکے ۔ اگر گاندھی جی یہ بات مان لیتے تو اس ملک میں تہذیبی سطح پر مسلم تہذیب اور مسلم حقوق کی بات بھی باقاعدہ طور پر منظور کرلی جاتی لیکن خود گاندھی جی سمیت پوری کانگریس اس بات پر راضی نہیں ہوئی ، جس کے نتیجے میں بٹوارا ہوا جو ایک غلط فیصلہ تھا ،جس کے ذمہ دار گاندھی جی اتنے ہی تھے ، جتنے جناح تھے۔
لب لباب یہ ہے کہ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کے اولین دور سے ہی ہندو سماج میں یہ فکر گھر کرگئی کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے اور تہذیبی طور پر محض ہندو ہی اس کے حقدار ہیں ۔ چنانچہ پوری جنگ آزادی کے دوران اس نظریہ کے نہ صرف تانے بانے نظر آتے ہیں بلکہ آزادی سے قبل سوائے جواہر لال نہرو کے کانگریس کے تمام اہم لیڈران بھی بنیادی طور پر ہندو مفاد اور ہندو تہذیب کی بالادستی کے حق میں کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ خواہ وہ مدن موہن مالویہ ہوں یا سردار پٹیل ، یا پھر گاندھی جی ۔ آزادی سے قبل کی کانگریس اور آر ایس ایس میں محض اتنا فرق نظر آتا ہے کہ آزادی آتے آتے کانگریس ایک جدید ہندوستان کے حق میں ہوگئی ،جس کے سبب جواہر لال اور دلت لیڈر بابا صاحب امبیڈکر کی کوششوں سے ہندوستان اپنی سطح پر ایک سیکولر ملک تو بن گیا جس میں آئینی سطح پر مذہب کی پابندی کے بغیر ہر شخص کو برابری کے حقوق تو حاصل ہوگئے ، لیکن ہندو سماج کا یہ تصور کہ تہذیبی طورپر ہندوستان ایک ہندو ملک ہے ، یہ خیال کانگریس کے پرچم تلے بھی قائم رہا ۔ مودی سرکار اب اسی نظریہ کو عملی جامہ پہنا کر ہندوستان کو آر ایس ایس کے ہندو راشٹرا نظریہ کے تحت باقاعدہ تہذیبی ، سیاسی اور سماجی سطح پر ایک ہندو مفاد کا راشٹر بنارہی ہے ۔ اسی لئے مہاسبھا کے بانی مالویہ جی کو اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ بھارت رتن سے نوازا گیا ہے ۔ کل کو اگر مودی حکومت نرسمہاراؤ کو بھارت رتن خطاب سے نوازے تو کوئی حیرت ناک بات نہیں ہوگی ، کیونکہ راؤ بھی تہذیبی سطح پر سنگھ نظریہ سے قریب تھے ۔