اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے عوام کیا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے، یہ سوال آپ کویقینا غور کرنے کی جانب مائل کرے گا۔ کیوں کہ ریاستی اسمبلی میں وہی ہوا جس کا اندازہ تھا۔ صدر جمہوریہ کی جانب سے روانہ کردہ تلنگانہ بل کو اسمبلی نے مسترد کردیا۔ اب اس کے بعد بہت کچھ راستے نکل آئیں گے، ان راستوں میں تلنگانہ بل کو کن کن ٹھوکروں سے گذرنا پڑے گا یہ آگے آگے دیکھتے ہیں۔ حکمراں پارٹی کے چند اداکاروں کی ڈرامہ بازی نے سب کچھ نہ سہی تھوڑا بہت غارت کیا ہے۔ ہمارے یہاں ہیروز اور زیروزکی کمی نہیں ہے۔ جو اپنے مقاصد اور مطالبہ کے لئے کسی کو بھی نہیں بخشتے۔ اس شہر بلکہ علاقہ تلنگانہ یا یوں کہیئے کہ 3خطوں کے ماضی کے حکمرانوں کوجب گالی گلوج دے کر اس کے کارناموں پر انگلی اٹھاتے ہیں تو بزرگوں کا احترام نہ کرکے علاقہ تلنگانہ کے اقدار کو فراموش کرتے ہیں۔
حضور نظام پر آئے دن تنقید کرنے والوں میں زیادہ تر سیاستداں ہیں، وہ سیاستداں جنہوں نے حضور نظام میر عثمان علی خاں کی بنائی گئی سلطنت اور ان کے کارناموں کے زیر سایہ سانس لیتے رہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے لیکر شہریوں کے لئے پینے کے پانی کے انتظامات کئے۔اس حکمراں کی بنائی گئی عمارتوں اور شاہراہوں سے گذر کر بڑے ہوئے ہیں آج انھیں تنقید کے ذریعہ اپنی بدنیتی، کم عقلی اور کوتاہ ذہنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔جہاں بیٹھ کر یہ لوگ تنقید کررہے ہیں یہ عمارت خود اُس عظیم الشان حکمران کی بنائی ہوئی ہے۔ شاید یہی فرق ہے کہ بیرون ہند حکمرانوں نے اپنے علاقہ میں ترقیات کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں۔
گزشتہ کالم میں میرے دورے امریکہ کا تذکرہ شروع ہوا تھا جو سفر کا پہلا مرحلہ لندن ایر پورٹ ہتھیرو پر ختم ہوا تھا۔ مجھے اس ایر پورٹ سے اپنی منزل ہیوسٹن، ٹیکساس کی کنکٹنگ فلائیٹ پکڑنی تھی لہذا ٹرمنل تلاش کرنے اور گیٹ نمبر کا پتہ لگانے کے لئے ایر پورٹ کے کاریڈور پر نصب بڑے اسکرین پر نظر ڈالی اور گیٹ کا نمبر معلوم ہونے کے بعد ٹرین کے ذریعہ ( اندرون ایر پورٹ ) دوسرے ٹرمنل پہونچے۔ ہیوسٹن جانے والی فلائیٹس میں تمام مسافر بیٹھ چکے تھے۔ مقامی وقت دن کے 3بجے پرواز کا آغاز ہوا تو راستے میں پھر ایک بار سیٹ کے سامنے نصب ٹی وی اسکرین پر طیارہ کی پرواز کی رفتار، اُڑان اور اپنی منزل پر پہونچنے کی تفصیلات کے ساتھ نقشے بھی نمودار ہورہے تھے کہ اب طیارہ کس علاقہ سے پرواز کررہا ہے۔
یہ فلائیٹ ہیوسٹن کو شام 7بجے پہونچ رہی تھی لیکن امریکہ کی سرزمین بہت کشادہ ہے اور اس کی دیگر ریاستیں بھی طویل مسافت کی حامل ہوتی ہیں لہذا طیارہ جب اپنی منزل کی سمت بڑھ رہا تھا اس علاقہ میں تقریباً رات ہوچکی تھی۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں اوقات میں 2 یا ڈھائی گھنٹہ کا فرق ہوتا ہے۔ جب طیارہ امریکہ کے فضائی حدود میں داخل ہوا تو نیویارک، شکاگو میں چراغ روشن ہوچکے تھے۔ کرہ ارض سے ہزاروں فٹ بلندی سے رات کا منظر حسین نظر آرہا تھا۔ امریکہ کے شہروں کی روشنی زمین پر جگنوؤں کی طرح دکھائی دے رہی تھی جبکہ طیارہ کی منزل پر ابھی دن ہی تھا لیکن اس سے پہلے ہی ہم رات کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔ ہیوسٹن پہونچنے تک شام 7بجے تھے، ایمگریشن کے بعد باہر نکلے تو ہمارے فرزند اور ان کے دوست لینے آئے۔
