محمد مصطفی علی سروری
اکتوبر کی 15؍ تاریخ تھی جب ممبئی کے بانگور نگر پولیس کو ایک لاوارث سوٹ کیس کے بارے میں اطلاع ملتی ہے۔ پولیس جب جائے وقوع پر پہنچتی ہے تو سوٹ کیس میں سے ایک لڑکی کی نعش برآمد ہوتی ہے۔ ممبئی پولیس علاقے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے اندرون دو گھنٹے نہ صرف نعش کو سوٹ کیس میں رکھ کر کس نے چھوڑا ہے اس کا پتہ لگالیتی ہے بلکہ نعش کس کی ہے وہ بھی کھوج لیتی ہے۔ قارئین 15؍اکتوبر کے اس واقعہ کی خبر اگلے دن ممبئی کے سبھی اخبارات میں شائع ہوئی۔ اخبار دی ہندو نے اس خبر کی سرخی یوں لگائی "Mumbai Police Crack Model’s Murder in 2 Hours”۔ سوٹ کیس میں آخر کس لڑکی کی نعش تھی اور اس لڑکی کو کس لیے قتل کیا گیا اور سب سے اہم سوال کہ اس لڑکی کا قاتل کون ہے جس کو پولیس نے اندرون دو گھنٹے ڈھونڈ نکالنے کا دعویٰ کیا، ان سب سوالات کے جوابات 20؍ اکتوبر کو ممبئی کے اخبار مڈ ڈے میں شائع ہوئی ایک تفصیلی رپورٹ سے مل جاتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سوٹ کیس میں جس لڑکی نعش ملی اس کی عمر 22 برس تھی اور راجستھان سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی ماڈلنگ کا کام کرتی تھی اور اس کا نام مانسی ڈکشٹ تھا۔ گذشہ کچھ عرصے سے یہ لڑکی ممبئی میں مقیم تھی۔ خیر یہ تو اس لڑکی کی شناخت ہوئی اور پولیس نے جس نوجوان کو ماڈل کے مبینہ قاتل کے طور پر پیش کیا اس لڑکے کی عمر صر ف 19 برس بتلائی گئی۔ سید مزمل نام کے لڑکے نے ہی پولیس کے مطابق مانسی ڈکشٹ کا قتل کیا اور پھر نعش کو سوٹ کیس میں رکھ کر بانگور نگر ممبئی میں چھوڑ دیا۔قارئین اس خبر کا ذکر۔ یہاں پر اس لیے ضروری تھا کہ اس مسئلے کی سنگینی کو بیان کیا جائے جس کو آج کے کالم میں موضوع بحث بنانا مقصود تھا۔ یہ مسئلہ مسلمانوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جی ہاں میری مراد مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد کا جرائم کی طرف راغب ہونا ہے۔
ممبئی کے اخبارات نے جب مانسی ڈکشٹ کے مبینہ قاتل کی تصاویر اپنی رپورٹ کے ساتھ شائع کی تو دیکھنے والے حیرت میں پڑگئے کہ ایک ایسا گورا چٹا لڑکا جس کے چہرے پر ابھی برابر سے مونچھیں بھی نہیں اُگی کیسے اس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کرسکتا ہے۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں مسلم لڑکیوں کو موبائل فون نہیں دلانا چاہیے کیونکہ موبائل فون استعمال کر کے لڑکیاں بگڑ تی جارہی ہیں۔ میرا سوال ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ استعمال کر کے مسلم لڑکے کونسا تیر مار رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے ممبئی کے اس لڑکے کی کہانی کو 19 سال کے مزمل نام کے نوجوان کی 22 سال کی ماڈل مانسی ڈکشٹ سے انٹرنیٹ کے ذریعہ دوستی ہوتی ہے۔ مزمل خود کو ایک فوٹو گرافر کے طور پر پیش کرتے ہوئے مالنی سے دوستی کرتا ہے اور پھر مانسی کو آفر کرتا ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنا فوٹو شوٹ کروائے گی، تب اس کو بہت سارا کام مل سکتا ہے۔ مانسی، مزمل کی باتوں کو سچ مان کر اس کے ذریعہ فوٹو کھچوانے کے لیے تیار ہوجاتی ہے، تب مزمل اس کو اپنے فلیٹ پر طلب کرلیتا ہے۔ اپنی تصاویر اتروانے کے لیے جب مالنی کپڑے بدلنے لگتی ہے تو مزمل خفیہ (Spy) کیمرے سے اس کی فوٹوز اتارنے کی کوشش کرتا ہے لیکن مانسی کو جب یہ معلوم ہوتا ہے تو وہ بجائے مزمل کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے پولیس میں شکایت کرنے کی دھمکی دیتی ہے اور مزمل کے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیتی ہے تو مزمل اپنے سے تین سال بڑی اس لڑکی کو پکڑ کر اس کا گلہ دبادیتا ہے اور اس ماڈل کو مارنے کے بعد اس کی نعش سوٹ کیس میں رکھ کر ایک سنسان مقام پر چھوڑدیتا ہے۔ (بحوالہ اخبار مڈ ڈے ۔ 20؍ اکتوبر)
