بلند شہر کا تشدد فساد کی سازش ناکام ہوئی؟

رام پنیانی
جذباتی مسائل کے نام پر تشدد کا منظر نت نئے طریقوں سے بھڑکانے اور تشدد برپا کرنے کا تسلسل بنا ہوا ہے۔ حالیہ عرصے میں ہم نے بابری مسجد کے انہدام (1992ئ)، گودھرا ٹرین آتشزنی (گجرات قتل عام 2002ئ)، ایک سوامی کا قتل (کندھامل 2008ئ)، لوو جہاد کی آڑ میں فساد (مظفرنگر 2013ئ) پر اور کئی دیگر وارداتوں کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد دیکھے ہیں۔ عمومی نہج یہی لگتا ہے کہ سماج کے طبقات کے خلاف دشمنی پھیلائی جائے اور نفرت کو بڑھاوا دیا جائے جو عام طور پر تشدد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دو سال میں تشدد کی واردات میں جو عنصر غالب رہا وہ گایوں کو ذبح کرنے سے متعلق الزامات رہے ہیں، جس کی شروعات محمد اخلاق کے ہولناک قتل کے ساتھ ہوئی، اور جنید کی ہلاکت تک دیکھیں تو گائے اور بیف کو ’نفرت کے ہتھیار‘ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہی تسلسل میں بلندشہر میں دو افراد کی ہلاکت ہے، جن میں سے ایک ہندو پولیس آفیسر تھا۔

اس افسوسناک واقعہ سے فرقہ وارانہ تشدد کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ نہ صرف مذہبی اقلیتوں بلکہ اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی اپنے جال میں پھانس لیتی ہے۔ ویسے فرقہ وارانہ تشدد میں اکثریتی برادری کا زیادہ جانی نقصان تو نہیں ہوتا ہے لیکن تھوڑی تعداد میں وہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بلند شہر کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ بڑا شکار نہ صرف ہندو بلکہ اسٹیٹ پولیس کا آفیسر بھی ہے۔ ایس آئی ٹی تحقیقات سے ابھی پوری تفصیلات کا انتظار ہے، لیکن جو کچھ بھی میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوا وہ خوفزدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔
ڈسمبر 2018ء کی شروعات میں مسلمانوں کا ایک بڑا اجتماع بلندشہر میں منعقد کیا گیا۔ اس اجتماع میں مسلمانوں کی شرکت گنتی کے لحاظ سے لگ بھگ 50 لاکھ رہی۔ ایسے مذہبی اجتماعات ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہوتے رہتے ہیں۔بلندشہر کے موضع سیانہ میں اس اجتماع کے مقام سے تقریباً 70 کیلومیٹر دور یہ واردات پیش آئی۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے ذبح کی گئی گائے کی باقیات زرعی کھیت میں پھینک دیئے تھے۔ گاؤں والوں نے اس ڈھانچے کو دیکھا اور پولیس کو اطلاع دی، جس نے قانون کے مطابق کارروائی شروع کی۔ جب گائے کا ڈھانچہ ٹریکٹر میں لیجایا جارہا تھا، لگ بھگ 40 تا 50 نوجوان بیرون موضع سے اس گاؤں میں آدھمکے اور ٹریکٹر کو قبضے میں لے لیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارتیہ جنتا مورچہ اور بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والوں نے کھیت میں کچھ بیف پھینک دیا۔ بعض جرنلسٹوں کی رپورٹس اور ویڈیو رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سارا واقعہ باہر والوں کا منصوبہ بند سازش رہی۔ نوجوانوں نے ٹریکٹر کو پولیس اسٹیشن پہنچایا، وہاں ایف آئی آر درج کرائی اور ہنگامہ برپا کیا۔ بجرنگ دل کا مقامی سربراہ یوگیش راج جس نے ایف آئی آر درج رکائی، اسے اس واقعہ میں اصل ملزم بنایا گیا ہے۔ واقعے کے بارے میں مختلف باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ تاہم، اس واقعہ میں انسپکٹر سبودھ سنگھ کی سفاکانہ انداز میں موت ہوگئی۔