ٹیکساس سابق صدر امریکہ جارج بش کی آبائی ریاست ہے، جارج بش اس ریاست کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، جس جارج بش نے اپنے ملک کے باہر کے انسانوں اور ممالک کو جنگوں، بموں، مارٹر حملوں اور کارٹر بم داغ کر تباہ کردیا تھا، اس نے اپنی ریاست اور اپنے عوام کی سہولیات کا خاص خیال رکھ کر شہر کو ترقی دی ہے۔ ٹیکساس کو رقبہ کے لحاظ سے امریکہ کی بڑی ریاست مانا جاتا ہے۔یہاں کی کشادہ سڑکیں، اکسپریس ویز، شاہراہیںاور اس پر دوڑتی تیز رفتار زندگی سے پتہ چلتا ہے کہ جارج بش یا اس ریاست کے حکمرانوں نے ترقیات کے کاموں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارے ملک اور ہماری ریاست کے حکمرانوں کو اپنی پیٹ پوجا سے فرصت نہیں وہ شہریوں ، عوام الناس کی سہولیات کا خاص خیال کیونکر کریں گے۔ دوسرے دن ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں گریجویشن ڈے تقریب اور کانوکیشن تھا جس میں شرکت کی باقاعدہ دعوت دی گئی تھی۔ یہ یونیورسٹی امریکہ کی قدیم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے ، یہاں کا رقبہ اور اس کی عمارتیں دیکھ کر حضور نظام کی تعمیر کردہ عثمانیہ یونیورسٹی کی بلند و پُرکشش عمارت اور وہاں کا ماحول یکلخت نظروں کے سامنے نمودار ہوا۔
فرق صرف اتنا ہے کہ ٹیکساس یونیورسٹی کو اس کے منتظمین نے بڑے جتن اور محبت سے سنبھالا ہے جبکہ عثمانیہ یونیورسٹی کو لیڈروں، مفاد پرستوں کی کوتاہ ذہنی نے ابتر بنادیا ہے۔ جتنا رقبہ عثمانیہ یونیورسٹی کو حاصل ہے اگر اس پر دلچسپی اور دیانتداری سے کام کیا جائے تو اس یونیورسٹی کو عالمی سطح پر درجہ اول مقام مل جائے گا۔ حضور نظام میر عثمان علی خاں نے کئی برس قبل آنے والی نسلوں کے لئے شاندار تعلیمی ادارہ قائم کیا اور یہاں کا تعلیمی معیار بھی بلند تھا لیکن بعد کے دنوں میں اس کے منتظمین اور حکمرانوں نے اسے سیاسی دنگل میں تبدیل کردیا۔ ٹیکساس یونیورسٹی کا کانوکیشن ہر سال کی طرح اس سال بھی بڑے اہتمام سے منعقد ہوا۔ یہاں امریکہ اور بیرون امریکہ کے طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں ریاست آندھرا پردیش کے طلباء بھی شامل ہیں۔ ویسے امریکہ کی مختلف ریاستوں کی تمام یونیورسٹیوں میں ہندوستان خاص کر آندھرا پردیش و حیدرآباد کے طلباء زیر تعلیم ہیں ۔
ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں مرزا خالد بیگ، محمد شہباز احمد، محمد منیر علی، محمد اسلم الدین، شیخ ماجد، شیخ آصف علی، اے ہرشیتا، خان ضیاء محمد کے علاوہ دیگر کئی طلباء کو ماسٹرس اِن سائنس ( ایم ایس ) کی سند عطا کی گئی۔ اس یونیورسٹی میں حیدرآباد کے مزید کئی طلباء زیر تعلیم ہیں۔ یہاں گریجویشن ڈے کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ امریکی طلباء اور ان کے سرپرستوں کے لئے یہ دن عید کی طرح ہوتا ہے۔ تقسیم اسنادات کی تقریب میں شریک امریکی طلباء کے والدین کا جوش و خروش اپنے بچوں کے گریجویٹ، یا ماسٹر سند پانے کا خواب قابل دید تھا۔ اس تقریب میں آندھرا پردیش خاص کر حیدرآباد کے طلباء کو بھی اسنادات دیئے گئے جنہوں نے اپنے ماسٹرس کی ڈگری پوری کرلی تھی۔1925ء میں قائم اس یونیورسٹی اور عثمانیہ یونیورسٹی میں تقریباً مماثلت دیکھی گئی۔ لیکن عثمانیہ یونیورسٹی کو مختلف شعبوں میں ترقی دینے کے بجائے یہاں تعصب و فرقہ پرستی نے تعلیم کو بھی پسماندہ بنادیا ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے معیار کو بلند کردیا جائے تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ یونیورسٹی عالمی درجہ کے ساتھ شہرت حاصل کرے گی۔ اسے مزید پُرکشش بناکر تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے تو بیرون ملک کے کئی طلباء کے لئے یہ سب سے بڑا تعلیمی مرکز بن جائے گی۔
لیکن جو قائدین حضور نظام کو نیچا دکھانے کیلئے ان پر فقرے کستے ہیں وہ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں، اداروں اور شہروں کو ترقی دینے میں فراخدلانہ کوشش کس طرح کریں گے۔ اس خوبصورت دانش گاہ کو درست معنوں میں ترقی دی جائے تو بلاشبہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و نوجوانوں کی پیشانیوں سے پھوٹتی روشنی سے سارا معاشرہ روشن ہوجائے، جس طرح ماضی میں تعلیم حاصل کرنے والے عثمانین جانتے ہیں کہ ان کے دور کی تعلیم اور یونیورسٹی کا معیار کیا تھا۔ اس وقت بھی یہ یونیورسٹی خاص شعبوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ لیکن اسے آنے والی نئی نسلوں اور جدید و عصری تعلیم کے حصول کے خواہاں نوجوانوں کی امید و یقین کا مرکز بنانے کے لئے خاص توجہ کی ضرورت ہوگی۔ امریکہ کی تقریباً بڑی یونیورسٹیوں سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کرنے والے حیدرآباد کے طلباء اپنی سرگرم زندگی میں خوشی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی کو ترقی دینے کے لئے خاص لگن اور ریاضت کی ضرورت ہوگی۔
تعلیمی، تحقیقی اور اہم نصابی سرگرمیوں میں امریکہ کی بڑی بڑی خرانٹ یونیورسٹیوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیمی نصاب کے ساتھ اخلاقیات کی تعلیم بھی اہم ہے۔ لیکن اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اخلاقی اقدار اور بزرگوں کی عزت کرنے کا درس نوجوانوں سے دور ہوتا جائے تو یہ افسوسناک پہلو کہلائے گا۔ حضور نظام کی تضحیک کرنے والوں کے لئے اخلاق و اقدار کا درس دینا ضروری ہے۔ حال ہی میں گورنر آندھرا پردیش ای ایس ایل نرسمہن نے سکندرآباد کے محبوب کالج کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں پر زور دیا تھا کہ وہ بزرگوں کا احترام کریں اور ان کی عزت کریں۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے نوجوان لیڈر اور ادھیڑ عمر کے سیاستداں بزرگوں کی توہین کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
kbaig92@ gmail.com