بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے

مودی حکومت کے 11ماہ … مقبولیت میں کمی
گری راج سنگھ کا سونیا گاندھی پر وار

رشیدالدین
ترقی اور بہتر حکمرانی کے نعرہ کے ساتھ دہلی کے سنگھاسن پر قبضہ جمانے والی نریندر مودی حکومت اقتدار کے 11 ماہ میں اپنی مقبولیت کھونے لگی ہے۔ 11 ماہ کی تکمیل پر میڈیا اداروں نے ایک سروے کا اہتمام کیا جس میں حکومت سے عوام کی مایوسی کا اظہار ہوا ہے۔ حکومت کی کارکردگی پر عوامی رائے جاننے کیلئے کیا گیا یہ سروے بی جے پی اور نریندر مودی کیلئے آئی اوپنر سے کم نہیں۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے سے کل تک جو عوام متاثر تھے، آج ان کی رائے بدلنے لگی ہے۔ دہلی اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کی بدترین شکست اور مودی کے جادو میں کمی کا تسلسل ملک کے دیگر علاقوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے ۔ سروے میں نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف نہ صرف کم ہوا بلکہ ووٹ فیصد میں کمی کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ 11 ماہ قبل جس بی جے پی کو لوک سبھا میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، آج چناؤ کی صورت میں تنہا اپنی طاقت پر تشکیل حکومت کے موقف میں نہیں رہے گی بلکہ اسے حلیف جماعتوں کی تائید سے حکومت تشکیل دینا پڑے گا۔ اندرون ملک کارکردگی سے زیادہ خارجی سطح پر مودی کی دلچسپی اور سرگرمی کو بھی عوام نے محسوس کیا ہے۔ جس طرح ہم نے اپنی گزشتہ تحریروں میں کہا کہ نریندر مودی نے ریاستوں سے زیادہ بیرون ممالک کے دورے کئے ہیں، اسی طرح عوام نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ دنیا بھر میں ہندوستان کے امیج کو بہتر بنانے کیلئے نریندر مودی کی مساعی کا 34 فیصد عوام نے اعتراف کیا۔ مودی اگرچہ آج بھی تمام قومی قائدین میں مقبولیت کے اعتبار سے سرفہرست رہے لیکن ان کی مقبولیت کا گراف گھٹ کر 36 فیصد ہوچکا ہے اور 15 تا 17 فیصد کے ساتھ اروند کجریوال دوسرے نمبر پر ہیں۔ ترقی میں اضافہ ، کرپشن کا خاتمہ اور تمام طبقات کے ساتھ یکساں سلوک سے متعلق وعدوں پر عمل آوری میں ناکامی کا اظہار عوام کی جانب سے کیا گیا ہے۔ صرف 13 فیصد عوام کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کرپشن پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ 48 فیصد نے آر ایس ایس کے ہندو راشٹر نظریہ کی مخالفت کی۔ عوام کی رائے ہے کہ نریندر مودی ملک میں فرقہ پرست طاقتوں پر کنٹرول کرنے اور منافرت کی سرگرمیوں پر روک لگانے پر ناکام ہوچکے ہیں۔ سروے میں یہ بھی کہا گیا کہ مودی راج میں اقلیتیں عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔ حکومت اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے اور ان میں تحفظ و سلامتی کا احساس پیدا کرنے سے قاصر ہے۔

