بھاؤ چڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ بازار گرے

رشیدالدین
اچھے دن کا وعدہ نریندر مودی اور بی جے پی کو مہنگا پڑا۔ مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت حکومت کے 100 دن کے بعد عوام کیلئے بھلے ہی اچھے دن نہیں آئے لیکن بی جے پی کے برے دنوں کا آغاز ضرور ہوچکا ہے۔ عوام نے اچھے دن کے آغاز کی امید میں 100 دن انتظار کیا لیکن جب کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے تو ضمنی انتخابات میں عوام نے بی جے پی سے بدلہ لے لیا۔ 9 ریاستوں میں لوک سبھا کی 3 اور اسمبلی کی 32 نشستوں کے ضمنی چناؤ کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ، خوش کن وعدوں اور ڈائیلاگ ڈیلیوری سے عوام کو زیادہ دنوں تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ فن خطابت کے مظاہرہ اور وعدوں کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن حکومت کے قیام کے بعد عمل کی ضرورت پڑتی ہے۔ 4 ماہ قبل عام انتخابات میں نریندر مودی جس طرح ڈائیلاگ ڈیلیوری سے عوام کا دل جیت رہے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عوام نے سکھایا کہ تقریر کرنا اور حکومت چلانا دو مختلف کام ہیں۔

صرف تقاریر سے حکومت نہیں چلتی اور حکومت چلانے والے تقاریر کا سہارا نہیں لیتے۔ اترپردیش، گجرات اور راجستھان پر سارے ملک کی نظریں تھیں کیونکہ لوک سبھا چناؤ میں یہ تینوں بی جے پی کے ناقابل تسخیر قلعے کے طور پر ابھرے تھے۔ ان تین ریاستوں کی 23 اسمبلی نشستوں میں بی جے پی کو 13 نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نریندر مودی کی ریاست گجرات اور بی جے پی زیر اقتدار راجستھان میں پارٹی کے قدم اکھڑنے لگے ہیں جبکہ لوک سبھا چناؤ میں ان دونوں ریاستوں کی تمام لوک سبھا نشستوں پر بی جے پی نے قبضہ کیا تھا۔ گجرات کی 26 اور راجستھان کی 25 لوک سبھا نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی، اترپردیش جہاں مودی کی مہم اور امیت شاہ کی انتخابی حکمت عملی نے بی جے پی کو 80 میں سے 73 نشستوں پر کامیابی دلائی تھی۔ چار ماہ میں بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ عام انتخابات میں اب تک کے سب سے کمزور مظاہرے کے بعد کانگریس پارٹی نے گجرات اور راجستھان میں غیر متوقع واپسی کی ہے جبکہ اترپردیش میں ’’پتا اور پتر‘‘ کی جوڑی نے بی جے پی سے عام انتخابات کی شکست کا بدلہ لے لیا۔ لوک سبھا میں بھاری اکثریت کے ساتھ مرکز میں بی جے پی نے حکومت تشکیل دی جس کے بعد سے اب تک مختلف ریاستوں میں 3 مراحل میں ضمنی چناؤ ہوئے اور تینوں میں بی جے پی کیلئے اچھی خبر نہیں رہی۔ جولائی میں اتراکھنڈ کی 3 اسمبلی نشستوں کے ضمنی چناؤ میں تمام پر کانگریس نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے لئے اچھے دنوں کا کھاتہ کھولا تھا۔ اس کے بعد اگست میں کرناٹک ، مدھیہ پردیش اور بہار میں بی جے پی کو عوام نے مسترد کیا اور تازہ ترین ضمنی چناؤ کے نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اپنے مضبوط گڑھ جیسے علاقوں میں بھی بی جے پی کی گرفت کمزور ہوچکی ہے۔ پارٹی کے نئے قومی صدر امیت شاہ اپنے پہلے امتحان میں ہی ناکام ہوگئے۔ وہ تین اہم ریاستوں میں کامیابی کو نریندر مودی کو سالگرہ کے تحفہ کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے لیکن مودی کیلئے سالگرہ کا دن رنگ میں بھنگ ثابت ہوا۔

