خیر النساء علیم
فیشن ڈیزائننگ کا کورس مکمل کر کے شیبا نے اپنا ایک بوٹیک شروع کردیا تھا اور بہت کم عرصہ میں اپنی انوکھی اچھوتی ڈیزائننگ سے اس نے کافی نام اور پیسہ کما لیا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ مصروف سے مصروف تر ہوتی جارہی تھی۔ وہ تو اپنے کام میں مصروف و مگن ہوچکی تھی مگر امی کی فکر جہاں کی تہاں تھی۔ وہ اسے دیکھ دیکھ کر آہیں بھرا کرتیں اور اس وقت تو ان کی آہوں کو الفاظ بھی مل جاتے تھے ۔ جبکہ اس کی ہم عمر کسی لڑکی کی شادی کی خبر پاتی تھیں۔ ابوجی، دونوں بھابیاں اور بھائی لاکھ انہیں سمجھاتے ،تسلی دلاسے دیتے مگر وہ شیبا کی شادی کی فکر میں گھلتی ہی رہتی تھیں اور اس وقت تو یہ فکر اور بڑھ جاتی جب وہ کسی شادی میں شریک ہوتیں۔
’’آپ دل کیوں چھوٹا کرتی ہیں۔ کوئی ہماری بیٹی کا بھی سوالی ہوگا کسی دن‘‘۔ ابودلاسہ دے رہے تھے۔
’’کب آئے گا وہ دن،آئیگا بھی یا نہیں اب تو پچیس کی ہوچلی ہے میری بچی‘‘ اور وہ رو پڑیں۔۔
’’پچیس کی ہی ہوئی ہے کوئی پچاس کی تو نہیں ہوئی جو آپ یوں ہی رو رہی ہیں‘‘۔
بڑے بھیا قدرے چڑ کر کہنے لگے۔
’’اے تو ہوجائے گی پچاس کی بھی جو اگر تم باپ بیٹوں کے یہی لچھن رہے تو ‘‘امی بھڑک گئیں۔’’کتنا کہا تھا رشتہ ڈھونڈو۔ شادی کر و اس کی ۔ مگر نہیں تم لوگوں کو تو ہری ہری سوجھتی ہے ناں۔ بزنس کروا رہے ہیں مہارانی سے ۔
مہارانی ہو تی تو راج کرتی یا بزنس !۔ چھوٹے بھیابد بدائے تھے پھر بھی امی کی حساس سماعتوں نے سن لیا تھا۔
’’ہاں!ہاں! اڑاو مذاق میں میری ہر بات ۔تم لوگوں کی غیر سنجیدگی نے ہی تو شیر کیا ہے اسے‘‘۔ امی مزید گرم ہوئیں۔ ’’میں نے کیا کیا۔ بس سارا آیا گیا مجھ پر ہی ڈال دیا کریں آپ ‘‘۔ وہ جو دیر سے چپ بیٹھی تھی چڑ کر کھڑی ہوگئی ۔
’’تو اور کس پر ڈالوں۔ زیادہ ذمہ دار تو تم ہی ہونا۔ ذرا اپنی صورت پر توجہ دی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھ رہی ہوتی میں‘‘۔ ’’ہاںچاند سی شکل نکل آتی میری‘‘۔ وہ پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی۔ ’’اس لڑکی کی فکر میری جان لے کر ہی جائے گی‘‘۔ امی نے ایک آہ بھری ۔
’’اللہ نہ کرے امی کیسی باتیں کرتی ہیں آپ‘‘۔ دونوں بھابیاں ان کے پاس بیٹھ گئی تھیں ،مگر امی کو کسی طور قرار نہ تھا۔ قرارتو اس وقت ملا انہیں جب کہ ان کی امیدوں کے بر خلاف شہر کے سب سے معزز اور نامور خاندان سے شیبا کیلئے رشتہ آگیا۔
خان ملک درانی کا خاندان شہر کا سب سے متمول اور معزز خاندان مانا جاتا تھا اور جب ان کے سب سے چھوٹے بیٹے ملک تیمور درانی کا رشتہ شیبا کیلئے آیا تو پہلے تو گھر میں امی سمیت کسی کو بھی یقین نہ آیا مگر جب درانی فیملی کی خواتین نے گھر کی چوکھٹ ہی پکڑ لی تو ابو جی کو سنجیدگی سے سوچنا پڑا ۔ امی کی تو ظاہر ہے خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا ۔ دونوں بھائی اور بھابیاں بھی خوش تھے اور ابو جی کے کہنے پر تیمور درانی سے مل بھی چکے تھے ۔ اس کے بارے میں معلومات بھی کرلی تھی اور ابو جی کو سب ٹھیک ہے کی خبر بھی دے دی تھی۔