سروے میں جو بھی رائے منظر عام پر آئی ہے ، اسے زبان خلق کہا جائے گا ، جسے حکومت نقارہ خدا کے طور پر قبول کرے۔ برسر اقتدار آتے ہی ملک میں جس طرح کی سرگرمیاں شروع کی گئیں، ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ یہی ہونا تھا۔ نریندر مودی کی بیرون ملک مقبولیت سے کیا فائدہ جب ملک کے عوام ان سے مایوس ہوں۔ مودی نے ترقی، کرپشن اور کارکردگی کے نام پر ووٹ مانگے تھے، نہ کہ دنیا میں ہندوستان کے امیج کو اونچا کرنے کیلئے۔ بیرون ملک کی ایسی مقبولیت کس کام کی جو اندرون ملک عوام کا دل جیتنے میں ناکام ثابت ہو۔ انتخابی مہم میں اس قدر وعدے کئے گئے کہ عوام نے اچھے دن کی امید میں اقتدار حوالے کیا لیکن حکومت کے 11 ماہ گزرنے کے بعد بھی عوام وعدوں کی تکمیل اور اچھے دنوں کو دیکھنے ترس رہے ہیں۔ عوام اب نعروں پر نہیں بلکہ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ بیرون ملک کالے دھن کی 100 دن میں واپسی اور ہر شہری کے اکاونٹ میں 15 لاکھ جمع کرنے کا وعدہ اب محض چناوی حربہ کہا جارہا ہے۔ آخر کس وعدہ پر عمل آوری کی امید کی جائے؟ راج دھرم اور یکساں سلوک کی بات کرنے والے نریندر مودی نے حکومت کی ذمہ داری جیسے آر ایس ایس پر چھوڑ دی ہے اور وہ صرف حکومت کے برانڈ ایمبسیڈر کی طرح پبلیسٹی میں مصروف ہیں۔ نفرت کے پرچارکوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندو راشٹر کے ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز ہوچکا ہے۔ نت نئے قوانین اور مذہبی و لسانی اقلیتوں کے حوصلے پست کرتے ہوئے انہیں محکوم بنانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود نریندر مودی، حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے زبان بند کئے ہوئے ہیں۔ کابینہ میں شامل افراد کے اشتعال انگیز بیانات پر کارروائی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔

بہتر حکمرانی کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے جب نراج کے راستہ پر چل پڑیں تو اس قدر کم مدت میں غیر مقبول ہونا فطری ہے۔ 11 ماہ میں عوام نے بی جے پی کو واضح اکثریت کے موقف سے نیچے پہنچادیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو باقی 4 برسوں میں بی جے پی کا زوال یقینی ہوگا۔ سروے میں کانگریس کے موقف میں بہتری کا اشارہ دیا گیا ہے اور عوام کی رائے ہے کہ کانگریس آئندہ 5 برسوں میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس تازہ ترین سروے کی روشنی میں بہار ، مغربی بنگال اور اترپردیش میں بی جے پی کے لئے انتخابی کامیابی کی راہ آسان نہیں ہوگی۔
کارکردگی کے اعتبار سے عوام کو مایوس کرنے والی بی جے پی نے رکنیت سازی کے ذریعہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مودی کے سپہ سالار اور وزیر باتدبیر امیت شاہ جو چالاکی کیلئے شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے ملک میں 10 کروڑ رکنیت سازی کا نشانہ مقرر کیا اور چار ماہ میں 8 کروڑ 80 لاکھ ارکان بنائے گئے ۔ اس طرح بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ اس نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جس کے ارکان کی تعداد 8 کروڑ 60 لاکھ ہے۔ 125 سالہ قدیم کانگریس کے ارکان کی تعداد 3 کروڑ 80 لاکھ ہے۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان 4.3 کروڑ اور ریپبلیکن کے 3.1 کروڑ ہیں۔ امیت شاہ نے آخر کیا جادو چلایا کہ بی جے پی دنیا کی بڑی پارٹی بن گئی۔