مزمل نام کے اس معصوم سے چہرے کے پیچھے ایک مجرم کی شناخت کرتے ہوئے اخبار ہندوستان ٹائمز نے 18؍ اکتوبر کو ہی اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اس نوجوان نے تین برس قبل اپنی ہی ماں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا تھا۔ ہاں قارئین آپ لوگ یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ کیا کسی ایک واقعہ کو بنیاد بناکر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم نوجوان بڑی تیزی سے جرائم کی طرف راغب ہو رہے ہیں؟ جی ہاں آپ لوگوں کا سوال بالکل درست ہے لیکن میرا یہ نقطۂ نظر صرف ایک واقعہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ میڈیا میں شائع ہونے والی ان مسلسل خبروں کی بنیاد پر ہے جس میں مسلم نوجوان ملوث ہیں اور یہ رجحان کسی ایک علاقے، شہر یا ریاست کا نہیں بلکہ ملک گیر سطح پر سارے مسلمانوں میں عام ہو رہا ہے۔
آیئے اب اس خبر کا تجزیہ کرتے ہیں جو 22؍ اکتوبر کو دہلی کے اخبار ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق دہلی کے رہنے والے کامل نام کے نوجوان کو اپنی بیوی ریشماء کے چال چلن پر اس قدر شک ہوگیا کہ اس نے ریشماء کا گلہ دباکر اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق 24 سال کا کامل دہلی یونیورسٹی کے کالج میں بطور چپراسی کام کرتا ہے۔ تین سال پہلے اس کی شادی ریشماء سے ہوئی۔ 22 سال کی ریشما کو اس شادی سے ایک دو سال کی چھوٹی سی لڑکی بھی ہے۔ کامل نے دہلی پولیس کے روبرو خود اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے بتلایا کہ اس کو اپنی بیوی کے چال چلن پر شبہ تھا، اس لیے اس نے اس کا گلہ دباکر اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اپنی دو برس کی بیٹی کو گود میں اٹھائے پولیس میں اپنے آپ کو سپرد کردیا۔
قارئین سونچئے گا کہ مسلمانوں میں جرائم کے بڑھنے کا ایک اہم سبب ان کے اندر سے ختم ہونے والا صبر و تحمل کا مادہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرپارہے ہیں۔ ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کو بھی بنیاد بناکر ہم مرنے مارنے کے لیے آمادہ ہوگئے ہیں۔ یہ صرف بڑوں کی بات نہیں بلکہ ہمارے بچے بھی اسی نہج پر چل رہے ہیں اور اپنی پسند کی چیزوں کو حاصل کرنے کسی کو بھی قتل کرنے سے نہیں شرمارہے ہیں۔ ممبئی کے مشہور اخبار مڈ ڈے کی ایک رپورٹ 23؍ اکتوبر کو شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق 14 سال کے محمد نام کے لڑکے کو اس کے والد ایک مہنگا فون دلاتے ہیں۔ محمد کے ہاں قیمتی فون کو دیکھ کر اس کے دوستوں کو چاہت ہوتی ہے کہ وہ بھی اس طرح کا قیمتی فون حاصل کریں اور محمد کے والد 47 سالہ شبیر خان کے مطابق محمد کے ساتھیوں نے محمد کے ہاں سے اس کا فون لینے کے لیے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور محمد کو چلتی ٹرین کے سامنے دھکیل دیتے ہیں۔
ایک واقعہ خود شہر حیدرآباد کا ہے، رین بازار پولیس اسٹیشن کے حدود میں 18؍ اکتوبر کو قتل کی ایک واردات پیش آتی ہے جس کے دوران یاقوت پورہ علاقے میں ایک نوجوان محمد جاوید کا تین افراد نے مل کر قتل کردیا۔ رین بازار پولیس کے انسپکٹر کے حوالے سے ٹائمز آف انڈیا نے لکھا کہ قتل کرنے والے نوجوانوں کی عمریں بالترتیب 20، 21 اور 23 سال ہیں۔ اور قتل کی وجہ ناجائز تعلقات بتلائی گئی ہے۔
کتنی خبروں کو نظر انداز کریں؟ آخر کو ہر روز کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی خبر سامنے آرہی ہے اور اس نظریہ کو تقویت مل رہی ہے کہ مسلمانوں کی جرائم میں بڑھتی ہوئی شمولیت اب ایک سنگین شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ کیا کوئی تنظیم ہے جو ان مسائل کے لیے کام کرتی ہے۔ جس کے سب مسلم نوجوانوں کے لیے جرم کا راستہ اختیار کرنا آسان ہوگیا ہے۔
اگر ہم ممبئی میں ماڈل مالنی ڈکشٹ کے مبینہ قاتل کے حوالے سے غور کریں تو خلاصہ واقعہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے بچے 18 اور 19 سال کی عمر میں جسمانی اور جنسی طور پر متحرک ہورہے ہیں اور جس مذہب اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ہر طرح کے جسمانی اور دیگر گناہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے چار چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے وہاں مسلم معاشرے کا عالم یہ ہوگیا کہ 30 برس گذر جانے کے بعد بھی لڑکے، لڑکیوں کی شادیاں، دشوار بنادی گئی ہیں اور settle ہونے کی چکر میں نوجوانوں کے چہروں پر بزرگی کے آثار نمودار ہورہے ہیں اور ان کی شادیاں نہیں ہو رہی ہیں۔
