بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی ماہِ صفر المظفر اور ہمارا معاشرہ

صفرالمظفر لغوی اعتبار سے اِس کے معنی خالی یا زرد کے ہیں ۔ ایامِ جاہلیت میں اس نام کے دو مہینے تھے صفرالاولی اور صفرالآخرہ۔ اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوا تو صفرالاولی کی جگہ محرم الحرام نے لے لی اورصفرالآخرہ ، صفر المظفر بن گیا۔ صفر کو صفر اس لئے کہا گیا کہ عرب اس ماہ میں قتل و غارت گری کرتے تھے اور ان کے گھر خالی رہتے تھے ۔ یہ بھی روایت ہے کہ جب ابتداء میں یہ نام وجود میں آیا تو یہ مہینہ موسمِ خزاں میں آتا تھا اور درختوں کے پتے زرد ہوجاتے تھے۔ صفر کے ایک اورمعنی عربی میں پیٹ کے وہ کیڑے ہیں جو بھوک لگنے پر آنتوں کو کاٹتے ہیں ۔ اس ماہ میں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے ۔ یہ اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے۔
اﷲرب العزت کا ہم تمام مسلمانانِ عالَم پر احسان ِعظیم ہے کہ اُس نے ہم بندوں کو ایک تو خیر امت ہونے کی کامیابی کی بشارت سنایا ہے اور دوسرا اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے نعلین پاک کے تصدق، ارض و سما کی بے حساب نعمتیں عطا فرمایا۔
ہم مولائے ذوالجلال کا شکر ِحقیقی اختیار کرنے کے بجائے، دور جاہلیت کے بے جا رسم و رواج کے پیچھے پڑکر اپنی قیمتی جانوں کو برباد کر رہے ہیں،جو کہ ہم سب کے مسلم معاشرے کیلئے ایک لمحۂ فکر ہے۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے میں یہ بات کھل کرسامنے آرہی ہے کہصفر المظفر کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو کچھ لوگ اس ماہ مبارک کو غلط تصور کرتے ہوئے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ یہ آزمائش ِخداوندی ہے تو اِس میں ہمارا کیا قصور ہے؟
اے غیّور مسلمانو یاد رکھو! پہلے تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کو بنایا ہے تاکہ تمہیں آزمایا جائے یعنی تم سے امتحان لیا جائے کہ تم میں کون ہے وہ شخص جو حسن عمل کرے گا۔ (سورئہ ملک انتیسواں واں پارہ)
سورئہ ملک کی اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اگر اپنے بندوں کے استقامت کو دیکھنے کیلئے تکلیف میں مبتلا کرتا ہے تو صرف اتنی ہی تکلیف دیتا ہے جتنی کہ بندہ برداشت کرسکتا ہے۔ جیسا کہ سورئہ بقرہ کی آخری آیت میں ارشاد ہو رہا ہے ’’بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی‘‘۔{سورئہ بقرہ، پارئہ تین، آیت نمبردوسوچھیاسی} لیکن اکثر و بیشتر تو یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ خود لوگ اپنے ہاتھوں سے مصیبت کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں جس میں تھوڑی سی دنیوی شہرت یا دنیوی راحت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے اندر اللہ کی ناراضگی کو نہیں دیکھتے۔
اب اس کلامِ الٰہی کو سننے اور پڑھنے کے بعد بھی اگر عمل کی طرف راغب نہ ہوں اور یہ کہیں کہ اللہ ہم پر ظلم کررہا ہے نعوذباللہ جب کہ کہا گیاہیکہ لوگو! اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ تو معاف کرنے والا رحمن و رحیم ہے۔
مالک ذو الجلال اللہ سبحانہ ٗو تعالیٰ کی ذات پر مکمل یقین رکھنا چاہئے یہ دنیوی تماشہ ، لہو اور لعب ہوتے رہتے ہیں ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ اِس طرح کی چیزوں پرتوجہ نہ دیں بلکہ اﷲ سبحانہ ٗوتعالیٰ کے احکامات اور شریعت محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم جو ہم کو سکھلائے گئے ہیں ان پر عمل کرتے رہیں اور ہر لمحہ، ہر لحظہ اللہ اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مقدسہ پر بھروسہ کرتے رہیں تو یقینا اس ختم ہونے والی دنیا میں بھی کامیابی مل سکتی ہے اور مرتے وقت بھی خاتمہ ایمان پر ہوگا اور قبر کی زندگی بھی کامیابی و کامرانی حاصل ہوگی۔
صدقہ ادا کرنے کا طریقہ: اے ایمان والو یادرکھو ! ہمیں خیرات، صدقہ، اور دیگر کار ِخیر کا حکم دیا گیا ہے، اس کی کبھی کوئی بھی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں دورجاہلیت کے کچھ ایسے رسم و رواج داخل ہوگئے ہیںجس کی کوئی حد و نظیر نہیں ملتی ہے، مثلاً ماہِ صفر المظفر کے دوسرے دہے کی ایک تاریخ تیرہ(۱۳) صفر المظفر { جس کو تیرہ تیزی کے نام سے موسوم کیا گیا} کو جو عمل ہمارے معاشرے میں اختیار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ خاص اشیاء جیسے تیل، انڈے، دال اور پیسے رات بھر سرہانے یا تکئے کے نیچے رکھتے ہیں اور جیسے ہی صبح ہوجاتی ہے تو اُٹھ کر مانگنے والے لوگوں کو دیتے ہیں۔
اس طرح کے غیر ضروری رسم و رواج کو اختیار کر نے والے دن کو تیرہ تیزی کا نام دیا گیا ہے اور یہ ذہن میں رکھے ہوئے ہیں کہ اگرتیرہ ( ۱۳) صفر المظفر کا دن یہ عمل نہ کیا جائے تو ہم لوگوں پر مصیبتیں آجائیں گے۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ بندوں کو اپنے کلام یعنی قرآن مجید جو کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر تیئیس سال کے مختصر سے عرصہ میں نازل فرمایا، اُس سے سبق حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔آج ہم سب مسلمانان عَالم کے لئے بے حد ضروری ہے کہ دور جاہلیت کے رسم ورواج کو چھوڑ کر احکامِ خداوندی اور اطاعت محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے اوپر لازم کرلیں، اور یقین کامل رکھیں کہ جب تک یہ دونوں چیزیں {اﷲ تعالیٰ کے احکامات اور نبی علیہ السلام کے ارشادات} تھامے رکھیں گے تب تک سکون قلب کے ساتھ جینے کا موقع ملتا رہیگا۔ اور جس دن یہ سلسلہ چھوٹ جائیگا تو سمجھ لینا کہ وہ ہی ہماری بدنصیبی کا دن ہے۔
zubairhashmi7@gmail.com