بندے ہو اگر رب کے تو رب سے مانگو

بے سوالی کی روح یہ ہے کہ آدمی بے نیاز رہے، کسی پر ذرا بھی بوجھ نہ بنے، کسی کو زحمت نہ دے، کسی پر بار نہ بنے۔ حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ ’’کسی پر بار نہ بنو، کسی پر بوجھ نہ ڈالو‘‘۔ صوفیۂ کرام جو اپنے آپ کو فقیر کہتے اور لکھتے رہے ہیں، اس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ ہم اللہ کے محتاج ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ وہ درویش کی تعریف ہی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’درویش وہ شخص ہے، جو حق تعالی کے سوا کسی اور طرف نظر تک نہ اٹھائے۔ دنیا و آخرت میں مبتلا نہ ہو، دونوں سے بے نیاز ہوجائے‘‘۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’امیروں کے دروازے پر کھڑے ہونے سے پرہیز کرو، کیونکہ وہ فتنہ کی جگہ ہے‘‘۔ فقیر کے دروازے پر امیر اچھا لگتا ہے، لیکن امیر کے دروازے پر فقیر بہت برا لگتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’جو شخص اپنے اوپر ’’سوال‘‘ کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالی اس پر ستر (۷۰) دروازے مفلسی کے کھول دیتا ہے‘‘۔ حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’بے ضرورت سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا‘‘۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو! تم اللہ کے محتاج و فقیر ہو اور اللہ تو غنی و بے نیاز ہے اور بذات خود لائق حمد و ثنا ہے۔ وہ بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج و فقیر‘‘۔ اب اگر ہم اللہ کے سوا کسی اور کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے کہ ایک بھکاری دوسرے بھکاری سے بھیک مانگ رہا ہو اور یہ ایک نامعقول بات ہے۔ مانگیں اس سے جو کسی کا محتاج نہیں، بلکہ سب اس کے محتاج ہوں۔ ہم نماز کی ہر رکعت میں اللہ تعالی سے کیا کہتے ہیں؟ یہی نا کہ ’’یااللہ! ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘۔ اب اگر ہم نماز کے باہر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلادیں تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہم اپنی نمازوں میں اللہ تعالی سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھ کسی اور کے آگے پھیلانے کے لئے نہیں بنائے، یہ ہاتھ اسی کے آگے پھیلانا چاہئے۔
ذرا اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو غور سے دیکھئے، اس میں گہری لکیروں سے اٹھارہ (۱۸) کا ہندسہ کندہ ہے۔ اب ذرا بائیں کی ہتھیلی کو دیکھیں تو اس میں گہری لکیروں سے اکیاسی (۸۱) کا ہندسہ کندہ ہے۔ ان دونوں ہندسوں کو جمع کردو توحاصل جمع ننانوے (۹۹) ہوگا، گویا ہمارے ہاتھوں میں ننانوے (۹۹) کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہاتھ صرف اس کے آگے پھیلنا چاہئے، جس کے ننانوے (۹۹) نام ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں میں اپنے ناموں کی مہر لگا رکھی ہے، یہ ہاتھ اس سے مانگنے کے لئے وقف ہیں، اب تم جس نام سے چاہو اس کو پکارو، لیکن پکارو اسی کو۔ اگر تم یہ ہاتھ اس کے آگے پھیلاؤ گے تو مراد بھی ملے گی اور عزت بھی ملے گی، لیکن اگر تم نے یہ ہاتھ کسی اور کے آگے پھیلادیئے تو سوائے ذلت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ فقیری کا یہی تقاضہ ہے۔ فقیری کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اسی فقیری پر فخر فرماتے تھے۔ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْن کے دَر کا بھکاری بھی غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْن ہوتا ہے، کیونکہ اس کے درکا بھکاری ساری دنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے، یعنی شان عبدیت بھی بڑی چیز ہے۔

حضرت امجد حیدرآبادی نے خوب کہا ہے:
ہر چیز مسبب سبب سے مانگو
منت سے ، خوشامد سے ، ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
بندے ہو اگر رب کے ، تو رب سے مانگو
سالک کو چاہئے کہ فقر و فاقہ سے ہرگز نہ گھبرائے۔ فقر و فاقہ پیغمبروں کی میراث اور خاصۂ خاندان نبوت ہے، اس لئے فقر و فاقہ کی شکایت نہ کرے، صبر و شکر کے ساتھ اس کو پوشیدہ رکھے۔ سوال سے بچ کر ’’حیاء‘‘ کی حفاظت کرے، جو ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالی ہماری حیاء اور ہمارے ایمان ک حفاظت فرمائے۔ یااللہ! ہم بے سوالی کی توفیق اور ہمت بھی تجھی سے مانگتے ہیں۔ ہمیں بے سوالی اور بے نیازی کی توفیق و ہمت عطا فرماکر ہماری حیاء اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرما۔ (آمین)