جو لوگ ملت کے لیے درد رکھتے ہیں اور نوجوانوں کو جرائم سے رغبت پر پریشان ہیں وہ مسلم معاشرے میں نکاح کو آسان تر بنانے کا کام کریں۔
دہلی کے چپراسی کی جانب سے اپنی بیوی کے چال چلن پر شک اور پھر قتل کی واردات کا تجزیہ کریں اور حل ڈھونڈیں کہ ہمارے اطراف و اکناف میں اگر کوئی نوجوان جوڑا اس طرح کے مسائل سے دوچار ہے تو ہمارے ہاں اس کا حل کیا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان شک و شبہ زندگیوں کو بگاڑنے کا ایک اہم سبب ہے اور جب میاں بیوی مسلمان ہوں تو یقینا دین اسلام میں اس طرح کے واقعات کے لیے رہبری موجود ہے۔ کیا ہماری دینی جماعتیں، ہماری مساجد اور ہمارے ملی ادارے عملی طور پر مسلم سوسائٹی میں رونما ہونے والے مسائل کے حل کے لیے کام کر رہی ہیں۔ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔
ممبئی میں ریلوے ٹرین کے سامنے ایک 14 برس کے بچے کے دھکیل دینے کی خبر کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ بچوں کی تربیت میں ہم والدین سے دو طرح کی کوتاہی ہو ریہ ہے۔ ایک تو ہمارے بچے اپنی دولت کی، اپنے مال و متاع کی نمائش کرنا پسند کرتے ہیں۔ جن بچوں کے روبرو مال و دولت کی نمائش کی جارہی ہے وہ محرومی کے احساس سے اور حسد و جلن کے جذبے سے متاثر ہوجائیں تب ایک موبائل فون حاصل کرنے کے لیے بچوں کا اپنے ہی ساتھی کو موت کی نیند سلادینے سے پیچھے نہ ہٹنا اسی بات کو ثابت کرتا ہے۔ جہاں مالداروں کو اپنی دولت کی نمائش سے بچنا ضروری ہے وہیں پر غریب اور محروم لوگوں کے لیے اپنے بچوں کو یہ تعلیم دینا ضروری ہے کہ ان کے ہاں اگر کچھ چیزیں نہ ہوں تو صبر کرنا بھی چاہیے اور حلال طریقے سے محنت کر کے کماکر بھی ان چیزوں کو حاصل کرنے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ شہر حیدرآباد کے علاقہ یاقوت پورہ کے قتل کی واردات کی تفصیلات کا تجزیہ کریں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ وہی امت مسلمہ ہے جس کو اس کے مذہب نے جنسی بے راہ روی سے محفوظ رہنے کے لیے نہ صرف روزے رکھنے کی تعلیم دی بلکہ کچھ شرائط کے ساتھ چار نکاح کرنے کا اختیار بھی دیا اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ جس قوم کو چار شادیاں کرنے کا الزم لگاکر مذاق کا اور تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس قوم کے نوجوان ناجائز تعلقات کے الزامات کے سبب موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں اور مسائل کے حل کا کیا۔ یہی شرعی طریقہ ہے کہ جہاں کسی سے اختلاف ہوجائے اور جہاں لڑائی جھگڑا ہوجائے وہاں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا جائے۔پہلے تو ہمارے معاشرے میں شادیاں مشکل بنادی گئی اور شادیاں ہو بھی رہی ہیں تو بے جوڑ شادیاں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ صبر و تحمل نام کی کوئی بھی چیز اب باقی نہیں بچی ہے۔ عدم برداشت کا مادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
قارئین کیا مجھے اور آپ کو ان واقعات پر کچھ دیر کے لیے غور کرنا چاہیے یا نہیں؟ یہ طئے کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ میں یہ سونچ کر پریشان ہوجاتا ہوں کہ اگر میں مسلمان ہوں تو مسلمانوں کے ان مسائل پر مجھے فکر اور تکلیف کیوں نہیں ہوتی میں یہ سونچ کر کیوں اطمینان کرلیتا ہوں کہ ارے بھائی ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ خراب ہوتا رہا ہے، کیا ہر ایک کا میں نے ہی ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ میں تو اللہ رب العزت کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ ہم سب کو پکا اور سچا مسلمان بنادے۔ ایسا مسلمان جس کے متعلق کامیاب ہونے کی خوش خبری سنادی گئی ہے۔ میں تو اس بات کے لیے دعاء کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنے بچوں کو شیر نہیں انسان بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
sarwari829@yahoo.com