بوٹوں کی دھمک سنائی دے رہی ہے

تاریخ جغرافیے کے سامنے ہاتھ باندھ رہی ہے، لیکن گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔ مجھے ۱۹۹۹ یاد آرہا ہے جب وزیراعظم نواز شریف اسی طرح ہوا کے گھوڑ ے پر سوار تھے اورآرمی چیف مشرف کو برطرف کرکے ضیاء الدین کو فوج کا چیف بنانا چاہتے تھے۔ وہ مشرف کے جہاز کے کراچی ایرپورٹ پر اترنے کا انتظار کرنے کو بھی تیار نہیں تھے پھر مجھے ۲۰۰۰ کی یادیں گھیر رہی ہیں جب سعودی عرب نے مشرف سے مختلف وعدے کرکے شریف خاندان کے لئے معافی کا انتظام کروایا اس وقت میاں صاحب کو نہ آئین یاد تھا نہ اپنے قریبی ساتھی صرف پاکستان سے نکلنے کی فکر تھی۔ قسمت ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہے اس لئے وہ تیسری بار وزیر اعظم بھی بن گئے اب پھر وہی صورت حال ہے۔ اس وقت بھی وزیر اعظم کسی کو خاطر میں نہیں لارہے انتقام کی آگ ہے کہ رائیونڈ سے وزیراعظم ہائوس تک بھڑک رہی ہے خواہش فقط یہ ہے کہ سابق صدر کو ہتھکڑی لگے اور سزائے موت سنائی جائے پھر وہ ایک بادشاہ کی حیثیت سے اس سزا کی معافی کا سوچیں ۱۹۹۹ میں بھی ان کا خیال تھا کہ وہ مکمل اختیار رکھتے ہیں فوج بھی آئین کی پابند ہے کس کی مجال ہے کہ منتخب سربراہ حکومت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے ۔

مشرف نے عدالت میں حاضر ہوکر اپنے خلاف غداری کی فرد جرم سن لی ہے اور کہا ہے کہ وہ قصوروار نہیں ہیں ان پر الزامات غلط ہیں۔ یہ دن پاکستان کی تاریخ کا یقینی طور پر غیر معمولی دن تھا کہ پاکستانی فوج کا ایک سابق چیف عدالت کے کٹہرے میں کھڑا جواب دہ تھا ۔عوام کی آنکھیں ایسے منظر کے لئے ترستی رہی ہیں۔ لیکن قوم اس پر متحد نہیں ہے ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس مقدمے کو اچھالا جارہا ہے ملک کو بے شمار خطرناک چیلنجوں کا سامنا ہے۔ طالبان اپنی شرائط منوارہے ہیں مذہبی انتہا پسندی غالب آرہی ہے بلوچستان میں عام لوگ تحفظ سے محروم ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی پر پاکستان نے کوئی واضح پالیسی وضع نہیں کی ہے۔ بھارت کے لئے ایم ایف این کا معاملہ بار بار التوا میں چلا جاتا ہے ۔صوبوں اور وفاق میں کئی اختلافات ہیں ۔فوج سے طالبان سے مذاکرات پر بھی ہم آہنگی نہیں ہے فوج کسی وقت بھی وزیرستان میں آپریشن شروع کر سکتی ہے، کیونکہ عوام طالبان کو پاکستان دشمن اور ملک کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔

