ڈاکٹر مجید خان
والدین کے ہاتھوں بچوں کی اذیت رسانی بہت عام ہے، مگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوا کرتا ہے۔ میڈیا کی وجہ سے ایسے واقعات اب زیادہ دیکھنے میں آرہے ہیں، مگر میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ بہت عام بات ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں میں نے ایسا ایک کیس دیکھا ہے۔
ایک فیملی مشورہ کے لئے آتی ہے، اوسط گھرانے کے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ والد صاحب کے بے انتہا غصہ کے علاج کے لئے یہ لوگ آتے ہیں اور ماں صاف صاف اپنے شوہر کے غصے اور تشدد کا ذکر کرتی ہے اور اس کا علاج چاہتی ہے۔ لوگ اب جاننے لگے ہیں کہ ایسا جنگلی غصہ نیم پاگل پن کی علامت ہے اور آج کل کی مؤثر دواؤں کے ذریعہ اسے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ تعجب مجھے یہ ہو رہا تھا کہ غصہ والے صاحب خاموش ہیں اور یہ نہیں کہتے کہ مجھے غصہ خواہ مخواہ نہیں آتا۔ اگر کوئی ناگوار بات یا واقعہ پیش آئے تو غصہ کا آنا فطری بات ہے، غصہ کس کو نہیں آتا؟۔ اس قسم کی صفائی جو اکثر غصہ والے افراد دیتے ہیں، انھوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا غصہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے اور ان کی آمد خود علاج کے لئے رضامندی کا اظہار تھا۔ ساتھ میں بچے بھی تھے، مگر ایک 6 سالہ بچے کے ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا۔ میری توجہ اس پر اس لئے پڑی کہ وہ بہت چلبلا تھا اور خاموش نہیں بیٹھ رہا تھا۔ میں نے جب پوچھا کہ اس کے ہاتھ پر پلاسٹر کیوں ہے؟ تو سب پر خاموشی طاری ہوگئی، مگر پلاسٹر والا بات کو سمجھ گیا اور میری طرف دیکھنے لگا۔ گوکہ وہ خاموش تھا، مگر اس کی آنکھیں میرے سوال کا جواب باپ سے چاہ رہی تھیں۔ بیوی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! اسی لئے ہم آپ کے پاس آئے ہیں۔ یہ چھوٹا بچہ بہت شریر ہے، سیڑھیوں پر کھیل رہا تھا، باپ کے کئی بار بلانے کے باوجود نہیں آیا تو غصے میں یہ اوپر گئے اور اس کو بری طرح سے مارا اور ڈھکیل دیا، جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں فریکچر آگیا۔ اس کے بعد ان کو افسوس ہوا اور اس بات کو انھوں نے تسلیم کیا کہ جب وہ طیش میں آتے ہیں تو غصے سے بے قابو ہو جاتے ہیں۔
آج کل غصے کا علاج بہت عام ہو گیا ہے اور مناسب دواؤں کے استعمال سے یہ انتہائی کیفیت کم ہو جاتی ہے۔ اس دوا کی خوبی یہ ہے کہ لوگ ایک بار جب اس کو استعمال کرتے ہیں اور واضح طورپر دیکھتے ہیں کہ ان کا غصہ کم ہو گیا ہے تو علاج کے مقصد سے رجوع ہو جاتے ہیں۔
شریر بچے نہ صرف والدین کے غصے کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ اسکولوں میں اساتذہ سے بھی سزا پاتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بعض اساتذہ بھی غصے والے ہوتے ہیں اور بچوں کو سخت سے سخت سزا دیتے ہیں، جس کی تفصیل میڈیا میں اکثر دکھائی جاتی ہے۔ آخر ان سزاؤں کا مقصد کیا ہے؟ اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ جب میں سخت سزائیں دینے والے اساتذہ سے پوچھتا ہوں کہ وہ ایسی سخت سزا کیوں دیتے ہیں؟ تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بچے بہت ضدی اور شریر ہیں اور صرف سزا کے ذریعہ ہی ان کو ڈرایا جاسکتا ہے اور بغیر سزا کے کلاس میں ڈسپلن برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک ماہر نفسیات جانتا ہے کہ جسمانی اذیت رسانی یقیناً ڈر اور خوف پیدا کرتی ہے، مگر نادان اساتذہ یہ نہیں جانتے کہ اس ڈر اور خوف کے پیچھے بچوں کی پھلتی پھولتی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے، اس کی خود اعتمادی محروح ہو جاتی ہے اور وہ ڈرپوک بن جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اچھے سے اچھے اسکول کے طلبہ اچھے درجوں میں کامیاب ہوکر نکلتے ہیں، مگر خود اعتمادی اور ہمت ان میں کم ہوتی ہے، یعنی ان کی شخصیت کمزور ہو جاتی ہے۔ یہ بچے اپنے آپ کو نفسیاتی طورپر کمزور سمجھنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی اپنی پہچان و شناخت متزلزل ہو جاتی ہے۔ ڈر اور خوف کا ایک غیر ضروری جز جن طلبہ کی غور و فکر میں داخل کیا جاتا ہے اور ان کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ٹیچر کی عدول حکمی نہ کی جائے اور اپنی آزادی ان کی خوشنودی کے لئے قربان کردی جائے، تو ظاہر ہے کہ ان میں احساس کمتری بڑھ جائے گا اور وہ دوسروں کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے نہیں دیں گے، یعنی ان میں جو اندرونی خواہش اپنی صلاحیتوں کے مکمل استعمال کی ہوتی ہے، وہ کمزور پڑ جاتی ہے۔
