محمدمصطفے علی سروری
مزمل صاحب ماشاء اللہ سے باہر رہ کر وطن واپس آئے تھے ، صرف عید منانے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے انہوں نے اب وطن میں ہی رہ کر کمانے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ عین جوانی میں مزمل صاحب باہر چلے گئے تھے ۔ تقریباً 30 برسوں تک کام کرنے کے بعد اپنا ذاتی گھر بنالیا۔ بہنوں کی شادیاں انجام دی ، والدین کو ان کے انتقال سے ایک برس قبل ہی حج کی سعادت حاصل کرنے میں مدد کی ، اپنے بچوں کی تعلیم کا خرچہ برداشت کیا ۔ بچوں نے انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کی ، اب IELTS کیلئے تیاری کر رہے تھے ۔ دو لڑکیاں تھی ایک لڑکی کی شادی ہوچکی تھی ، دوسری لڑکی کی شادی کیلئے انہوں نے بجٹ جمع کر رکھا تھا، ایک فلیٹ تو اپنی بڑی لڑکی کو شادی کے وقت تحفے میں دے دیا تھا ۔ دوسرے فلیٹ کو بھی بیچنے کا سودا ہوچکا تھا ۔ ان کے ایک جاننے والوںنے ہی فلیٹ خریدنے کا معاہدہ کیا تھا اور بچے کو MS کی تعلیم کیلئے امریکہ جاتے وقت اس فلیٹ سے ملنے والی رقم سے خرچہ دینا تھا ۔ مزمل صاحب کو ذرا سی فکر تھی کہ اب چھوٹی لڑکی کو شادی کے وقت تحفہ میں دینے کیلئے فلیٹ باقی نہیں ہے لیکن بقرعید سے کچھ عرصہ قبل ہی مزمل صاحب کو انکے پرانے دوست خاصکر پاشاہ بھائی مسلسل ترغیب دلا رہے تھے کہ اس مرتبہ بقرعید کے موقع پر ہم لوگ گاؤں جاکر بکرے لائیں گے اور آٹھ دن کے اس کار وبار میں 50 ہزار تا ایک لاکھ کا کم سے کم منافع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مزمل صاحب کی بیوی نے منع بھی کیا کہ اجی دیکھو یہ جو بھی پیسے ہیں وہ بچی کی شادی کیلئے ہیں۔ آپ کو بکروں کے کاروبار کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے لیکن مزمل صاحب اپنے پرانے دوست پاشاہ بھائی کے مشوروں کو نظر انداز نہیں کرسکے اور بقرعید سے پہلے انہوں نے محبوب نگر جاکر بات کرلی ، یوں عیدالاضحیٰ سے پہلے ہی مزمل صاحب اپنے دوست پاشاہ بھائی اور دوسر وں کے ساتھ بکروں کے کاروبار میں جٹ گئے۔
اول تو موسم نے مزمل صاحب کا ساتھ نہیں دیا اور پھر عید کے دن شام میں پاشاہ بھائی کے ساتھ بیٹھ کر حساب لگایا تو پتہ چلا کہ پاشاہ بھائی نے بھی مزمل صاحب کا ساتھ نہیں دیا ۔ مارکٹ میں ٹھہر کر مزمل صاحب جس طرح ہر بکرے کی فروخت کے بعد خوش ہوتے رہے ، پاشاہ بھائی نے حساب بتلایا تو اس دوران ہر مرحلے پر ان کی فکر بڑھتی جارہی تھی ۔ تین چار دن اور رات کی محنت و نیند خر اب کرکے بجائے منافع کے قطعی حساب میں مزمل صاحب کو نقصان ہی ہوا ۔ لیکن اس کے باوجود پاشاہ بھائی کہتے رہے کہ ارے مزمل صاحب خوشی مناؤ کہ ہمارا نقصان بہت کم ہوا ، ہمارے پڑوس میں جو لوگ بکرے لائے تھے ، ان کا تو ہم سے زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ مزمل صاحب کی بیوی مسلسل کہتی رہی کہ اجی دیکھو یہ پاشاہ بھائی کا حساب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے، ان پر کیسے بھروسہ کرسکتے۔ بیوی کے انہی خدشات کے پیش نظر مزمل صاحب نے پاشاہ بھائی کو بکرے لانے اور کاروبار کرنے صرف پیسے نہیں دیئے بلکہ ہر معاملت اپنے سامنے طئے کی ،گاؤں بھی گئے ، مارکٹ میں کھڑے بھی رہے بلکہ اپنی جان پہچان کے لوگوں کو کہہ کر بکرے بھی فروخت کئے ۔
