تعمیری کام تین چوتھائی مکمل، ایک لاکھ پناہ گزینوں کی گنجائش،خراب موسم باعث تشویش
ڈھاکہ ۔ یکم ؍ اکٹوبر(سیاست ڈاٹ کام) بنگلہ دیش نے لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک دوردراز کے جزیرہ پر منتقل کرنے کا منصوبہ فی الحال ملتوی کردیا ہے۔ یاد رہیکہ بنگلہ دیش نے جو منصوبہ تیار کیا تھا اس کی چاروں جانب سے مخالفت ہوئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ خود روہنگیاؤں میں بھی جو میانمار کی سرحد کے قریب زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے بھی بنگلہ دیش کی اس تجویز کو متنازعہ کہتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 3 اکٹوبر کو بھاشن چار میں تعمیر کئے گئے مقام جہاں پر ایک لاکھ پناہ گزینوں کو رکھنے کی گنجائش ہے، کا افتتاح وزیراعظم شیخ حسینہ کرنے والی تھیں۔ حالانکہ حکومت بنگلہ دیش کوبار بار یہ انتباہ دیا گیا تھا کہ جس جزیرہ پر پناہ گزینوں کو منتقل کیا جانے والا ہے وہ جزیرہ ہمیشہ خراب موسموں کی زد میں رہتا ہے جس سے پناہ گزینوں کی کثیر تعداد کو جان کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تاہم بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ 280 ملین ڈالرس کے مصارف سے ایک دلدلی علاقہ کو اس قابل بنایا گیا ہے جہاں انسانوں کو تمام بنیادی سہولیات کے ساتھ آباد کیا جاسکے تو پھر یہ لازم ہوجاتا ہیکہ وہاں انسانوں کو آباد کیا جائے۔ روہنگیاؤں کو پناہ گزین نہ سمجھتے ہوئے اچھے انسان سمجھنا زیادہ ضروری ہے اور انہیں وہاں آباد کرنے کا عمل فی الحال کچھ تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ لیفٹننٹ کرنل عالمگیر کبیر نے مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر میڈیا سے کہا کہ نئے جزیرہ کے افتتاح کی نئی تاریخ کا متعاقب اعلان کیا جائے گا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ یہ متنازعہ منصوبہ 2015ء سے ہی زیرغور ہے اور منصوبے کے مطابق یہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہوچکا ہے۔ متعلقہ عہدیداروں نے قبل ازیں یہ بیان دیا تھا کہ میانمار کی سرحد کے قریب بہت زیادہ بھیڑبھاڑ والے پناہ گزین کیمپوں سے روہنگیاؤں کو بھاشن چار منتقل کرنے کا سلسلہ جون میں شروع کیا جائے گا کیونکہ اس وقت موسم باراں اپنے عروج پر نہیں ہوتا۔ یہی کام اگر جولائی یا اگست میں انجام دیا جائے تو موسم باراں کی شدت اس اہم کام میں رکاوٹیں پیدا کرسکتی ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہوسکا جبکہ گذشتہ ماہ یعنی ستمبر میں ڈیساسٹر مینجمنٹ کے ایک سینئر عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ مذکورہ پراجکٹ کا تین چوتھائی کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ بنگلہ دیش کی بحریہ بھی اس کام میں اپنا بھرپور تعاون دیتے ہوئے شیلٹرس کی تعمیر اور تخلیہ کا کام بخوبی انجام دے رہی ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود جب روہنگیاؤں کو یہ معلوم ہوا کہ انہیں کسی دوردراز کے غیرآباد جزیرہ میں منتقل کئے جانے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تو انہوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ حالانکہ مجوزہ جزیرہ کا فاصلہ بذریعہ کشتی ایک گھنٹہ میں مکمل کیا جاسکتا ہے لیکن سمندری راستے میں موسم اتنا خراب ہوتا ہیکہ ایک گھنٹے کا یہ سفر طئے کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسی دوران روہنگیا کمیونٹی کے قائد عبدالغفار نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ جزیرہ مین لینڈ سے منقطع ہے۔ فرض کیجئے کہ اگر کسی کو ہنگامی حالات میں طبی امداد کی ضرورت ہے تو وہ کیا کرے گا؟ دوسری طرف اقوام متحدہ کا استدلال ہیکہ بھاشن چار جزیرہ کو اگر کوئی روہنگیا منتقل ہونا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جانا چاہئے۔ کسی کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مقامی حکام بھی روہنگیا پناہ گزینوں کو یہ تیقن دے رہے ہیں کہ نئے جزیرہ کو منتقلی ان کیلئے (روہنگیا) محفوظ ہوگی۔ بنگلہ دیش کے رفیوجی کمشنر محمد عبدالکلام نے بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی اس معاملہ پر غوروخوض کررہے ہیں اور روہنگیا خاندانوں سے بات چیت کررہے ہیں۔