بم رکن الدولہ سے متصل قبرستان کہاں گیا؟

حیدرآباد ۔ 28 ۔ فروری : بم رکن الدولہ کی 13 ایکڑ 17 گنٹے اراضی پر ایسا لگتا ہے کہ لینڈ گرابرس اپنے قبضہ کو یقینی بنالیں گے ۔ اس لیے کہ شہر حیدرآباد کی اس غیر معمولی اور میٹھے پانی کی 244 سالہ قدیم جھیل کے اطراف کی قیمتی اراضی کی ناجائز قابضین نے حصار بندی کرلی ہے ۔ حالانکہ سماجی جہد کاروں اور مقامی عوام نے مختلف تاریخی دستاویزات کے ذریعہ یہ واضح کیا کہ جس اراضی کی حصار بندی کی گئی وہ دراصل اس جھیل کی اراضی ہے ۔ شیورام پلی پولیس اکیڈیمی کے بالکل روبرو واقع بم رکن الدولہ آبی ذخیرہ کی قیمتی اراضی پر بڑی بے خوفی کے ساتھ قبضہ کیا گیا ۔ جی ایچ ایم سی ، حمڈا ، محکمہ مال سے لے کر حکومتی سطح پر سب کے سب نے خاموشی اختیار کی ۔ 9 فروری کو اس اراضی کی جب ناجائز قابضین حصار بندی کررہے تھے اس وقت مقامی عوام بے چین ہو اٹھے ۔ جب کہ سماجی جہد کاروں نے بتایا کہ منڈل ریونیو آفیسر نے بھی اپنا فون بند کرلیا تھا ۔ حیدرآباد میٹرو پولیٹن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی نے ریاست کے 5 اضلاع میں واقع 2857 اہم جھیلوں کی ایک فہرست تیار کی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ شہر کی یہ تاریخی جھیل کو اس فہرست میں شامل ہی نہیں کیا گیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لینڈ گرابرس کس قدر اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔ حمڈا کے حکام اور لینڈ گرابرس یہ بھول گئے کہ وہ اپنی فہرست میں بم رکن الدولہ کا نام شامل نہ کرتے ہوئے کچھ وقفہ کے لیے جھیل کو سرکاری ریکارڈ سے غائب کرسکتے ہیں لیکن قدیم ریکارڈس تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ۔ یہاں تک کہ بم رکن الدولہ کی اراضی کے بارے میں موجود نقشہ جات اور ریکارڈ کے بارے میں بھی وہ واقف نہیں ۔ ہم نے اپنی سابق رپورٹ میں ٹوپو گرافک شیٹ شائع کی تھی جس میں بم رکن الدولہ کا نقشہ پیش کیا گیا تھا ۔ اس طرح اب ایک ایسا دستاویزی ثبوت ملا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا آج بم رکن الدولہ کی جس اراضی پر لینڈ گرابرس قبضہ کررہے ہیں دراصل وہ وقف جائیداد ہے ۔

بم رکن الدولہ پر ناجائز قبضے سے متعلق رپورٹس کی اشاعت کے ساتھ ہی کئی مقامی افراد نے بتایا کہ انہیں میر عالم تالاب کے قریب واقع اس تاریخی جھیل کے تحفظ کی بہت فکر ہے ۔ محمد عمر نامی مقامی شخص نے دفتر سیاست پہنچ کر 77 سال قبل کا آصف جاہی جریدہ اعلامیہ کی ایک کاپی پیش کی ۔ 20 جنوری 1358 ، 18 صفر المظفر کے اس جریدہ اعلامیہ میں صفحہ نمبر 81 پر مہتمم اوقاف سر رشتہ امور مذہبی سرکاری عالی ایک اشتہار شائع کروایا گیا جس میں بتایا گیا کہ اس جائیداد کو درج کتاب الاوقاف کیا جائے ۔ اس اشتہار میں بم رکن الدولہ کی موقوفہ جائیداد کے حدود بھی بتائے گئے ۔ دوسری طرف مقامی عوام نے بتایا کہ اس اراضی پر حالیہ عرصہ تک کئی قبور تھے لیکن لینڈ گرابرس نے ان کا نام و نشان مٹادیا ۔ آپ کو بتادیں کہ سالار جنگ میوزیم میں آج بھی معاصر دکن نامی ایک کتاب ہے جس میں بم رکن الدین دولہ کی تمام تفصیلات موجود ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1770 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواب رکن الدولہ نے یہ جھیل تعمیر کروائی تھی اور اس کا صاف و شفاف میٹھا پانی شاہی خاندان سے لے کر عام شہری بھی استعمال کرتے تھے ۔ یہ بھی بتادیں کہ بم رکن الدولہ کبھی 104 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا تھا ۔

لیکن بڑے بڑے تالابوں اور کنٹوں کو ہضم کرنے والے پیشہ وارانہ ماہر لینڈ گرابرس نے اس کی کافی اراضی کو ہڑپ لیا ۔ دوسری طرف قریب میں واقع مسلم اکثریتی بستیوں کنگس کالونی ، رشید کالونی ، شاستری پورم ، بن تریف کالونی ، رگھویندر کالونی کے قریب کوئی قبرستان نہیں ہے ایسے میں مقامی مسلمان اس بات کا مطالبہ کرہے ہیں کہ جس اراضی پر قبضہ کیا جارہا ہے اسے قبرستان کے لیے حوالے کیا جائے ۔ عوام کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اس اراضی اسکام میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے کے لیے جامع تحقیقات کی جائے ۔ واضح رہے کہ غیر سرکاری تنظیم SOUL (Save our urban lakes ) کے عہدیدار بشمول ایس کے مسعود ، جسوین جیرات ، لبنیٰ فاطمہ ، محمد عمر کے علاوہ کمیونسٹ پارٹیوں کے قائدین بم رکن الدولہ ( نہر حسینی ) کو بچانے سرگرم ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نہر حسینی کے وجود کو مٹنے سے بچانے کے لیے کون آگے آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جریدہ اعلامیہ میں جس قبرستان کا ذکر ہے اس کا پتہ چلانے کے لیے وقف بورڈ کی تحقیقات شروع کرنا ضروری ہے ۔۔