بابری مسجد …23 برس سے انصاف سے محروم
یو پی میں فرقہ وارانہ صف بندی کی کوشش
رشید الدین
بابری مسجد کی شہادت کو 23 برس مکمل ہوگئے لیکن آج تک انصاف نہیں ملا اور نہ ہی شہادت کے ذمہ داروں کو جرم کی سزا دی گئی۔ اس تاریخی مسجد کی شہادت کے ذریعہ جارحانہ فرقہ پرست عناصر نے دنیا بھرمیں ملک کے وقار کو مجروح کیا۔ ملک کے ہر سیکولر شہری کیلئے یہ سانحہ ہر سال زخموں کو تازہ کرتا ہے اور پتہ نہیں آئندہ مزید کتنے برس تک یہ زخم ہرا رہے گا۔ دستور کی پاسداری اور ملک سے نفرت اور عدم رواداری کے خاتمہ کا پارلیمنٹ میں عہد تو کیا گیا لیکن کسی حکومت نے انصاف رسانی کی کوشش نہیں کی۔ مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس زیر قیادت یو پی اے اور بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومتوں کا دور آیا لیکن بابری مسجد انصاف کو ترستی رہی۔ کانگریس ہو یا بی جے پی انہیں مسجد ۔مندر مسئلہ پر سیاست کرنے سے فرصت نہیں، لہذا سیاسی پارٹیاں بھی اس مسئلہ کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ یہ مسئلہ عدالت میں زیر التواء ہے لیکن سنگھ پریوار اور بی جے پی اس کے سیاسی فائدہ کیلئے سرگرم ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک مسائل برقرار رہیں گے، مذہبی ٹھیکیداروں کی سیاست بھی چلتی رہے گی۔ آزادی کے 66 برس بعد بھی قانون سازوں کو دستور کی پاسداری کا عہد کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
پارلیمنٹ دستور اور عدم رواداری کے مسئلہ پر گرما گرم مباحث کی گواہ بن گئی۔ ظاہر ہے کہ سیاستدانوں نے گزشتہ 68 برس میں دستور کو جس طرح پامال کیا، انہیں پاسداری کا حلف لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ حکومت اور بالخصوص وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں کیا کچھ نہیں کہا۔ حکومت کا مذہب ہندوستانیت اور حکومت کی مذہبی کتاب دستور ہند کا نعرہ لگایا گیا۔ نریندر مودی نے کسی بھی ظلم کے واقعہ کو سماج اور قوم پر دھبہ قرار دیا۔ ملک کے کسی شہری کی حب الوطنی شبہ سے بالاتر ہے، یہ الفاظ پارلیمنٹ میں نریندر مودی کے تھے جو ایک طرف ہندوستانی شہریوں کی حب الوطنی کا اعتراف کر رہے ہیں تو دوسری طرف حب الوطنی کو چیلنج کرنے والی طاقتوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے امن کے دشمنوں اور عدم رواداری کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بات کہی۔ کاش ان کے بیانات عمل کے زاویہ سے کھرے اترتے۔ ایسے عہد اور اعلانات کا کیا فائدہ جو حلق کے نیچے نہ اُترسکیں۔ وزیراعظم نے ملک و بیرون ملک ایک سے زائد مرتبہ اسی طرح کے بیانات دیئے تھے۔ ملک میں بابری مسجد کی شہادت سے بڑا ظلم کا کونسا واقعہ ہوگا؟ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نریندر مودی کی پارٹی اور ان کی سیاسی سرپرستی کرنے والے سنگھ پریوار کے قائدین کس بات کے ذمہ دار ہیں۔ نریندر مودی کو اب یہ طئے کرنا ہے کہ بابری مسجد کی شہادت سے ملک پر جو بدنما داغ لگا ہے ، اسے کس طرح دھویا جائے گا۔ مودی ہر ہندوستانی شہری کی حب الوطنی کی تصدیق کر رہے ہیں لیکن ان کے پارٹی کے قائدین مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیتے ہوئے پاکستانی ٹورازم کے برانڈ ایمبسیڈر بن چکے ہیں۔ نفرت اور عدم رواداری جس پر آج ہر فورم میں مباحث جاری ہیں ، وہ اس وقت بھی موجود تھی، جب ملک تقسیم ہورہا تھا ۔
