بچوں کی تربیت کے کچھ اہم نکات

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی

حدیث پاک میں ہے کہ اپنے بچوں کو تین چیزیں سکھاؤ۔ اللہ رب العزت کی محبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور قرآن کی محبت۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی محبت سے متعلق واقعات سنائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے متعلق واقعات سنائیں اور قرآن پاک کی محبت سے متعلق واقعات سنائیں۔ قصص القرآن کتاب میں اچھے اچھے واقعات ہیں۔ جب بچوں کو کوئی واقعہ سنانا ہو تو سونے سے پہلے سنائیں، تاکہ بچے جب بڑے ہوکر قرآن پاک پڑھیں تو وہ واقعات ان کے دلوں میں پہلے سے ہوں گے۔ علاوہ ازیں صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے احوال بھی سنائیں، تاکہ بچوں کے اندر نیکی کا شوق پیدا ہو اور بچے نیک بن کر زندگی گزارنے کا ارادہ کرلیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اپنے بچوں کو کبھی طعنہ نہ دیں۔ بچے اگر کبھی کوئی غلطی کربیٹھیں تو بچے کو اس کے گناہ اور غلطی کا طعنہ دینا، وہ بھی لوگوں کے سامنے، تو یہ زہر میں بجھے ہوئے تیر کی مانند ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ بچہ سات سال تک ماں باپ کا غلام ہوتا ہے۔ پھر سات سال سے چودہ سال تک وہ ماں باپ کا مشیر ہوتا ہے، یعنی ان کی بات مان لیتا ہے اور کبھی کبھی اپنے مشورے بھی دیتا ہے۔ چودہ سال کے بعد یا پھر وہ ماں باپ کا دوست ہے یا پھر ماں باپ کا دشمن ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ان کی اچھی تربیت کی تو یہ آپ کے غلام بے دام اور آپ کے خدمت گار ہیں۔ آپ کی خوشی میں ان کی خوشی اور آپ کی ناراضگی میں ان کی ناراضگی ہے۔ لیکن اگر آپ نے اچھی تربیت نہیں کی تو پھر چودہ سال کے بعد بچے کی اچھی تربیت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ سخت لوہا کسی کے سامنے رکھ دیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس لوہا کو کسی خاص شکل میں ڈھال دو۔ یقیناً سخت لوہا کا ڈھالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اس لئے بچپن سے ہی اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔

بہت سی ماؤں کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بچہ اپنے باپ کی بات نہیں مانتا۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے کی تربیت اچھی نہیں کی گئی۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بچوں سے اپنی بات منوانے کا گر تلاش کریں اور کھلم کھلا بچوں کو حکم نہ دیا کریں کہ ’’میں یہ یکم دے رہی ہوں کہ تم ایسا کرو‘‘۔ اگر بچے نے نہیں کیا تو وہ آپ کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔ بزرگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ بچوں سے جو بھی بات کہتے، پیار و محبت سے کہتے۔ ’’بیٹا! اگر تم ایسا کردو تو مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ بیٹا! اگر آپ ایسا کردو تو میں بڑی دعائیں دوں گی‘‘۔ جب آپ اس طرح سے بات کریں گی اور بچے نے آپ کی بات مان لی تو واقعی اس کو دعائیں مل جائیں گی اور اگر نہ بھی مانی تو کم از کم وہ گناہ کا مرتکب تو نہیں ہوگا۔ نہ ماننے کی وجہ سے اس پر نحوست تو نہیں پڑے گی۔ بچپن کی عمر لاابالی عمر ہوتی ہے، اس کو ابھی پوری طرح یہ پتہ نہیں ہے کہ بات نہ ماننے کی کیا نحوستیں ہیں، اس لئے ان کو نحوستوں سے بچانے کے لئے ان سے مشورتاً بات کیا کریں۔ ماں تو بڑی رحیم و کریم ہوتی ہے، کبھی بھی بچے کے دل کی ظلمت کو پسند نہیں کرتی۔ جو ماں اپنے بچے کے جوتے کی نوک کو بھی چمکاکر رکھتی ہے، اگر برش نہیں ملتا تو اپنے دوپٹہ سے صاف کردیتی ہے، وہ اپنے بیٹے کے دل کی ظلمت کو کس طرح پسند کرسکتی ہے، مگر اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اسے اپنے بچے کی تربیت کس طرح کرنی ہے۔