عید کی تھکن یا کچھ اور نہیں معلوم اس رات تو مزمل صاحب کو نیند آگئی لیکن عید کے دوسرے دن ابھی جب گھر کے لوگ جاگے بھی نہیں تھے، مزمل صاحب مسلسل بے چینی محسوس کر رہے تھے ۔ صبح ناشتہ کرکے فوری اپنے بچے کے ساتھ دواخانے کو چلے گئے ۔ ڈاکٹر نے بی پی چیک کیا ، ای سی جی نکالا کچھ نئی دوائیاں لکھی اور اگلے دن شوگر ٹسٹ کرواکر دوبارہ آنے کا مشورہ دیا اور ذہنی سکون کی دو گولیاں بھی لکھ دی۔ قارئین اکرام اس سارے قصے میں صرف نام تبدیل کردیئے گئے لیکن اس قصے کو اپنے کالم میں موضوع بحث بنانے کا ایک خاص مقصد ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کو اس طرح کے جلدی منافع کمانے کی ذہنیت سے باہر نکلنا ہوگا تاکہ اس طرح کے شدید نقصان چاہے مالی ہوں یا جانی اس سے محفوظ رہا جاسکے ۔
یہ ایک اکیلے مزمل صاحب کی کہانی نہیں ہے ، ایسے سینکڑوں لوگ ہیں جو کاروبار کر کے منافع کمانا چاہتے ہیں۔ قارئین آپ حضرات سوچ رہے ہوں گے کہ کاروبار کر کے منافع کمانے میں نہ تو کوئی قباحت ہے اور نہ کوئی مسئلہ ہونا چاہئے ۔ جی بالکل درست کاروبار کر کے منافع کمانے پر نہ تو کوئی اعتراض کیا جاسکتا ہے اور نہ سوال ۔ ہاں کاروبار کی اس فکر پر ضرور سوال اٹھایا جاسکتا ہے جو یہ بتلاتی ہیکہ کاروبار مختصر مدتی ہو اور منافع بہت زیادہ ۔ کاروبار کی ایسی ہی سوچ لئے عبدالشکور (نام تبدیل) نے بھی بقرعید کے دوران دو دنوں میں خوب منافع کمایا ، جی ہاں منافع کمایا شکور نے جانوروں کیلئے بیچی جانے والی گھاس کا کاروبار کیا ۔ شکور نے بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے والی ہری گھاس کا ایک کٹا 20 روپئے میں خریدا اور اس کو 25 روپئے فی کٹے کے حساب سے فروخت کیا ۔ حالانکہ شکور روزانہ سیپ اور دیگر پھل فروخت کرنے کا کاروبار کرتا ہے لیکن شکور کو جب گھاس کے کاروبار میں منافع دکھا تو اس نے یہ کام کیا ۔ پھر کیا ہوا یہ بھی جان لیجئے ۔ اگلے دن شکور کے بازو کاروبار کرنے والے دوسرے صاحب نے ہری گھاس کے کٹے بیچنے شروع کردیئے ، جس لڑکے نے یہ کام شروع کیا اس نے 20 روپئے کے ملنے والے گھاس کے کٹے کو دو حصوں میں بانٹ کر ہر حصہ 20 روپئے فی کٹا فروخت کرنا شروع کیا۔ یوں شکور کا منافع ایک دن میں ہی ختم ہوگیا۔
چاہے بکروںکی فروخت کا چار دن کا کاروبار ہو یا گھاس ہر دو جگہ ایک ہی سوچ ہے کہ کم وقت کے کاروبار میں زیادہ منافع کیسے کمایا جائے۔
