بلند شہر حادثہ،درجنوں سوالات جن کے جوابات شاید کسی کے پاس نہیں

نیرج کمار
گاؤکشی کے نام پر ایک اور ہنگامہ اور ایک ہلاکت لیکن اس مرتبہ ہلاک ہونے والااقلیتی طبقہ کا کوئی مسلم یا دلت نہیں تھا بلکہ ایک پولیس عہدیدار رہاجس نے مظلوموں کے حق میں اپنے فرائض کو پوری دیانتداری سے انجام دی تھی اور اسکا قصور بھی شاید یہی تھا کہ وہ انصاف کیلئے اٹھنے والی آواز بن گیا تھا۔ بلند شہر کے حادثہ کے طور پر اس واقعہ کو پیش کیا جارہا ہے حالانکہ یہ حادثہ بلند شہر میں پیش نہیں آیا تھا بلکہ ضلع بلندشہر کے قصبہ سیانہ، جو بلند شہر سے تقریباً 30 کلومیٹرکی دوری پر واقع ہے، اس قصبہ کے ایک گاؤں مہاو میں پیش آیا، جہاں جنگل میں گائے کا گوشت اور ہڈیاں وغیرہ پائی گئیں، جن کو لے کر اکثریتی طبقہ کے لوگوں نے راستہ جام کر دیا، پولیس چوکی چنگراوٹھی میں توڑ پھوڑ کی۔ اس کے بعد پولیس کے ساتھ مقابلہ آرائی ہوئی، اس مقابلہ آرائی میں سبودھ سنگھ کے سر میں گولی لگنے کی وجہ سے موت ہوگئی اور احتجاج کر رہے ایک شخص کی بھی موت ہوگئی، جس سے علاقے میں ماحول کشیدہ ہوگیا۔ انتظامیہ نے محنت و مشقت سے حالات پر قابو پالیا، یہ واقعہ اپنے دامن میں بہت سے سوال رکھتا ہے، مہاو جس میں اکثریت جاٹوں کی ہے، وہاں گائے کاٹنے کی ہمت کون کرسکتا ہے؟ جنگل میں گائے کس نے اورکیوں کاٹی یہ بہت بڑا سوال ہے؟ اس کے پیچھے کیا مقصد تھا؟ کیا یہ بہت بڑے حادثہ کی تمہید تھی؟ جس کو سبودھ سنگھ نے اپنا خون بہا کر روک لیا؟ اور نفرت پر محبت نے فتح حاصل کی، اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جب سارے مسلمان اجتماع میں شریک تھے، بلکہ پورے ملک سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اجتماع میں شریک ہورہے تھے، یہاں کون تھا جس نے اس خوفناک واردات کو انجام دیا؟ اور ملک کو نفرت کی آگ میں جلانے کی کوشش کی؟ یہ تو عین دعا کا وقت تھا اور مسلمان رو رو کرملک کی ترقی اور امن کی دعائیں مانگ رہے تھے، اس وقت گائے کے باقیات ملنا بہت سے سوالوں کو پیدا کرتا ہے، کیا یہ انہی افراد کام ہے جو احتجاج کر رہے تھے؟ کیا یہ ملک میں نفرت و تعصب کی آگ لگانے کی کوشش تھی؟ کیا یہ اجتماع کو ناکام بنانے کا منصوبہ تھا؟ کیا یہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی تدبیر تھی؟ بجرنگ دل کے سو افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا چکا ہے، چار افراد حراست میں ہیں، یہ صورت حال ذہن میں مزید سوالات کو جنم دیتی ہے اور اس واقعہ کے پس منظر و پیش منظر پر سوچنے کے لئے مجبور کرتی ہے، جس پیش منظر کو سبودھ سنگھ کی موت نے بدل دیا ہے، سوالات بہت ہیں لیکن حقائق کیا ہیں ؟ ابھی اس کا پورے طورے پر علم نہیں ہے، ریاستی حکومت کی ایجنسیاں اس سلسلے میں تحقیقات کر رہی ہے، امید ہے جلد ہی اس فساد کی جڑ تک پہنچا جائے گا، اس واقعہ کے مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے گی، وہ کوئی بھی ہوں اور کسی بھی طبقہ سے وابستہ ہوں، انہیں سزا دیا جانا ہندوستان کی خوشگوار فضا کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے، اس واقعہ نے ریاست کے لا اینڈ آرڈر پر بھی سوال کھڑا کردیا ہے، جہاں پولیس کے عہدیدار محفوظ نہیں ہیں، وہاں عام آدمی کے تحفظ کا مسئلہ ذہنوں میں پیدا ہونا یقینی بات ہے، اس کے علاوہ ہمارے ملک کے نام نہاد گاؤ رکھشکوں کو بھی صبر سے کام لینا چاہیے، انہیں اپنے ملک کے قوانین پر یقین رکھنا چاہیے اور قانون توڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیا انسانوں کا خون بہانا درست ہے؟ کیا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے؟ کیا گائے کے نام پر انسانوں کا قتل کیا جانا انسانیت ہے؟ اس سلسلے میں گائے کی حفاظت کا علم بلند کرنے والے افراد کو سوچنا چاہیے اور حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، کہ ان افراد کو باور کروایا جائے کہ اس طرح انسانیت کا قتل روا نہیں ہے اور ہم قاتلوں کو سخت ترین سزا دیں گے،انہیں معاف نہیں کیا جائے گا، اب جن افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، یا جن کو مجرم خیال کیا جارہا ہے، ان کے جرم کو ثابت کریں، تحقیقات کی جائیں کہ وہ مجرم ہیں یا نہیں اگر وہ واقعتاً مجرم ہیں، تو انہیں سخت ترین سزا دی جائے اور اس معاملے کا سچ جاننے کی حتی الامکان کوشش کی جائے، تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات ہمارے قلوب کو تکلیف میں مبتلا نہ کریں، اس کے علاوہ مذہبی پیشواؤں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گائے کے محافظوں کو انسانیت کا سبق بھی پڑھائیں اور انسانوں کی عظمت سے روشناس کروائیں۔ وزیر آعظم نریندر مودی اور یوپی کے چیف منسٹر یوگی بھی اپنی تقریروں میں اس بات کو شامل کریں کہ گائے کے نام پر انسانوں کا قتل کیا جانا مذہبی اعتبار سے بھی ناپسندیدہ ہے، اگر ایسا ہوا تو ان واقعات میں بہت حدتک کمی آئے گی۔ اس طرح کے مواقع پر میڈیا کو بھی خاص خیال رکھنا چاہئے، جب قریب میں عالمی اجتماع ہو رہا تھا، تو چینلز کو اپنی سرخیوں میں بلند شہر کو حاوی نہیں رکھنا چاہیے تھا اور سرخیاں اس طرح پر بنانی چاہئے تھیں کہ معاملہ واضح ہوجاتا اور ہر آدمی کو علم ہوجاتا کہ واقعہ بلندشہر میں نہیں، بلکہ اس سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں ہوا ہے، گاؤں کا نام ذکر کیا جاتا، جس سے لوگوں کے ذہن اجتماع کی طرف مائل ہی نا ہوتے اور قصبہ سیانہ کا ذکر کیا جاتا تو بھی بہتر تھا، خبر کو اتنا سنسنی خیز بنایا جانا اصولوں کے خلاف ہے کہ وہ خبر ہی باقی نہ رہے بلکہ وہم پیدا کرنے کا سبب بن جائے، رپورٹس اس طرز پر ترتیب دینی اور پیش کی جانی چاہئیں کہ شکوک و شبہات ختم ہوجائیں، یہی ایک رپوٹر اور اینکر کی خصوصیت ہے۔ میڈیا کی عظمت اور فن صحافت کی آبرو کا خیال رکھنا اس شعبے سے متعلق ہر شخص کی ذمہ داری ہے، جمہوریت کا چوتھا ستون کمزور ہوا تو جمہوریت کی خوبصورت عمارت بدرنگ ہوجائے گی۔ سبودھ سنگھ کی موت نے یہ بھی واضح کر دیاکہ ملک کا کثیر طبقہ محبت و انسانیت کا حامی ہے، وہ مسلمانوں سے محبت کرتا ہے، انہیں اپنا بھائی خیال کرتا ہے، جس کی مزید تصدیق بلند شہر اور قرب و جوار کے غیر مسلموں کی محبت اور ضیافت سے ہوگئی، اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی غیر مسلموں نے جس طرح ضیافت کی مسلمان اس کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے ہیں اور نمازیں ادا کرنے کے لیے ان کے لئے اپنے گھروں کے دوازے کھول دئے، حتی کہ مندر تک میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی، اس سے ثابت ہوگیاکہ انسانیت کبھی نہیں مرسکتی، انسانیت کے چراغوں کو جو نفرت کی آندھیاں بجھانا چاہتی ہیں، ہمیں ان آندھیوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