’’شیبا کے بوٹیک سے ہی ہم کپڑوں کی خریداری کرتے ہیں‘‘۔ جب بیگم درانی اپنی بیٹیوں اور بہووں کے ساتھ ان کے گھر شیبا کا رشتہ طئے کرنے آئیں تو بتا رہی تھیں۔ ’’اس کی ڈیزائننگ ہم سب کو بے حد پسند ہے۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ بوٹیک کے چکر لگانے سے اچھا ہے کہ اس ڈیزائنر کو ہی اپنے گھر لے آئیں۔
بھابی آپ لوگو ںنے دیکھا ہے تیمور کو‘ وہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
’’نہیں دیکھا ہے، لیکن کل دیکھ لیں گے جاکر۔ بیگم درانی بڑی جلدی مچا رہی ہیں کل ہی ہمیں مدعو کر گئی ہیں‘‘۔
بڑی بھابی کہہ رہی تھیں۔
اور امی نے کل جانے کی حامی بھی بھرلی ہے ۔ ایسا کروشیبا کل تم بھی ہمارے ساتھ چلنا تیمور کو دیکھ لینا‘‘۔ چھوٹی بھابی آفر دے رہی تھیں۔
’’میں اسے دیکھ چکی ہوں۔ وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
’’کیا‘‘! اس کی آواز جتنی دھیمی تھی بھابیوں کی اتنی ہی اونچی تھی۔ کب دیکھا تم نے اسے ؟
اکثر دیکھتی ہوں۔ اپنی امی ،بہنوں یا بھابیوں کے ساتھ آتا رہتا ہے بوتیک پر؟‘‘
’’کیساہے‘؟ چھوٹی بھابی کا اشتیاق قابل دید تھا۔
’’اچھا اسمارٹ، ہینڈسم ،پڑھا لکھا اور با اخلاق ہے‘‘۔ وہ دھیرے سے بولی تھی۔
’’اور کیا پتا وہ بھی آج کل کے نوجوانوں کی طرح حسن پرست اور سطحی سوچ والا ہوتو ۔ اس لئے میری پیاری بھابیو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کچھ دیر بعد ابوجی اس کے کمرے میں دستک دے رہے تھے، جو اندر سے بند نہیں تھا۔
’’کون‘‘۔ شیبا نے بیزار کن لہجے میں پوچھا۔ ’’شیبا بیٹی! میں ہوں ۔ اندر آجاو؟‘‘۔
’’پلیز ابو جی آپ نے کیوں تکلیف کی مجھے بلا لیا ہوتا ۔ میں آجاتی آپ کے کمرے میں‘‘۔ ’’کوئی بات نہیں بیٹا۔ کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار تیمور سے بات تو کرلو۔ ہم نے اسے بہترین پایا ہے ۔ وہ بہت سمجھدار اور بہترین اخلاق کا لڑکا ہے ۔ اس نے تمہیں دیکھ کر سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہوگا نا‘‘۔ ابوجی بڑے رسان سے کہہ رہے تھے۔
پھر سب کے باہمی مشورے سے طئے پایا کہ آج رات درانی فیملی کی دعوت کرلیتے ہیں۔ اس طرح تمہاری تیمور سے بات بھی ہوجائے گی۔ اور اپنے شک و شبہات بھی دور کرنے کا موقع مل جائے گا ۔ ابوجی کے کہنے پر سب ہی متفق ہوگئے تھے ۔ یوں پوری درانی فیملی ان کے گھر میں براجمان تھی۔
’’گھر کے ہر فرد کی آمد اس بات کا اظہار ہے کہ وہ سب بڑی چاہ سے تمہیں اپنی فیملی میں شامل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ چھوٹی بھابی نے کہا تھا۔’’تیمور سے بات کرنے کے بعد پلیز وہ فیصلہ کرنا شیبا جو ہم سب چاہتے ہیں‘‘۔’’جاو اوپر تیمور منتظر ہے ‘‘۔ بڑی بھابی مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔ ’’میں اکیلی کیسے ۔ آپ بھی چلیں‘‘۔ وہ ذرا سٹپٹائی۔