بکروںکی فروخت میں مزمل صاحب جیسے درمیانی لوگ جلد منافع کمانے کی چکر میں قربانی کے جانوروں کی قیمت کو اور بڑھا دیتے ہیں اور مسلمانوں کی ایک عبادت کو مہنگا کردیتے ہیں۔ اخبار دکن کرانیکل کی ایک رپورٹ کے مطابق اکیلے صرف شہر حیدر آباد میں اس بقرعید پر تقریباً چار لاکھ بکرے اور 15 ہزار بڑے جانور فروخت کئے گئے ، اس سارے کاروبار میں اصل منافع اور کاروبار ان لوگوں کا ہوا جو جانوروں کو پال کر بڑا کرتے ہیں۔ بکروں کو پال کر بڑا کرنا کتنا بڑا کاروبار ہے ، اصل منافع اسی کام میں ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پورے ملک میں تلنگانہ کا شمار گوشت کھانے والی سرفہرست ریاست میں ہوتا ہے ۔ (بحوالہ TSSGDCF ) اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تلنگانہ میں 505 لاکھ میٹرک ٹن گوشت فروخت ہوتا ہے اور ریاست کی 98 فیصدی آبادی نان ویجیٹیرین ہے یعنی بکرے صرف بقرعید پر ہی فروخت نہیں ہوتے بلکہ سال بھر ان کی بکری ہوتی ہے اور بقرعید کے موقع پر اناڑی کاروباری درمیانی آدمی کا رول ادا کرتے ہوئے ان جانوروں کی قربانی کے عمل کو مسلمانوں کے لئے ایک مہنگا سودا بنادیتے ہیں۔ جانوروں کی افزائش اور پرورش کرنے والا گھر بیٹھے پیسے کما لیتا ہے اور عام مسلمان مہنگی قیمت دے کر درمیانی (موسمی کاروباری) افراد کے رحم و کرم پر منحصر ہوتا ہے۔
تلنگانہ حکومت بھیڑوں کی افزائش پر کروڑوں روپئے خرچ کر رہی ہے ۔ ریاستی حکومت نے بھیڑ بکروں کی پرورش اور افزائش کے جب درخواستیں طلب کی تو تلنگانہ حکومت کو تین لاکھ ساٹھ ہزار درخواستیں موصول ہوئی ۔ تلنگانہ میں گولا اور کروما طبقے کے لوگ بھیڑ اور بکرے پالنے کا کام کرتے ہیں، ان لوگوں کو بااختیار بنانے کیلئے تلنگانہ حکومت نے بھیڑوں کی پرورش میں ان کی مدد کرنے کا پروگرام شروع کیا ۔ تلنگانہ میں بکروں کی افزائش کرنے والے گولا اور کروما طبقے کی آبادی تقریباً 35 لاکھ بتلائی گئی ہے ۔ ان لوگوں کے درمیان حکومت نے 3 لاکھ 20 ہزار بکروں کے یونٹ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا، ایک یونٹ میں جملہ 21 بکرے ہوتے ہیں ، سال 2017-18 کے دوران حکومت نے اس پراجکٹ 1,877 کروڑ روپئے خرچ کئے ۔ ان روپیوں سے حکومت نے آندھرا ، ٹاملناڈو ، اڈیشہ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے بکروں کے چھوٹے بچوں کو لاکر ریاستی درخواست گزاروں کو رعایتی قیمت پر یہ بکرا فراہم کیا۔ بکروں کی پرورش کے دوران ان کے مرجانے سے نقصان ہوتا ہے ، اس سے نمٹنے کیلئے حکومت نے ہر بکرے کا انشورنس بھی کروایا گیا ۔ 100 سے زائد موبائیل جانوروں کے کلینک بھی شروع کئے گئے تاکہ بکرے بیمار ہوجائیں تو ان کا علاج کروایا جاسکے۔ اخبار تلنگانہ ٹوڈے کی ایک خبر کے مطابق اس برس ایسے بکروں کی مالیت 15,00 کروڑ تک پہونچ گئی ۔ قارئین جب بکروں کی مارکٹ میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر موسمی کاروباری حضرات کا رول ختم ہوجائے گا ، تب کیا ہوگا جان لیجئے گا کہ وہ لوگ جو بکروں کی پرورش کرتے ہیں وہی راست طور پر ا پنے بکرے فروخت کریں گے اور اس دوران ان کا بکرا ، بارش کے سبب بیماری کے سبب یا سفر کے سبب مرجائے تو انہیں انشورنس کی رقم مل جائے گی جبکہ موسمی کاروبار کرنے والوں کو اکثر نقصان بکروں کے مرجانے اور بھاگ سے ہوتا ہے جبکہ سرکاری اسکیم کے تحت افزائش کئے جانے والے بکروںکی باضابطہ کانوں پر نمبر کے ساتھ (Tagging) کی جاتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ درمیانی آدمیوں کا رول ختم ہوجانے پر حکومت خود بکروںکی فروخت کیلئے اسٹالس قائم کرے کیونکہ جب حکومت بکروں کی افزائش کرنے مدد کر رہی ہے تو ان بکروں کی فروخت کیلئے مدد فراہم کرنا اس کی مجبوری ہوگی ۔ جیسے کسانوں کو فائدہ پہونچانے اور درمیانی آدمی کے رول کو ختم کرنے کیلئے رعیتو بازار شروع کئے گئے بہت ممکن ہے کہ بکرے بازار کا خاص عید پر آغاز کیا جائے جب سرکار یہ کام کرے گی تو وہاں جانوروں کا ڈاکٹر بھی ہوگا ۔ صحت پر سرکار کی نظر ہوگی اور عوام راست بکرے پالنے والوں سے بکرے خرید سکیں گے یا حکومت اپنے اسٹالس سے ان کو فروخت کرے گی اور جو مسلمان بکروں کا کاروبار کر کے منافع کمانا چاہتے ہیں ، وہ بھی پروفیشنل انداز میں یہ کام کر کے واقعتاً منافع کماسکتے ہیں ۔ مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سستی چیزیں خرید کر انہیں مہنگا بیچنے کو ہی کاروبار نہیں کہتے ہیں۔ کاروبار کرنے کے اور منافع کمانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں لیکن موسمی کاروبار جتنا جلد منافع بھی دے سکتا ہے ، اتنا ہی نقصان کا بھی خدشہ رہتا ہے۔
مسلمان اگر بکروں کا کاروبار بھی کرنا چاہتے ہیں تو اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بکرے صرف بقرعید کے موقع پر ہی نہیں بلکہ سال بھر بکتے ہیں اور پہلے تلنگانہ میں بکرے کے گوشت کی ضرورت کو پورا کرنے روزانہ بیرون ریاست سے پانچ سو تا ساڑھے پانچ سو ٹرک بکرا آتا تھا ، اب تلنگانہ میں بکرے اتنے ہوچکے ہیں کہ باہر سے صرف 100 ٹرک بکرے ہی آرہے ہیں۔ فی الحال ریاست میں ایک کروڑ بکرے ہوچکے ہیں کیونکہ حکومت تلنگانہ روزانہ 10 ہزار بکرے تقسیم کر رہی ہے ۔ (بحوالہ تلنگانہ ٹوڈے)
اس بقرعید کے بعد بھی بکروں کی افزائش کا کاروبار بدستور جاری ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان کم وقت ، کم محنت اور زیادہ منافع کے چکر سے باہر نکل آئیں اور اس بات کو گرہ میں باندھ لیں کہ محنت کے ساتھ منصوبہ بندی بھی ضروری ہے اور مختصر مدتی فائدہ اتفاق ہوسکتا ہے لیکن کاروبار کا طریقہ نہیں اور جو لوگ کاروبار کے بنیادی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے وہ کاروبارکے میدان میں ٹک بھی نہیں پاتے ، کوئی مجھے بتلادے کہ اسلام جب ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو پھر اسلام نے تجارت کا کاروبار کا اور منافع کمانے کے بھی کچھ اصول بتلائے ہوں گے۔ کیا تجارت کرنے والوں اور تاجر برادری کو ان اسلامی اصولوں سے واقف ہونا ضروری نہیں، ضرور سوچئے گا۔ میری تو بس یہی دعا ہے کہ یا الٰہی تو ہم مسلمانوں کو طریقہ سنت کے مطابق تجارت کرنے والا بنادیاور جلد منافع کی خاطر برائی کا راستہ اختیار کرنے سے محفوظ رکھ۔ آمین یا رب العالمین۔
sarwari829@yahoo.com