رشیدالدین
جموں و کشمیر کے انتخابات نے بی جے پی کو ’’سیکولر‘‘ بنادیا ہے۔ بی جے پی اور سیکولرازم کبھی ایک ساتھ ہوپائیں گے ، اس کا یقین کرنا مشکل ہے لیکن جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے خواب نے بی جے پی کو سیکولرازم کا نقاب پہننے پر مجبور کردیا ۔ جس پارٹی کے نظریات آر ایس ایس کے تیار کردہ ہوں اور جس کے مارک درشک اس کے پرچارک ہوں، اس سے سیکولرازم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جموں و کشمیر کی حد تک بی جے پی نے بظاہر سیکولر ایجنڈہ اختیار کرتے ہوئے متنازعہ موضوعات سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ بی جے پی میں یہ تبدیلی مستقل یا قومی سطح کی تبدیلی نہیں بلکہ جموں و کشمیر چناؤ تک محدود ہے۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست میں اقتدار کیلئے بی جے پی اور اس کے قائدین سیکولرازم کا راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ کوئی نظریاتی تبدیلی نہیں بلکہ ووٹ اور اقتدار کیلئے مجبوری ہے۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ہندو توا کا نعرہ کشمیر میں اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا ، لہذا نیا روپ اختیار کرلیا گیا۔ کرسی اور اقتدار کیلئے اس طرح کی ڈرامہ بازی کوئی ایک نئی بات نہیں ہے۔ کل تک سیکولرازم جس پارٹی کیلئے کسی گالی کی طرح تھا، آج وہی پارٹی خود کو سیکولرازم کے چمپین کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
ووٹ بینک سیاست اور اقلیتوں کی خوشامد کا دوسروں پر الزام لگانے والی بی جے پی آخر کیوں اسی سیاست کو اختیار کرنے پر مجبور ہے ؟ جس کیلئے ہندوتوا طرز زندگی اور ہندو راشٹر ایک مشن اور مقصد کی حیثیت رکھتا تھا، آج وہی پارٹی مذہبی آزادی ، رواداری ، مذاہب کا احترام اور دستور میں ہر مذہب کیلئے پرچار کی آزادی کی دہائی دے رہی ہے۔ جس کے ایجنڈہ میں یکساں سیول کوڈ ، رام مندر اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دستور کی دفعہ 370 کی تنسیخ سرفہرست تھے، آج انہیں پس پشت ڈال دیا گیا۔ کشمیر کے انتخابات میں کامیابی کیلئے بی جے پی کی سیاسی قلاء بازیوں کو دیکھ کر عوام کے ذہن میں سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کیا کشمیر کیلئے بی جے پی نے اپنا علحدہ یونٹ قائم کرلیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پالیسی میں اچانک یو ٹرن کیوں ؟ پتہ یہ چلا کہ پارٹی اور اس کا ایجنڈہ تو برقرار ہے لیکن جموں و کشمیر چناؤ میں سیاسی موقع پرستی کے مظاہرہ کے تحت متنازعہ موضوعات کو برفدان کی نذر کرنے میں عافیت محسوس کی گئی۔ نظریات اور اصولوں کیلئے شہرت رکھنے والی بی جے پی کو اقتدار کے لالچ نے اس قدر اندھا کردیا کہ وہ بھول گئی کہ قومی سطح پر اس کے نظریات کیا ہیں۔ بی جے پی سیکولرازم کے مکھوٹے کے ساتھ جس طرح جموں و کشمیر کے عوام سے روبرو ہوئی ہے، اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دستور ہند کے بنیادی اصولوں کے بارے میں تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔ جس طرح مہاراشٹرا میں اقتدار کیلئے 25 سالہ حلیف شیوسینا سے رشتہ توڑلیا گیا ، اس پارٹی کا کشمیر میں رنگ بدلنا باعث حیرت نہیں۔ جس کے سہارے مہاراشٹرا میں قدم جمائے گئے، اسی کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ تو پھر بنیادی اصولوں سے کشمیر میں انحراف میں کیا قباحت ہے۔
اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی، یکساں سیول کوڈ اور رام مندر کئی برسوں سے سنگھ پریوار کا مین ایجنڈہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات کے منشور میں ان مسائل کو شامل رکھا گیا۔ کشمیر کے انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں، مسلمانوں کی دلجوئی اور خوشامد کیلئے مذہب کا سہارا لینے کی کوششیں جاری ہیں۔ خود کو فرقہ پرستی کے خول سے آزاد ظاہر کرنے کیلئے اسلام کے فروغ کو بی جے پی حکومت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا انتخابی قواعد کی خلاف ورزی ہے لیکن بی جے پی نے اسلام کے فروغ کا وعدہ کرتے ہوئے مذہبی جذبات کے استحصال کا جرم کیا ہے۔ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے بارے میں بی جے پی کے دعوؤں کا پول کھولنے گجرات کی مثال کافی ہے۔ گجرات کے مظلوموں کی آہیں نریندر مودی کا دنیا بھر میں تعاقب کر رہی ہیں۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ کہ ’’ہم فرقہ پرست نہیں‘‘ ملک کے عوام کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اس دعویٰ پر ذرا بھی سیاسی شعور رکھنے والا شخص بھروسہ نہیں کرے گا۔ مسلمانوں کی خوشامد کیلئے بی جے پی نے جموں و کشمیر اسمبلی کے 70 امیدواروں میں 21 ٹکٹ مسلمانوں میں تقسیم کئے ہیں، جسے مسلم دوستی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ وادی کشمیر میں سوائے مسلمانوں کے کسی اور کو ٹکٹ دینا ممکن ہی نہیں تاہم بی جے پی اسے مسلمانوں پر بطور احسان پیش کر رہی ہے۔ اگر واقعی بی جے پی سیکولر نظریات پر یقین رکھتی ہو تو اسے جموں کے حلقوں سے مسلم امیدواروں کو کامیاب کرانا چاہئے ۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو ٹکٹ دینا کوئی کمال نہیں۔
اگر بی جے پی نے اقتدار کیلئے دفعہ 370 کو انتخابی منشور میں شامل نہیں کیا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے عوام سے نہ صرف معذرت خواہی کرے بلکہ یکساں سیول کوڈ اور رام مندر جیسے حساس موضوعات کو قومی ایجنڈہ سے علحدہ کرنے کا اعلان کرے کیونکہ اس مسئلہ پر طویل عرصہ سے سیاست کی گئی جس کا نتیجہ ہے کہ لوک سبھا میں دو ارکان والی بی جے پی آج مرکز میں واحد اکثریتی جماعت کے طور پر برسراقتدار ہے۔ بی جے پی نے انتخابی حکمت عملی کے طور پر سخت گیر نظریات کے حامل قائدین کو جموں و کشمیر کی انتخابی مہم سے دور رکھا ہے
اور انتخابات سے قبل مرکزی کابینہ میں ایک اور مسلم چہرہ کو شامل کیا گیا۔ جموں و کشمیر کے انتخابی منشور میں دفعہ 370 کی تنسیخ کے مسئلہ کو شامل نہ کرنا رام جیٹھ ملانی کے اس دعویٰ کو تقویت پہنچاتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کو دفعہ 370 کے حقائق سے آگاہ کردیا ہے اور وہ دوبارہ اس مسئلہ پر آواز نہیں اٹھائیں گے۔ اگر مودی نے واقعی دفعہ 370 کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے تو انہیں مسلمانوں سے ووٹ مانگنے سے قبل طویل عرصہ تک کشمیری عوام کے جائز و دستوری حق کی مخالفت کرنے کیلئے معذرت خواہی کرنی چاہئے ۔ نریندر مودی کی سنجیدگی کی حقیقت جاننے کیلئے یہی کافی ہے کہ سیلاب کے متاثرین سے ہمدردی کے نام پر دیپاولی منانے وہ کشمیر گئے لیکن کشمیری مسلمانوں کو عیدالاضحیٰ کی مبارکباد پیش نہیں کی۔ وزیراعظم کی حیثیت سے عیدالفطر کی مبارکباد بھی بادل ناخواستہ دی گئی تھی۔ کشمیر میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے سے قبل بی جے پی اور نریندر مودی کو کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حب الوطنی کا اعتراف کرنا ہوگا۔ ایسے وقت جبکہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ سمجھے جارہے تھے، پاکستان کی سرحد سے متصل رہ کر بھی کشمیری مسلمانوں نے ہندوستان کو اختیار کیا اور پاکستان پر اسے ترجیح دی۔ اس جذبہ کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ افسوس کہ کشمیری مسلمانوں کے اس جذبہ کو فراموش کردیا گیا اور وقتاً فوقتاً انہیں دفعہ 370 کے نام پر دستوری حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی کشمیری عوام ہندوستان کا حصہ ہونے کے باوجود ہندوستانی دستور میں دی گئی آزادی اور حقوق سے محروم ہیں۔ اتنا ہی نہیں انسانی حقوق کی پامالی کشمیر میں عام ہوچکی ہے۔ جب تک کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق نہیں دیئے جاتے ،
صرف زبانی دلجوئی کے ذریعہ ان کے دل میں جگہ نہیں بنائی جاسکتی۔ نریندر مودی کو خوش کن تقریروں کے بجائے کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی نے سنگھ پریوار سے مشاورت کے بعد دفعہ 370 کو انتخابی مہم سے دور رکھا ہے ؟ اگر بی جے پی اور اس کی قیادت حقائق تسلیم کرنے تیار ہیں تو انہیں رام مندر اور یکساں سیکول کوڈ جیسے شر انگیز اور انتشار پسند وعدوں کو بھی چھوڑنا ہوگا جو سماج میں یکجہتی اور رواداری کے بجائے انتشار اور پھوٹ ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہندوستان کی قدیم سیکولر روایات مزید کسی انتشار کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت دفعہ 44 کی تنسیخ کی کارروائی کرے جس کو بنیاد بناکر وقفہ وقفہ سے سنگھ پریوار یکساں سیول کوڈ کی وکالت کرتا رہا ہے ۔ یکساں سیول کوڈ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ دیگر اقلیتوں کیلئے بھی قابل قبول نہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی ان دنوں ’’این آر آئی پرائم منسٹر‘‘ کی حیثیت سے اپنی شناخت بناچکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد انہوں نے ملک کی ریاستوں سے زیادہ بیرونی ممالک کا دورہ کیا ۔ داخلی مسائل سے زیادہ ان کی توجہ خارجی امور پر ہے۔ پانچ ماہ کے عرصہ میں تقریباً 10 ممالک کا مودی نے دورہ کیا جبکہ ہندوستان کی 10 ریاستوں کا دورہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ بیرونی دورے مودی کے الیکشن اور کلکشن کے ایجنڈے کے سواء کچھ نہیں۔ بیرونی ممالک میں مودی کا انداز دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے جذبہ سے باہر نہیں نکلے۔ دیگر ممالک میں غیر مقیم ہندوستانیوں کو جمع کرنا اور ان کے روبرو جادو بیانی کو دیکھ کر شائد ان ممالک کے لوگ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ کہیں مودی ان کے ملک کے الیکشن میں حصہ نہ لے لیں۔ وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر بی جے پی کا استدلال ہے کہ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران تمام ریاستوں کا دورہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ انتخابی مہم کے وقت مودی وزیراعظم نہیں تھے بلکہ وہ وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوار تھے۔ سارے ملک کا دورہ کرنا ان کی مجبوری تھی لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے سلسلہ میں انہوں نے ریاستوں کا رخ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ کاش نریندر مودی عوام سے اظہار تشکر کیلئے ہی تمام ریاستوں کا دورہ کرتے۔ نریندر مودی کی جادو بیانی اور شعلہ نوائی کا جادو اس وقت تک برقرار رہے گا ، جب تک عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ایک وقت آئے گا جب عوام حقیقت کو سمجھنے لگیں گے اور مودی کے زور بیان کا اثر گھٹنے لگے گا۔ مودی کے بدلتے سیاسی رنگ پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بڑا گہرا تعلق ہے عمل کا صاف گوئی سے
اگر کردار گروی ہوں تو تقریروں سے کیا ہوگا