مشرف کے سلسلے میں بھی فوج اپنے سابق چیف کی اس حد تک توہین اور بے عزتی پر بھی برہم ہے ۔۔فوج پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں اب بھی ایک غالب عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ایک منظم قوت ہے جہاں اپنے چیف کی بات ہی حرف آخر ہے قومی سیاسی پارٹیوں میں یہ ڈسپلن نہیں ہے ہمارا سیاسی نظام ابھی اتنا مستحکم نہیں ہے کہ وہ ایک منظم قوت سے زیادہ دیر تک سرد جنگ جاری رکھ سکے۔اسلام آباد میں یہ کہانیاں عام ہیں کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل مشرف کے خاندانوں میں آپس میں بڑی قربت رہی ہے جنرل راحیل کے بڑے بھائی شہید شبیر شریف مشرف کے ہم جماعت تھے۔ گھروں میں آنا جانا تھا شبیر شریف کی والدہ مشرف کو بیٹا کہتی تھیں اور مشرف کی والدہ شبیر کو بیٹے کی طرح چاہتی تھیں یہ جذباتی رشتے اس وقت تڑپ رہے ہیں ۔
دونوں طرف شریف ہیں ان میں سے کسی ایک کو تاریخ کی آواز سننی ہے اور فیصلہ کرنا ہے جس سے ملک کسی نئے بحران کا شکار نہ ہو ۔شہید بے نظیر جب منتخب وزیر اعظم بنیں ان پر بھی پارٹی کے ایک بڑے حصے کا دبائو تھا کہ جنرل ضیا کے گھر والوں سے انتقام لیا جائے اور فوج کوسبق سکھایا جائے، لیکن انہوں نے تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کیا ۔حالانکہ ان کے تو والد کو پھانسی دی گئی تھی۔ انہوں نے ملکی استحکام کو فوقیت دی ۔اب تو ایک اور جذباتی سانحہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔ مشرف صاحب کی والدہ سخت بیمار ہیں ان کی عمر بھی ایسی ہے کہ کسی وقت بھی روح قفس سے آزاد ہو سکتی ہے یہ المیہ ہونے کی صورت میں انسانی ہمدردیوں کا سیلاب کس کو بہا لے جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سیاسی پارٹیاں صرف سیاست کر رہی ہیں آصف زرداری موقع سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ میاں صاحب کو مشرف سے نرمی کے اظہار کا رخ اختیار نہیں کرنے دے رہے صورت حال کچھ بھی ہو نواز شریف مشرف کو باہر جانے دیں تب بھی پی پی ہنگامہ کرے گی اور میاں صاحب پر بزدلی کا الزام عائد کرے گی اور اگر کوئی المیہ برپا ہوگیا تب بھی کہے گی کہ میاں صاحب نے انسانی قدروں کو پامال کیا ۔

ملک کے سنجیدہ حلقے ایک بار پھر منتخب حکومت اور فوج کے درمیان تنائو بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ اس میں عدلیہ جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کررہی ہے میڈیا کا بڑا حصہ بھی یہی کردار ادا کررہا ہے۔ تصادم کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ایک اور خطر ناک سوچ یہ پیداہورہی ہے جس کا اظہار کراچی میں کھل کر کیا جارہا ہے کہ مشرف کے ساتھ یہ سلوک اس لئے روا رکھا جارہا ہے کہ وہ دھرتی کا بیٹا نہیں ہے وہ اردو بولنے والا ہے آخر میں ان کی وکالت کے لئے جو بیرسٹر سامنے آئے وہ ایم کیو ایم کے سینیٹر ہیں اور مشرف صاحب کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر زور بیان بھی صرف ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کی طرف سے آیا ہے ۔ملک پہلے ہی لسانی نسلی عصبیتوں کی وجہ سے تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے۔ مشرف کیس میں یہ رخ قومی اتحاد کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔آئین کی بالا دستی، قانون کی حکمرانی قطعی لازمی ہے

، لیکن اس کا اطلاق ہر شعبے اور ہر شخص پر ہونا چاہیے ۔یہ سب کچھ اتنی تفصیل سے اس لئے بیان کیا ہے کہ پاکستان میں یہ مقدمہ دیگر سب امور پر حاوی ہوگیا ہے۔ ڈالر کی کم قیمتی بھی اس وقت سب بھول چکے ہیں۔ شرطیں بھی لگ رہی ہیں کہ مشرف کو باہر جانے کی اجازت ملے گی یا نہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز سے بری طرح ہار کر گھر واپس آچکی ہے۔ پاکستان کے لوگ کرکٹ بورڈ کے سربراہ نجم سیٹھی کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم صحافی شرمندہ ہیں کہ وہ ہماری برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ انہوں نے نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مسلم لیگ ن کو کچھ سیٹوں پر دھاندلی سے جتوایا تھا۔ اس لئے یہ بڑا عہدہ انہیں انعام کے طور پر دیا گیا ۔کرکٹ ہمارے ملک کا مقبول ترین کھیل ہے اس میں شکست برداشت ہی نہیں کی جاتی ۔سارے چینل اب ہار کی وجوہات پر پروگرام کر رہے ہیں
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800