’’شکوک و شبہات تمہارے ذہن میں دل میں ہیں۔اس لئے تم ہی جاوگی میں یا کوئی اور نہیں‘‘۔ وہ زینہ طئے کر کے چھت پر چلی آئی تو دیکھا وہ ایک ستون سے ٹیک لگائے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا تھا ۔ کوشش کے باوجود نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھ نہ سکی تھی۔ صرف آہستہ سے سلام کہہ کر دو قدم آگے بڑھ گئی۔
’’بالکل نیا اور انوکھا روپ آپ کا میرے سامنے ہے‘‘۔ وہ سر جھکائے کھڑی رہی وہی کہنے لگا۔ ’’بوٹیک میں تو بہت بولڈ نیس کے ساتھ باتیں کرتی رہی ہیں آپ امی وغیرہ سے ۔ پھر آج کیا ہوا؟‘‘
’’جی وہ میں‘‘۔ اسے خود پر غصہ آنے لگا کہ کوشش کے باوجود کوئی ڈھنگ کا جملہ اس کی زبان سے ادا نہ ہورہا تھا۔
’’زیادہ باتیں مجھے نہیں آتیں کہوں گا تو بس اتنا کہ آپ کو سب سے پہلے امی نے پسند کیا پھر آپ ہمارے گھر کے ہر فرد کی پسند بن گئیں اور جب سارے ووٹ آپ کے حق میں پڑ گئے تو میں بھلا کیسے منکر ہوتا ۔ یقیناً آپ میں وہ ساری خوبیاں ہوں گی جو امی اپنی بہوؤں میں چاہتی ہیں۔ میں نہیں جانتا آپ کی خوبیوں اور خامیوں کو اور نہ آپ جانتی ہیں میری خوبیوں اور خامیوں کو۔ لیکن میں جاننا ضرور چاہتا ہوں اور آپ کو بتانا بھی چاہتا ہوں کہ اپنی شریک حیات کا کوئی خیالی پیکر نہیں تراشا ہے میں نے ۔ صرف اتنا سوچ رکھا ہے کہ میری شریک حیات وہی ہوگی جسے میرے والدین میری زندگی میں شامل کریں گے اور میں پوری دیانتداری اور ایمانداری سے اس کے ساتھ اپنی زندگی گذاروں گا ۔ میں کوئی وعدہ ،کوئی دعوی نہیں کروں گا ۔ اگر آپ میری زندگی میںشامل ہوئیں تو خود ہی ہمارے درمیانی رشتے کا یقین و اعتماد پالیں گی‘‘۔ وہ کہہ کر چپ ہوگیا تو شیبا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، پھر کچھ کہے بغیر ہی واپسی کے لئے مڑ گئی ۔
’’شیبا ۔ اس نے پکارا ۔
’’جی‘‘۔ وہ رک سی گئی۔
’’کچھ کہیں گی نہیں آپ‘‘؟۔ لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ لئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’کیا کہوں؟‘‘ اسے فقط یہی جملہ سوجھا تھا۔
’’بقول سب کے،باتیں تو میں بہت کم کرتا ہوں ،آپ کیا مجھ سے زیادہ کم گو ہیں‘‘
وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
’’پتا نہیں‘‘۔ وہ نگاہیں جھکا کر کھڑی تھی
’’چلیئے اتنا تو بتادیں کہ کیا فیصلہ کریں گی میرے بارے میں؟‘‘۔
’’جب سارے ووٹ آپ کے حق میں پڑ گئے تو میں بھلا کیسے منکرہوجاوں ؟‘‘
اس کی کہی بات اسے ہی لوٹا کر اس کے قریب سے گذرتے ہوئے آگے قدم بڑھادیئے۔
ہر اندیشے کو دل و ذہن سے جھٹک کر اس نے ملک تیمور درانی کے ساتھ کیلئے حامی بھرلی تھی اور جب وہ اس کی زندگی میں شامل ہوگئی تو گذرتے وقت نے رشتوں کا یقین و اعتماد بھی سونپ دیا تھا اور اس کے خاندان کے ساتھ وہ بے حد مطمئن اور خوش تھی۔ اسے اپنی گرہستی میں مسرور اور مطمئن پاکر امی سجدہ شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھیں۔