اترپردیش جہاں لوک سبھا چناؤ میں مودی کی سونامی چل رہی تھی، ان کے حلقہ انتخاب وارانسی کے تحت آنے والے اسمبلی حلقے روہنیا پر سماج وادی پارٹی نے قبضہ کرلیا ۔ جس اسمبلی حلقہ میں سنگھ پریوار نے عبادت گاہ پر لاؤڈ اسپیکر کا تنازعہ کھڑا کیا تھا ، وہاں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی ۔ انتخابی نتائج درحقیقت عوام کے سیاسی شعور کا ثبوت ہیں۔ 100 دن کی حکمرانی میں مودی کی لہر اور ان کا جادو بھیکا پڑنا اپنی جگہ ہے تو دوسری طرف رائے دہندوں نے بی جے پی کی نفرت کی سیاست کو مسترد کردیا ۔ جس طرح عام انتخابات میں ایک مذہب کے ووٹ مستحکم کرتے ہوئے سیکولرازم ووٹ کی تقسیم کا فائدہ اٹھایا گیا تھا، اس مرتبہ یہ حربہ کام نہیں آیا۔ بہار کے تجربہ کے بعد یو پی ، گجرات اور راجستھان میں سیکولر ووٹ متحد ہوئے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کی حکومت کی دو رخی پالیسی اور قول و فعل میں تضاد کو رائے دہندوں نے محسوس کرلیا ہے۔ عام انتخابات کی انتخابی مہم اور وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد مودی نے تمام طبقات کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کی اور ’’سب کا ساتھ۔ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ دیا تھا۔ انہوں نے اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے پارٹی قائدین پر روک لگانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے 10 برس تک فسادات کو فراموش کرنے کی اپیل کی لیکن یوگی ادتیہ ناتھ کو اترپردیش میں ضمنی چناؤ کے لئے پارٹی کا اسٹار کمپینر بنایا گیا۔ ادتیہ ناتھ ، ساکشی مہاراج اور توگاڈیہ جیسے قائدین کو نفرت عام کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ لو جہاد اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں اور دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا اور مودی خاموش تماشائی بنے رہے۔ نریندر مودی یہ بھول گئے کہ انہوں نے ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کئے تھے اور سیکولر ووٹ کی تقسیم سے انہیں فائدہ پہنچا۔ ضمنی چناؤ میں بی جے پی کی ہزیمت کے بعد بیشتر سیاسی مبصرین اسے مودی کی مقبولیت میں کمی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ اس مسئلہ پر ہماری رائے مختلف ہے۔ اگر مودی کی واقعی مقبولیت ہوتی تو بی جے پی کو ملک میں صرف 31 فیصد ووٹ حاصل نہ ہوتے۔ 31 فیصد ووٹ سے حکومت کی تشکیل کو مقبولیت میں شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا بی جے پی کی شکست نفرت کی سیاست پر دوہرے معیارات اور عدم کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ 100 دن میں ہی عوام حکومت سے مایوس ہوگئے اور بار بار وعدے عوام کو گالی کی طرح محسوس ہونے لگے۔ نریندر مودی کی دہلی منتقلی کے ساتھ ہی گجرات میں بی جے پی کمزور پڑنے لگی ہے۔ کانگریس نے وہاں واپسی کرتے ہوئے بی جے پی سے تین نشستیں چھین لی۔ اسی طرح راجستھان میں 4 میں سے 3 نشستوں کو کانگریس نے بی جے پی سے چھین لیا۔

