بچہ مزدوری کے خلاف حکومت کے اقدامات قابل ستائش

یہ بھی ضروری ہے کہ بچہ مزدوری پر کیوں مجبور؟

سید جلیل ازہر
موت تو نام سے بدنام ہوئی ہے ورنہ تکلیف تو زندگی بھی دیتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ آئے دن حکومت بچہ مزدوری کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتے ہوئے تعمیراتی کام، ہوٹلوں، کرانہ دکانوں وغیرہ پر مزدوری میں مصروف بچوں کو کام سے روکتے ہوئے مالکین پر مقدمات بھی درج کررہی ہے۔ تاہم ذمہ دار عہدیداروں کو اس جانب بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کئی خوددار خواتین جن کے گھر میں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہوتی جو کم عمری میں بیوہ ہوگئیں ہیں، ان کے معصوم بچے ماں کی بھوک پیاس کو برداشت نہ کرتے ہوئے کسی ہوٹل یا کسی بلڈنگ کی تعمیر میں مزدوری کرتے ہوئے کم عمرمی میں ماں کا سہارا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بقول شاعر التمش طالب :
بچپن کی شوخیوں کے نظارے بدل گئے
حالات گھر کے دیکھ کے بچے بہل گئے
ہاتھوں میں بیوہ ماں کے جو دیکھیں ہیں آبلے
معصوم بچے گھر سے کمانے نکل گئے
ایسے معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں اسکول کا بیاگ ہونا تھا آج کئی مقامات پر دیکھئے کوئی معصوم بلڈنگ کی تعمیر میں اینٹ اٹھاکر لے جارہا ہے کوئی پنکچر کی دکان میں کام کررہا ہے ہوٹلوں میں جھوٹے گلاس صاف کرتے ہوئے کئی معصوم ہر علاقہ میں نظر آئیں گے کیوں کہ وہ دل میں ایک خواہش لیئے ایسی محنت کرتا ہے کہ جب شام کو گھر جائے تو اس کی ماں کو اپنی کمائی حوالہ کرے اور ماں کا سہارا بنے۔ ایسے موقعوں پر محکمہ لیبر کے کے عہدیدار قوانین کی روشنی میں اپنے فرائض کی تکمیل کرتے ہوئے بچہ کو گھر لوٹ جانے کی ترغیب دیکر مالکین پر قانونی کارروائی کرتے ہیں لیکن ایک دن کی مزدوری سے محروم اس بچہ کے گھر کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ ہر کوئی نہیں لگاسکتا۔ اس لیے کہ

کون دنیا میں سمجھتا ہے کسی اور کا دکھ
ریل کا وزن تو پٹری کو پتہ ہوتا ہے
بچہ جب خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہے تو ماں اس بچہ کو اپنے سینے سے لگاکر روتی ہے کہ آج معصوم کو مزدوری سے محروم کردیا گیا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں قدرت کی عطا ہے لیکن اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا ہمارا انتخاب ہے۔ خودداری کچھ معصوم بچوں میں شعور کی منزلوں میں قدم رکھنے سے قبل ہی آجاتی ہے۔ اس لیے کہ ہر معصوم آپ کو سڑک کے کنارے بھیک مانگتا ہوا نظر نہیں آئیگا جبکہ کئی کمسن سڑکوں پر ٹریفک کے سگنل گرتے ہی گاڑی کے قریب پہنچ جاتے ہیں کہ کچھ نا کچھ دیگا کیوں کہ موٹر گاڑی میں ایک امیر بیٹھا ہے۔ دور جدید کا المیہ یہ ہے کہ
میرا لہجہ میری باتوں کا اثر دیکھتے ہیں
بھیک دینے میں بھی لوگ اب ہنر دیکھتے ہیں
کئی خوددار مائیں جن کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے انہیں نظر انداز کردیا ہر سہارے سے محروم بے بس ہوکر معصوم بچوں کو محنت اور مزدوری کی طرف راغب کرتی ہیں بلکہ کئی خواتین تو خود مزدوری کرتے ہوئے کم اجرت پر اپنے معصوم کو بھی ساتھ مزدوری کراتے ہوئے اپنا پیٹھ بھرنے کے لیے مجبور ہیں۔ کئی مقامات پر ایسے مناظر ہر دن نظر آتے ہیں۔ غریبی کا ذائقہ امیر تو نہیں جانتے یہ بات بھی طے ہے کہ جب غریبی چوکھٹ سے گھر کے اندر داخل ہوتی ہے تو محبت کھڑکی سے بھاگ جاتی ہے۔ ویسے حکومت تلنگانہ نے غریب عوام کے لیے قابل قدر کام انجام دیتے ہوئے ساری ریاست میں اقامتی اسکولوں کا جال بچھادیا اور کروڑ روپیہ کے خرچ سے بچوں کو کتابوں، یونیفارمس ہر وہ ضرورت کی چیز مہیا کرتے ہوئے زیور تعلیم سے آراستہ کررہی ہے لیکن سماج میں کچھ گھرانے ایسے ہیں کہ بچہ کو اقامتی اسکول میں داخلہ دلوادیں تو اس بے سہارا کا کیا ہوگا؟ بچہ کے اسکول میں داخلہ سے غریب مائوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے کئی گھرانے ایسے ہیں سماج میں کہ غریبی نے اپنا پھن پھیلائے رکھا ہے۔ معصوم بچوں کی فاقہ کشی اس شعر سے میل کھاتی ہے
فاقوں نے ایک تصویر بنادی آنکھوں میں
گول ہو کوئی چیز تو روٹی لگتی ہے

اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ آج نئی نسل دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے بے سہارا یتیم و یسیر کی مدد کے لیے متعدد اقدامات کررہی ہے۔ اس کے باوجود کئی گھرانے اس غریبی کی دلدل میں پھنسے ہیں بالخصوص معصوم بچوں کو مزدوری کے لیے مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ اس کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے حکمراں اور سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ بچہ مزدوری کے اسباب کا پتہ لگائیں جس انداز سے مردم شماری کا کام انجام دیا جاتا ہے اس طرز پر بچہ مزدوری کو روکتے ہوئے انہیں اسکول کی سمت دکھائے ساتھ ہی وہ جس کا سہارا ہے اس کو ایک وقت کی روٹی میسر ہو ایسے اقدامات کرے تو یقینا خوددار مائوں کے مسئلہ کی یکسوئی کے ساتھ ساتھ بچہ مزدوری کا خاتمہ بھی ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ
غربت نے سکھادی ہے میرے بچوں کو تہذیب
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
دوسرا اہم پہلو یہ کہ معصوم کی ستم ظریفی بچہ مزدوری کا دلدل ہے تو بے سہارا ضعیف حضرات کی ستم ظریفی جس کو بھوک مٹانے کے لیے کیا نہیں کرنا پڑتا۔ راقم الحروف کے مطالعہ میں ایک واقعہ آیا جس سے سیاسی، سماجی قائدین، دانشوران، ملت سب سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس واقعہ کو قلمبند کررہا ہوں کہ شائد اس واقعہ سے کچھ تو مزدوری کرنے والے بچوں اور ضعیف حضرات کی سماج کے کسی بھی گوشہ سے امداد ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ امریکہ کی ایک ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو ایک روٹی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس نے بجائے انکار کے اعتراف کیا کہ میں نے چوری کی ہے اور جواز بتایا کہ وہ بھوکا تھا اور قریب تھا کہ وہ مرجاتا۔ جج کہنے لگا کہ تم اعتراف کررہے ہو کہ تم نے چوری کی ہے۔ تمہیں دس ڈالر جرمانہ کی سزا سناتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ رقم نہیں ہے اس لیے تم نے روٹی چوری کی ہے لہٰذا میں تمہاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں۔ وہاں موجود مجمع پر سناٹا چھاجاتاہے اور لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے دس ڈالر نکالتا ہے اور اس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم خزانہ میں جمع کرنے کا حکم دیتا ہے۔ پھر جج کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کرکے کہتا ہے میں تمام حاضرین کو دس دس ڈالر جرمانے کی سزا سناتا ہوں اس لیے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں ایک غریب کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چوری کرنی پڑی۔ اس مجلس میں 480 ڈالرس جمع ہوئے اور جج نے وہ رقم بوڑھے مجرم کو دے دی۔ ترقی یافتہ ممالک میں غریب لوگوں کی مملکت کی طرف سے کفالت اس واقعہ کی مرہون منت ہے۔ غور کیجئے دانشوران ملت اور قائدین، کے کبھی کبھی ایک شخص کی سوچ پوری قوم کو بدل دیتی ہے تو بچہ مزدوری کیا چیز ہے۔
کسی غریب کا کب احترام کرتی ہے
لباس دیکھ کے دنیا سلام کرتی ہے
9849172877