جب بچے ذرا بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ ماں باپ سے سوال کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کئی بچے تھوڑے سوال پوچھتے ہیں اور کئی بچے زیادہ سوال کرتے ہیں، جو بچہ زیادہ سوال کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زیادہ ذہین ہے۔ بچوں کے سوال کرنے پر گھبرائیں نہیں، بلکہ ان کو جواب دینے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ بہت سی مائیں یہ دھمکی دینے لگتی ہیں کہ ’’ہر وقت کیا پوچھتے رہتے ہو؟ خاموش رہو‘‘۔ بچہ آپ کی ناراضگی پر خاموش تو ہو جائے گا، مگر اس کے ذہن سے سوال نہیں نکلے گا اور وہ تنہائی میں بیٹھ کر سوچتا رہے گا۔ آپ نے ایسا کرکے شیطان کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ بچے کے ذہن میں یہ بات ڈالے کہ ’’میری امی کو کچھ نہیں معلوم۔ میری امی کو نہ دین کا پتہ ہے نہ دنیا کا‘‘۔ یعنی وہ آپ کے خلاف بیٹھ کر سوچے گا۔ لہذا بچوں کے سوالات سے گھبرانا نہیں چاہئے، وہ جتنے بھی سوالات پوچھیں، تحمل مزاجی کے ساتھ مختصر جواب دیتی رہیں، حتی کہ بچہ مطمئن ہو جائے۔ یہ بات بچے کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ہر چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، اس لئے اس کو ایک فطری عمل سمجھتے ہوئے بچوں کی باتوں کا جواب دیں اور اگر آپ کو کسی سوال کا جواب نہ معلوم ہو تو اپنے کسی بڑے سے معلوم کریں اور پھر جواب دے کر بچے کو مطمئن کریں۔ اس طرح بچے اپنے ماں باپ کے فرماں بردار ہو جاتے ہیں اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ ہماری ماں جو کچھ کہتی ہیں، وہ سوچی سمجھی بات ہوتی ہے، جب کہ میرا کام تو صرف اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

بعض بچے شروع میں کند ذہن ہوتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ساری زندگی کند ذہن رہیں گے۔ اگر آپ نے بچے کے ذہن کو سمجھ لیا ہے تو اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کریں اور اسی طرح سے اس کو تعلیم دیں۔ آپ پر فرض ہے کہ اپنے بچے کو علم سکھائیں، اگر اس نے علم حاصل کرلیا تو اس کے لئے زندگی گزارنا آسان ہو جائے گی اور ذہنی کمزوری کے باوجود وہ ایک بہترین انسان بن جائیں گے۔ بچے کی کمزور حالت دیکھ کر ناامید نہیں ہونا چاہئے، البتہ ایسے بچوں کے ساتھ محنت کچھ زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ مگر تربیت اسی کا نام ہے کہ ماں اپنے بچے کی اچھی تربیت کرے، اگر ماں نے بچے کی اچھی تربیت کی تو اس کے بدلے اس کو جنت ملے گی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہوگا، لہذا اپنی ذمہ داری سمجھ کر بچوں کو اچھی طرح سمجھائیں اور ان کی اچھی سے اچھی تربیت کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ اپنے معذور بچوں کو بھی تعلیم دیتے ہیں اور لوگ اپنے نابینا بچوں کو عالم، حافظ اور قاری بنادیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ بچوں کی ذہنی صلاحیت ابھرنے میں دیر لگتی ہے، شروع میں وہ غبی ہوتے ہیں، یعنی ان کو سمجھا جائے تو سمجھتے نہیں ہیں۔ اگر بچے کی کند ذہنی معلوم ہو جائے تو گھبرائیں نہیں، کیونکہ تھوڑا سا بڑا ہوکر اس کی ذہنی صلاحیتیں کھل سکتی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو ہمیشہ اچھی اچھی باتیں بتایا اور سمجھایا کرتے تھے۔ (تربیتی بیانات سے اقتباس)