تقسیم ہند کے بعد سے سلگتی نفرت اور عدم رواداری کی چنگاری 1990 ء میں رام مندر تحریک سے بھڑک اٹھی ، اس کا نتیجہ 1992 ء میں بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں نکلا۔ یہ دراصل مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں سے نفرت کا جذبہ ہی تھا جو مسجد کی شہادت کا سبب بنا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کے دانشور اور مصنفین نے آج کی طرح نفرت اور عدم رواداری کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تھی۔ نفرت کے سوداگر اور عدم رواداری کے پرچارک ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے سر اٹھاتے رہے ہیں لیکن وقت کے حکمرانوں نے ان کی سرکوبی نہیں کی۔ سیکولرازم کے نام نہاد دعویدار بھی مصلحتوں کا شکار نظر آئے جبکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے تو اسے ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور ان طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ یوم شہادت بابری مسجد سے عین قبل آر ایس ایس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے کولکتہ میں کار سیوکوں کی یاد میں منعقدہ تقریب میں رام مندر کی جلد تعمیر کا عہد کیا ۔ اس طرح انہوں نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی ہے۔ موہن بھاگوت کا یہ بیان دراصل توہین عدالت کے دائرہ میں آتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میںزیر دوران ہے۔ افسوس کہ کسی حکومت میں یہ ہمت نہیں کہ توہین عدالت کا مقدمہ درج کرے۔ موہن بھاگوت ہی نہیں اور بھی سنگھ پریوار کے قائدین سابق میں بھی کھل کر رام مندر مسئلہ پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔
ان کا مقصد دراصل اترپردیش میں انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ صف بندی ہے۔ مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا خواب دیکھنے والے کئی قائدین اپنے خوابوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ مسلمانوں کو ملک کی عدلیہ پر بھروسہ ہے کہ وہ دستیاب شواہد کی روشنی میں انصاف کرے گی۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی صلاح دی اور یہ تجویز مسلمانوں کو ہرگز قابل قبول نہیں۔ بی جے پی و سنگھ پریوار تو چاہیں گے کہ یہ زخم ہمیشہ تازہ رہے تاکہ مذہبی منافرت پر مبنی سیاست کرنے کا موقع ملے۔ رام مندر، یکساں سیول کوڈ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی تنسیخ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ میں شامل ہے اور بی جے پی نے اسے انتخابی منشور میں شامل کرلیا۔ کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ اقتدار میں شراکت کے سبب دفعہ 370 کو پس پشت ڈال دیا گیا جبکہ رام مندر کی تعمیر اور یکساں سیول کوڈ کی تلواریں ابھی بھی لٹک رہی ہیں۔ جب تک بی جے پی کا اقتدار رہے گا یہ خطرہ برقرار ہے۔ پارلیمنٹ میں نریندر مودی کے بول اور سنگھ پریوار کے عمل میں تضاد ہے۔ اگر بی جے پی کو دستور کی پاسداری کا اتنا ہی خیال ہے تو اسے منشور سے تینوں متنازعہ مسائل کو حذف کرنا چاہئے ۔ جس پارلیمنٹ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے رواداری کا درس دیا ، اسی بحث میں حصہ لیتے ہوئے مرکزی وزیر تھاور چند گہلوٹ نے بی جے پی منشور کے تینوں موضوعات کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر عمل آوری کا مطالبہ کیا لیکن حکومت کے کسی وزیر نے انہیں متنازعہ مسائل اٹھانے سے نہیں روکا۔
جس طرح ملک میں قاتلوں کو بچانے کا چلن عام ہوچکا ہے ، اسی طرح بابری مسجد کے قاتلوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے ۔ اتنا ہی نہیں انہیں اہم عہدوں سے نوازا گیا۔ دستور کو ملک کی مذہبی کتاب کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل آوری کریں تو کچھ بات بنے۔ گجرات کے بھیانک فسادات کے وقت جنہوں نے دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائیں، ان سے ملک میں رواداری کی امید کرنا عبث ہے۔ وزیراعظم پہلے عدم رواداری اور نفرت کا پرچار کرنے والے اپنے پارٹی قائدین پر کارروائی کریں۔ جب ملک کے وزیر داخلہ کو دستور میں لفظ سیکولرازم پر اعتراض ہو تو ملک میں رواداری کہاں باقی رہے گی۔ خود نریندر مودی کو وزیراعظم کے عہدہ پر 18 ماہ مکمل ہوگئے لیکن وہ ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکے جس میں عدم رواداری کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہو۔ ملک اور بیرون ملک اپنے مشیروں کی لکھی تحریروں کو پڑھنا کوئی کمال نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے لئے سنگھ پریوار اور بی جے پی کے ساتھ کانگریس پارٹی بھی برابر کی ذمہ دار ہے ۔ پی وی نرسمہا راؤ حکومت اپنے دستوری فریضہ کو انجام دینے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ سنگھ پریوار کو مسجد کی شہادت کا مکمل موقع فراہم کیا گیا۔ اگر مرکز چاہتا تو اس سانحہ کو روکا جاسکتا تھا۔ کانگریس پارٹی سارا الزام نرسمہا راؤ کے سر ڈال کر اپنا دامن نہیں بچا سکتی۔ مسجد کے تنازعہ کی شروعات کانگریس دور حکومت سے ہوئی تھی۔ مسجد کا قفل کس نے کھولا اور کس نے پوجاپاٹ اور کار سیوا کی اجازت دی۔
یہ کام کانگریس دور حکومت میں ہی ہوئے۔ مسجد کے مقام پر عارضی مندر کی تعمیر کا کام صدر راج کے دوران یعنی مرکز کی نرسمہا راؤ حکومت کی نگرانی میں ہوا۔ نرسمہا راؤ نے وزیراعظم کی حیثیت سے لال قلعہ سے اعلان کیا تھا کہ بابری مسجد دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کی جائے گی۔ ہندوستان کے مسلمان آج تک اس وعدہ کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں۔ نرسمہا راؤکے بعد کانگریس کو مرکز میں اقتدار حاصل ہوا لیکن اپنے وزیراعظم کے عہد کی تکمیل پر کانگریس نے توجہ نہیں دی۔ اتنا ہی نہیں مسجد کی شہادت سے متعلق مقدمہ کی عاجلانہ یکسوئی اور خاطیوں کے خلاف کارروائی میں بھی یو پی اے حکومت نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے نام نہاد سیکولر قائدین نے اس مسئلہ پر اپنی سیاسی دکان چمکانے کا کوئی موقع نہیں گنوایا ۔ ملائم سنگھ نے مسلمانوں کی تائید سے اترپردیش میں اقتدار حاصل کیا لیکن بابری مسجد شہادت کے اصل ملزم کلیان سنگھ کو گلے لگایا اور ان کی پارٹی سے اتحاد کیا۔ کلیان سنگھ جنہیں لبرہان کمیشن نے مسجد کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا اور سی بی آئی چارج شیٹ میں بھی ان کا نام درج ہے۔ اس کے باوجود ملائم سنگھ یادو نے کلیان سنگھ سے دوستی کی اور سیکولرازم اور مسلم دوستی کا دعویٰ بھی برقرار ہے۔ کلیان سنگھ کی جب در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بی جے پی میں گھر واپسی ہوئی تو نریندر مودی نے انہیں ستمبر 2014 ء میں راجستھان کا گورنر مقرر کیا۔ وہ ہماچل پردیش گورنر کی زائد ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ جس شخص نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرنے کے بعد مسجد کا تحفظ نہیں کیا اور جسے عدالت نے ایک دن کیلئے قید کی سزا بھی دی، اسے دستوری عہدہ پر فائز کرنا دستور کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے ؟ نریندر مودی کا دستور سے احترام کا دعویٰ کہاں گیا؟ کیا یہی دستور کی پاسداری ہے کہ دستور کی دھجیاں اڑانے والے شخص کو دستوری عہدہ پر فائز کیا جائے۔ بابری مسجد شہادت کی ایک اور ملزم اوما بھارتی کو مرکزی کابینہ میں شامل کیا گیا۔
جب مظفر نگر فسادات کے ملزم اور ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے والے عناصر مرکزی کابینہ میں ہوں تو پھر بابری مسجد کے قاتلوں کو اہم عہدوں سے نوازنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ بابری مسجد کی شہادت نے کئی نام، نہاد سیکولر چہروں سے نقاب الٹ دی ہے۔ سنگھ پریوار کی نظریں اب ملک کی دیگر تاریخی مساجد پر ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ سابق میں یہ مندر تھے۔ ظاہر ہے کہ جب تک مرکزی حکومت ان کی سرپرستی کرے گی ، ایسے عناصر سر اٹھاتے رہیں گے۔ معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہمارے ماضی کی ایک عمارت یہ کہہ رہی ہے
بچانے والے گرانے والے سب ایک نکلے