جارحانہ فرقہ پرستی کی سیاست کے ذریعہ ضمنی انتخابات میں کامیابی کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کے دوہرے معیارات کو دیکھتے ہوئے عوام یہ طئے نہیں کر پارہے ہیں کہ بی جے پی کا چہرہ کون ہے۔ مودی ۔ یوگی یا پھر امیت شاہ ؟ جس طرح نفرت کے ایجنڈہ کے ذریعہ یوگی ادتیہ ناتھ کو میدان میں اتارا گیا ، اس کا عوام پر الٹا اثر ہوا۔ عوام فرقہ وارانہ اور نفرت کی سیاست سے عاجز آچکے ہیں۔ اس کا ثبوت ان حلقوں میں بی جے پی کی شکست ہے جہاں ادتیہ ناتھ نے مہم چلائی تھی۔ پانچ اسمبلی حلقوں میں ادتیہ ناتھ نے مہم چلائی جن میں 4 میں بی جے پی کو شکست ہوئی ۔ نریندر مودی نے صدارتی انتخاب کی طرز پر انتخابی مہم چلاتے ہوئے ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کیا تھا لیکن ان کی سیاسی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کا ایجنڈہ کچھ اور ہی ہے۔ وہ سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ناپاک عزائم رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے تمام کٹر نظریات کے حامل قائدین کو اہم ذمہ داریاں دی گئیں۔ ضمنی چناؤ کے نتائج کے ذریعہ عوام نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو پیام دیا ہے کہ اب نفرت کی سیاست نہیں چلے گی۔ ملک کے عوام کو پیار ، محبت ، امن اور ترقی کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان اب بدل چکا ہے، فرقہ پرستی نہیں بلکہ ترقی کا نعرہ ہی چلے گا۔ عوام نے بی جے پی اور سنگھ کو آگاہ کردیا کہ انہیں اپنی جاگیر تصور نہ کریں کہ جب چاہا ، جیسے چاہا استعمال کرلیا ۔ ضمنی چناؤ کے نتائج سے ون میان شو ماسٹر مودی اور ان کے وزیر باتدبیر امیت شاہ کو بھی زبردست دھکا لگا ہے جو سارے ملک پر حکمرانی اور سنگھ کے ایجنڈہ کو مسلط کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اگر اترپردیش کے نتائج بی جے پی کے حق میں ہوتے تو اکھلیش یادو حکومت پر استعفیٰ کیلئے دباؤ بنایا جاتا لیکن اب بی جے پی اپنی شکست کا چہرہ چھپانے کیلئے مختلف بہانے تلاش کر رہی ہے۔ آئندہ ماہ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات ہوں گے، اس کے بعد جموں و کشمیر ، جھارکھنڈ اور پھر بہار میں بی جے پی کو امتحان سے گزرنا پڑے گا۔ اگر مہاراشٹرا میں سیکولر ووٹ متحد ہوں تو بی جے پی اور شیوسینا کا اقتدار کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ حالیہ نتائج نے غرور و تکبر کے پیکر امیت شاہ کو مہاراشٹرا میں شیوسینا کے آگے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ سنگھ پریوار نے بی جے پی حکومت کی آڑ میں ملک میں نفرت کی جو کھیتی کی تھی، 100 دن میں وہ سوکھنے لگی ہے۔ سنگھ کو جان لینا چاہئے کہ مذہبی رواداری اور اتحاد ملک کی روایات اور پہچان ہے، اسے متاثر کرنے والی کسی بھی طاقت کا مستقبل دیرپا نہیں رہتا۔ نریندر مودی کی 100 دن کی حکمرانی میں صرف زبانی جمع خرچ کے سوا عوام کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا۔

حکومت نے جن دھن اسکیم کے نام پر غریبوں کو ایک اور لالی پاپ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی اسکیمات سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا بلکہ اس کے لئے مہنگائی پر قابو پانا پڑے گا۔ ہندوستان میں رائے دہندوں کی اکثریت نوجوان ہیں جو اپنے مسائل کے سبب کافی بے چین ہیں اور وہ حکومت سے فوری نتیجہ چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں نے بھی 100 دن کے انتظار کے بعد بی جے پی کو اس کا مقام بتادیا۔ وزیراعظم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے جیسے حکومت کا کام کاج سنگھ پریوار کے سپرد کردیا ہے اور وہ داخلی امور سے زیادہ خارجی سطح پر مصروف نظر آرہے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد مودی نے اب تک ملک کی تمام ریاستوں کا دورہ تک نہیں کیا جبکہ اس سے زیادہ وہ بیرونی ممالک کے دورے کرچکے ہیں۔ اگر چیف منسٹر کو ملک کے مسائل جاننے میں دلچسپی ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ کم از کم چیف منسٹرس کا اجلاس ہی طلب کرتے۔ 100 دن میں مودی نے بھوٹان ، نیپال ، برازیل اور جاپان کا دورہ کیا۔ یا تو وہ بیرونی ممالک کا دورہ کر رہے ہیں یا پھر بیرونی مہمانوں کو ہندوستان کے دورہ کی دعوت دی جارہی ہے۔ کیا نریندر مودی وزیراعظم کم اور وزیر خارجہ زیادہ ہیں؟ کیا وزیراعظم کی ذمہ داری انہوں نے بی جے پی اور سنگھ پر چھوڑدی ہے ؟ الغرض ملک میں تبدیلی کا یہ رجحان مہاراشٹرا ، ہریانہ سے لیکر بہار کے اسمبلی انتخابات تک دیکھا جائے گا اور 2017 ء میں اترپردیش کے اسمبلی انتخابات بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔ بی جے پی کی موجودہ صورتحال پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
خواہشوں نے جو بنائے تھے وہ مینار گرے
بھاؤ چڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ بازار گرے