اساتذہ یہ نہیں جانتے کہ کلاس کا موقتی نظم طلبہ کو سزا دے کر جو وہ حاصل کرتے ہیں، وہ طلبہ کی ابھرتی شخصیت کے ہر پہلو کو کمزور کرتا جائے گا۔ ایسی سزاؤں کے بڑے دور رس نقصانات ہو سکتے ہیں۔ تعلیم تو وہ حاصل کرلے گا، مگر نفسیاتی طورپر وہ کمزور شخصیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ یہ احساس اس کو عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ہوتا ہے، جب وہ شخصیت سازی کی فکر کرتا ہے۔
اذیت رسانی کیا ہے؟۔ آج کل TORTURE لفظ اتنا عام ہو گیا ہے کہ معمولی تکلیف کو بھی TORTURE کہا جا رہا ہے، مثلاً سسرال میں بچی کو TORTURE دیا جا رہا ہے، انتہائی جسمانی اذیت کو بھی TORTURE کہا جاتا ہے۔ اذیت رسانی، جس کے تعلق سے میں لکھ رہا ہوں، وہ اتنی سنگین نہیں ہوتی۔ اکثر میں دیکھتا ہوں کہ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی جھوٹ بولے یا پھر والدین کی مرضی کے خلاف کچھ کربیٹھے تو ان کو کمرے میں بند کرکے کھانا پینا بند کردیا جاتا ہے۔ اذیت رسانی کی درجہ بندی ہوتی ہے، معمولی اذیت ڈانٹنے ڈپٹنے سے ہوتی ہے اور اس میں مار توڑ نہیں ہوتا۔ اسکول میں شریر بچے جو کمزور بچوں کو تنگ کرتے ہیں، وہ بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے اور اس کو Bullying کہا جاتا ہے۔ اردو میں اس کو ’’ستانا‘‘ کہتے ہیں۔ حال حال میں یہ بہت ہی تکلیف دہ اور ناقابل برداشت ہونے لگی تھی۔ کئی حساس لڑکے اور لڑکیاں اس کی وجہ سے خودکشی کربیٹھے۔ اسی لئے اس کے تدارک کے لئے سخت قانون نافذ کئے گئے اور اس کے اثرات اب دکھائی بھی دے رہے ہیں۔ گھریلو تشدد والے بھی اب قانون کی گرفت میں آرہے ہیں۔ یہ ایک اچھے اور صحت مند معاشرہ کا مظہر ہے۔
بچوں پر جو ظلم ڈھایا جاتا ہے، جس سے وہ بشکر نجات حاصل نہیں کرسکتے، بحالت مجبوری برداشت کرتے رہتے ہیں، ان کی ذہنی صلاحیتیں تو متاثر نہیں ہوتیں، مگر شخصیت کی کار کردگی ناکارہ ہو جاتی ہے۔ کئی ایسے نوجوان ہیں، جو اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ وغیرہ بھی چلے گئے، مگر اپنی شخصیتوں کی کمزوریوں کو سمجھ نہیں پاتے اور ترقی کے زینے چڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ بچپن کے نفسیاتی صدمہ سے ان کی شخصیت متاثر ہوئی ہے۔ ہر بچہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی خاص شخصیت سے واقف ہو اور یہ جانے کہ دوسروں سے وہ کس طرح الگ ہے۔ اپنے حدود اور دسروں کی کار کردگی کے حدوں کو اچھی طرح پہچانے۔ دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ خود ستائی یعنی اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا اور اپنے آپ کو کمتر نہ سمجھنا، کیونکہ اس کی زیادتی بری سمجھی جاتی ہے۔ Self Esteem مسقبل کی راہوں سے واقفیت اور ان کی کامیاب منزلوں کی طرف گامزن رہنا، دوسروں سے میل ملاپ اور ہمدردی ایک کامیاب شخصیت کا ضروری جز ہیں۔ اپنی شناخت اور پہچان شخصیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔
شخصیت کا دوسرا اہم پہلو جو کامیابی کے لئے ضروری ہے، وہ ہے تعلقات۔ دوسروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا اور برقرار رکھنا زندگی کی ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ شادی کے بعد اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ شکوک و شبہات سے پاک غصے اور تشدد سے مبرا شخصیت آپ کا نصب العین ہونا چاہئے۔ بچوں کو سزا دینے کے بعد وہ ماں باپ جو پیار و شفقت کا اظہار بھی کیا کرتے ہیں، ان صدموں کے دور رس اثرات کو کم کردیتے ہیں۔ لہذا عہد کرلیجئے کہ آپ کسی کمسن اور بے قصور کو اذیت نہیں پہنچائیں گے، چاہے وہ آپ کی اولاد ہو یا آپ کا شاگرد۔