آر ایس ایس سے قربت رکھنے والے دائیں بازو کے چیانل سدرشن ٹی وی کے سریش چوانکھے نے اس تشدد کو مسلمانوں کے اجتماع سے جوڑنے کی کوشش کی۔ سریش کے ٹوئٹ کے مطابق تشدد میں اجتماع میں حصہ لینے والے مسلمانوں کا رول ہے۔ اس کو پولیس حکام نے مسترد کردیا اور ٹوئٹ کیا کہ اس واقعہ کا اجتماع سے کسی طرح کا کچھ لینا دینا نہیں ہے، جو کافی دور کے مقام پر منعقد ہوا اور پُرامن ایونٹ رہا۔
کئی دیگر نظریات بھی پیش کئے جانے لگے۔ ایک یہ کہ ایک شخص بنام جتندر ملک جو کشمیر میں تعینات راشٹریہ رائفلز کا حصہ ہے، وہ موقع واردات پر موجود تھا اور اس تشدد کا خاطی ہے۔ اُس کے بڑے بھائی نے الزام کی تردید کی اور اپنے بھائی کی بے گناہی ثابت کرنے کا وعدہ کیا۔ جتندر کو کشمیر میں اُس کی ڈیوٹی سے واپس لایا گیا، لیکن اُس کی ملی بھگت کے تعلق سے کچھ بھی بظاہر ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔ وہی روایتی سوال کہ کس نے ایسا کیا؟ آئیے! پہلے مقتول انسپکٹر (ایس ایچ او) سے متعلق کافی حیران کن حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ سبودھ سنگھ کو اُس کی بہن کے مطابق منصوبہ بند انداز میں قتل کیا گیا۔ سبودھ سنگھ نے ہی محمد اخلاق کیس کی تحقیقات کی تھی جس کے نتیجے میں کئی خاطیوں کی گرفتاری ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ سبودھ نے ہمیشہ بالخصوص ہندو۔ مسلم مسئلوں پر صحیح موقف اپنایا تھا۔ شاید وہ ہندوتوا گروپوں کو اپنے انتشار پسندانہ طریقوں کو عملی جامہ پہنانے نہیں دے رہا تھا۔ بی جے پی کی مقامی یونٹ اور متعلقہ تنظیموں نے عہدیداروں سے تحریری نمائندگی کرتے ہوئے سبودھ سنگھ کا تبادلہ کردینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس واقعہ سے متعلق دیگر نمایاں باتیں ملی جلی، پریشان کن اور دونوں طرف سے قابل قدر ہیں۔ ایک یہ کہ اجتماع میں شرکت کیلئے آئے کئی افراد کو شیو مندر میں آسرا دیا گیا۔

ایس ایچ او سبودھ سنگھ کے کم عمر بیٹے نے علاقے میں امن اور ہم آہنگی کیلئے اپیل کی ہے۔ اُس نے کہا: ’’میں سارے ملک سے اپیل کروں گا، برائے مہربانی ہندو۔ مسلم تشدد ترک کیجئے۔ لوگ معمولی اشتعال انگیزی پر متشدد ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو سمجھنا اور سوچنا چاہئے کہ وہ قانون کے پابند ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں ڈی ایس پی نے ستائشی فیس بک پوسٹ میں بیان کیا، ’’میں ابھیشک کو سلام کرتا ہوں جو اپنے والد کو کھودینے کے باوجود دشمنی اور تشدد کی زبان نہیں بول رہا ہے‘‘۔
دوسری طرف چیف منسٹر یو پی مسٹر ادتیہ ناتھ نے اس سانحہ کے بعد تبصرہ کیا کہ گاؤکشی سے متعلق واقعات بڑھ رہے ہیں اور ان کے تدارک کی ضرورت ہے۔ ’گائے کو ترجیح‘ کی عکاسی ایک بی جے پی ایم پی کے بیان سے ہوئی جس نے تحقیقاتی ٹیم کو یہ جائزہ لینے کا مشورہ دیا کہ آیا ایس ایچ او پر اس لئے حملہ ہوا کیونکہ وہ گاؤکشی اور گائے کی اسمگلنگ کے سدباب میں ناکام ہورہا تھا!
برسرخدمت پولیس عہدہ دار سبودھ سنگھ کا قتل یوگی۔ بی جے پی کی نظر میں گھٹ کر ثانوی چیز ہوگئی۔ یہ پریشان کن حالات کے آثار ہیں جہاں سیاست پر مودی۔ یوگی کی اجارہ داری ہے، جس میں جذباتی مسائل کو انسانی جانوں پر حاوی ہورہے ہیں؛ جو فی الحال انھیں پریشان نہیں کرتے ہیں کیونکہ ایسی چیزوں سے اُن کے انتشار پھیلانے پر مبنی ایجنڈے کو مدد ملتی ہے۔
دریں اثناء متعلقہ گاؤں میں جہاں واردات پیش آئی، ہر طرف عدم سلامتی کا ماحول ہے۔ وہ دیہاتی جنھوں نے بار بار کہا کہ اُن کے گاؤں نے تمام فرقہ وارانہ واقعات کا سوجھ بوجھ سے سامنا کیا جیسے بابری مسجد انہدام کے بعد کا تشدد، مظفرنگر تشدد وغیرہ، لیکن اب وہی اپنی حفاظت کیلئے خوفزدہ ہیں، وہی جگہوں پر خود کو غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں جہاں وہ کئی دہوں سے امن سے رہتے آئے ہیں۔ تشدد کے واقعات کے ایک طویل دور میں بلندشہر ایک اور نوعیت کا واقعہ ہے جو شاید منصوبہ بند تشدد ہے، جہاں بڑا شکار خود اکثریتی برادری کا بھی ہوسکتا ہے؛ جو گائے کی سیاست کا ایک اور شکار ہے۔
ram.puniyani@gmail.com