درحقیقت صرف فون کے مس کال کے ذریعہ یہ رکنیت سازی کی گئی۔ جو بھی رکن بننے میں دلچسپی رکھتا ہو، اسے مخصوص نمبر پر مس کال کرنا ہے۔ اس طرح بی جے پی مس کال پارٹی میں تبدیل ہوگئی۔ مودی کی مقبولیت کے گراف کو گرنے سے بچانے کیلئے یہ حکمت عملی اختیار کی گئی ۔اگر مس کال کے ذریعہ ہی رکن بنانا ہو تو ملک کی مجموعی آبادی کی نصف تعداد کو کوئی بھی پارٹی اپنا رکن بناسکتی ہے۔ ملک کی تمام ریاستوں میں بی جے پی کی نمائندگی نہیں ہے لیکن 8 کروڑ 80 لاکھ ارکان کا دعویٰ محض کسی مذاق سے کم نہیں۔ ان دنوں مرکزی وزیر گری راج سنگھ ، سونیا گاندھی کے خلاف متنازعہ ریمارک کے سبب میڈیا کی سرخیوں میں ہیں۔ گری راج سنگھ کیلئے متنازعہ ریمارکس کوئی نئی بات نہیں۔ کانگریس نے گری راج سنگھ کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے اور کابینہ سے برطرفی کی مانگ کی جارہی ہے۔ نریندر مودی حکومت کی حلف برداری کے دوسرے دن سے ہی بی جے پی اور سنگھ کے قائدین مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ اقلیتوں پر حملے اور ان کے مذہبی تشخص کو مٹانے کی سازش کی جارہی ہے۔ سونیا گاندھی کے خلاف گری راج سنگھ کا ریمارک قابل اعتراض ضرور ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گری راج سنگھ نے سابق میں جب بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیئے، کانگریس نے اس قدر شدت سے احتجاج نہیں کیا بلکہ صرف زبانی مذمت پر خود کو محدود رکھا۔ گری راج سنگھ نے مودی کی مخالفت کرنے پر مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا اور دہشت گرد سرگرمیوں میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کی بات کہی ۔ ان کے علاوہ بعض دیگر قائدین نے بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتیں اس وقت بھی اس شدت سے احتجاج کرتیں تو شاید سونیا گاندھی کے خلاف ریمارک کی نوبت نہ آتی۔ کانگریس پارٹی ملک میں ہندو ووٹ بینک کو گنوانا نہیں چاہتی ہے لہذا جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے بارے میں اس کا رویہ نرم ہے۔

مسلم دشمنی کے تسلسل کے طور پر گجرات حکومت نے انسداد دہشت گردی کے نام پر ایک سیاہ بل کو منظوری دی ہے جس کا مقصد دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔ نریندر مودی جس وقت گجرات کے چیف منسٹر تھے، 2004 ء اور 2009 ء میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام اور پرتیبھا پاٹل نے اس بل کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو واپس کردیا تھا۔ دونوں نے بل میں بعض ترمیمات کی سفارش کی تھی لیکن گجرات حکومت اپنے ایجنڈہ پر قائم رہی اور اسی بل کو موجودہ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی منظوری کیلئے روانہ کیا گیا جو زیر التواء ہے۔ اس قانون کے ذریعہ کسی بھی شخص کی ٹیلیفون ٹیاپنگ اور پولیس عہدیدار کے روبرو دیئے گئے بیان کو گواہی کے طور پر قبول کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ پولیس طویل مدت تک کسی کو بھی حراست میں رکھ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاہ قانون پوٹا اور مہاراشٹرا کے مکوکا قانون کی طرز پر ہے جسے کالعدم کردیا گیا ۔صدر جمہوریہ کی جانب سے اعتراضات کے باوجود بل کو من و عن حالات میں منظوری دینا گجرات حکومت کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قانون کے ذریعہ یقینی طور پر مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جائے گا۔ تجرباتی طور پر اسے گجرات میں منظوری دی گئی اور کسی طرح صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل ہونے کے بعد قومی سطح پر اس طرح کا قانون وضع کیا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی کے دور چیف منسٹری میں گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ، وہ سب پر عیاں ہے۔ آج بھی گجرات کی جیلوں میں سینکڑوں بے قصور مسلم نوجوان سنگین الزامات کے تحت محروس ہیں جن کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے۔ قومی سطح پر ذبیحہ گاؤ پر پابندی کی راہ ہموار کرنے کیلئے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں پابندی کا آغاز کیا گیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ملک گیر سطح پر ذبیحہ گاؤ پر پابندی کا اشارہ دیا ہے ۔ یقیناً یہ سنگھ پریوار کے ہندو راشٹر منصوبہ کا حصہ ہے۔ ملک کے حالات پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے
rasheeduddin@hotmail.com